ضلع کُرم کی خواتین پانی کے حصول کے لیےآج بھی دُوردارز سفر کرنے پر مجبور
پانی انسانی زندگی کی بنیادی ترین ضروریات میں سے ایک ہے۔غذا سے بھی ذیادہ اشد ضرورت انسانی جسم کو پانی کی ہوتی ہے مگر اِس اہم ضرورت کا آسانی سے دستیاب ہونا بھی ضروری ہے۔ دورحاضر میں گھر گھر نلکے، واٹر ٹینک اور طرح طرح کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس انتظامات موجود ہیں مگرہمارے مُلک میں اب بھی کئی ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں کہ جو ایسے انتظام سے اب تک محروم ہیں۔ اِن علاقوں میں ایک خیبرپختونخوا کا قبائلی ضلع کُرم بھی ہے جہاں کے لوگ خاص کر خواتین اور بچے آج بھی دُور دراز علاقوں تک سفر کرتے ہیں اور گھر پانی لاتے ہیں۔ ضلع کُرم کے لوگوں کے لیے پانی کا زریعہ آج بھی سرکاری کنویں، چشمے،نہریں اور ندیاں ہیں مگر لمحہءفکریہ ہے کہ انکی تعداد بھی ضرورت سے کم ہے۔
ضلع کرم تین حصوں پر مشتمل ہے: اپر کرم، سنٹرل کرم اور لوورکرم۔ اپر کرم میں کل ملا کر 160 ڈگ ویلزہیں جو پاڑاچنار سٹی اور اس کے ہمسایہ کاؤنسل میں واقع ہیں۔ ڈگ ویل مرکزی سرکاری کنواں ہوتا ہے جس سے پائپ لائنز گھروں تک جاتی ہیں اور لوگوں کے لیے پانی کے حصول میں کچھ آسانی ہو جاتی ہے،مگر یہ سہولت صرف اور صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے جو کہ اتنے زیادہ نہیں کیونکہ کرم کا زیادہ تر حصہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے ہے جیسے کہ کچ کینہ، کراہیلہ، نیستکوٹ، شاخ، شنگاک، بوشیرہ، غوزگڑی، مقبل، تری منگل اور دیگر علاقے ڈگ ویل کی سہولت سے محروم ہیں۔ اِن علاقوں میں خواتین اور بچے گھر سے باہر نکل کر گاؤں کے دُور دراز علاقوں تک سفر کرکے پانی کا بندوبست کرتے ہیں تاکہ روزمرہ کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔ اپر کرم میں تقریبا 700 کے قریب عام کنویں ہیں جو کہ آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے بہت کم ہیں ۔یہ خواتین اور بچے یا تو اپنے سروں پر بھاری مٹکے لاد کر پانی لے کر جاتے ہیں یا دیگر برتنوں میں، اِن علاقوں میں مجموعی طور پر صرف دو یا تین ڈگ ویلزہیں جو کہ تقریبا 5 سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ پیدل چل کر پانی بھرنے جانے والی خواتین اور بچوں کو یہ بہت دُور پڑتے ہیں۔ ایک اور لمحہِ فکریہ یہ بھی ہے کہ اکثر اِن گنے چُنے ڈگ ویلز پر بھی طاقت ور افراد نے قبضہ کیاہوتا ہے اورپانی دینے کے لئے ماہانہ 1500 سے 2000 روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اگر سوال کیا جائے کہ اِن کنؤں میں پانی کِس مقدار میں آتا ہیں تو اسکا حساب کچھ یوں ہے کہ دریاؤں اور ندی نالوں کے اِردگرد علاقوں میں 14 سے 16 گز زیرِزمین بورنگ سے پانی نکل آتا ہے۔اسی طرح دریا اور ندی کے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر بھی زیرِ زمین پانی 30 گز تک کھُدائی کرنے سے نکل آتا ہے۔ اوراگر 5 سے 10 کلو میٹر فاصلے پر دیکھا جائے تو زیر زمین 52 گز تک بورنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی دریا یا ندی سے جتنا دور ہوتے جائیں گے تو اُتنا ہی پانی زیر زمین گہرا ہوتا جائے گا۔
ضلع کرم سے وابستہ سماجی کارکن سید جمشید شیرازی کہتے ہیں کہ کرم میں پانی کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے مگر بدقسمتی سے حکومتی عدم توجہ کا شکار ہے،اگر کبھی نجی ادارے پانی کے مسئلےکو حل کرنے آئیں بھی توعدم تعاون کی وجہ سے کام نہیں کرپاتے۔ اس مسئلے سے خواتین اور بچے سب سے ذیادہ متاثر ہورہے ہیں کیونکہ ضلع کرم کا یہ دستور ہے کہ مرد اگر کمائی گھر لاتا ہے توعورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کہ تمام کام کرے جس میں باہر سے پانی لانا بھی شامل ہے چاہے اِس کا حصول کتنا ہی مشکل ہو۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبائلی اپنی خواتین کو تعلیم اور روزگار کے لیے باہر نہیں جانے دیتے تو پھر پانی کے لئے کیوں؟ اس کیوں کا جواب جمشید شیرازی یوں دیتے ہیں کہ کُرم کے ہرگاؤں میں سب لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں اوراِن میں آپس میں کوئی ستر( پردہ) نہیں ہوتا تب ہی خواتین مل جُل کر باہر جاتی ہیں اور گھر پانی لیکر اتی ہیں۔
ایسے ہی ایک اورسماجی کارکن خیال زمان اورکزئی کا کہنا ہے کہ باہر سے پانی بھر کرگھر لانے کے کام کو یہاں کے مرد اپنی انا اورغیرت کے خلاف سمجھتے ہیں تب ہی یہ مشکل کام خواتین کوسونپا گیا ہے۔ یہ خواتین روز 2 سے 3 یا 3 سے 4 کلو میٹر تک پیدل سفر کرتی ہیں اور سروں پر 3 سے 4 بھاری مٹکے لاد کر گھر لاتی ہیں اور اکثر چھوٹے چھوٹے بچے بھی اِن خواتین کے ساتھ شاملِ سفر ہوتے ہیں جن کے ننھے ہاتھوں میں پانی سے بھرے بھاری برتن ہوتے ہیں۔ حاملہ حالت میں یا ماہواری کے دِنوں میں بھی خواتین یہ سخت ڈیوٹی سر انجام دینے پر مجبور نظر آتی ہیں۔
پانی کے حصول کے لیے سنٹرل اور لوور کرم میں بھی پیچیدہ صورتِحال ہے۔ سنٹرل کرم کے سماجی کارکن حیات اللہ مجروح بتاتے کہ انکے گاوں اویدرہ میں کل 4000 آبادی ہے اور پورے اویدرہ میں صرف 2 کنویں ہیں، 1 مسجد میں اور دوسرا ایک صاحب اسطاعت شخص کے ذاتی مکان میں، پورے اویدرہ میں صرف 3 یا 4 چشمے ہیں ۔اب اس سے بخوبی انداذہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ، خاص کر عورتیں اور بچے کس تکلیف سے دو چار ہیں۔مجروح کا مزید کہنا ہے کہ سنٹرل کرم میں حکومت کی جانب سے 2020 اور 2021 میں ایک سکیم لانچ کی گئی تھی کہ ٹینکس کے ساتھ پائپ لائنز کنکٹ کرکے پانی کا انتظام کیا جائے مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ بد عنوانی کی نزر ہوگیا۔
لوور کرم کی بات کی جائے تو حالات سنٹرل سے بھی ذیادہ سنجیدہ ہیں۔ کنویں اور ہینڈ پمپس نہ ہونے کے برابر ہیں اور چشموں کی تعداد بھی کوئی خاص نہیں۔ یہاں ایک علاقہ ہے مرغے چینہ،جس میں دو بڑے گاؤں ہیں،ایک فاٹک اور دوسرا گوڑکی، کُل پانچ سو گھر آباد ہیں لیکن یہاں پانی کا ایک کنواں بھی نہیں،تمام لوگ دُوردرازعلاقوں سےگدھوں پر پانی لاتے ہیں۔ اسی طرح مسعود آباد کا علاقہ تقریبا چالیس ہزار گھروں پر مشتمل ہے،اور یہاں صرف ایک پائپ لائن ہے جس پر کافی رش ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ کافی سنجیدہ ہے مگر حکومت کے عدم توجیحی کا شکار ہے۔ علاقے سے وابستہ تمام سماجی کارکن اس بات پر یکساں متفق ہیں کہ عام طور پر لوگ جب صبح اٹھتے ہیں تو روزگارکی فکر کرتے ہیں مگر کرم میں جب لوگ صبح اٹھتے ہیں تو یہ فکر کرتے ہیں وضو نماز کا پانی کہاں سے اور کیسے لانا ہیں،پانی ہوگا بھی یا نہیں اور اکثر پانی نہ ہونے کی وجہ سے بچے بغیر ناشتہ کئے اسکول جاتے ہیں اور کافی نڈھال حالت میں گھر لوٹتے ہیں۔کرم کی رہائشی خواتین کا کہنا ہیں کہ یہ تمام مسائل آخر میں اُن ہی کے گلے پڑتے ہیں کیونکہ پانی لانے کی یہ کٹھن زمہ داری انکے سر ہے، پہلے پانی بھر کر،سر پر لاد کر گھر لانا اورپھر اِس ڈر سے احتیاط سے پانی کو استعمال کرنا کہ کہیں پانی دن ڈھلنے سے پہلے ختم نہ ہوجائے۔
پانی کے اس مسئلے کو لیکر جب ہم نے خواتین سے اُن کی مجبوری سے متعلق سوال کرنا چاہا کرنا تو کوئی خاتون ڈر کے مارے جواب دینے کو تیار نہیں تھی اور ہرعورت کی زبان سے ایک جملہ سننے کو ملتا کہ ”گھر کو مردوں کو اگر پتہ لگا تو ہماری خیر نہیں ہوگی“۔
چند ایک خواتین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی مشکل بیان کی۔ بی بی رقیہ (فرضی نام) 12 سالہ بچی ہے جسکا تعلق لوورکرم سے ہے۔ وہ پنجم جماعت کی طالبہ ہے لیکن تعلیم حاصل کرنے کی اجازت اُسے بہت مشکل سے ملی ہے۔ رقیہ اکثر اسکول سے غیر حاضر ہوتی ہے کیونکہ اُسے والدہ کے ساتھ پانی لانے دور دراز علاقے تک سفر ہوتا ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ روز کی اِس ذمہ داری کی وجہ سے وہ کئی کئی ہفتوں تک اسکول نہیں جا پاتی جس وجہ سے اساتذہ بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ بی بی رقیہ نے انتہائی دکھی لہجے میں بتاتی ہیں کہ اعلٰی تعلیم تو حاصل کرنے کی اجازت ہے نہیں،والد نے باقی بہنوں کو بھی صرف آٹھویں جماعت تک پڑھایا ہے اور مجھے بھی صرف آٹھویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت ملی ہے مگر افسوس یہ کہ یہ آٹھ جماعتیں بھی میں ٹھیک سے نہیں پڑھ پارہی۔ پانی کا مسئلہ صرف پانی کی کمی نہیں بلکہ اِس ایک مسئلے سے بہت سارے اور مسائل بھی جنم لے رہے ہے جیسے کے روز پانی لانے کی وجہ سے میری تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
گلالئی(فرضی نام) جنکا تعلق سنٹرل کرم کے گاؤں اویدرہ سے ہے، انکا کہنا ہے کہ پانی کی وجہ سے انہیں پورے دن اور پورے مہینے شدید مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ صبح سویرے دور دراز علاقے میں جاتی ہیں اور بڑی مشکل سے 3 سے 4 مٹکے پانی چشموں سے بھر لاتی ہیں جس سے صبح کے ناشتے، برتن، دوپہر کا کھانے اور برتن صاف کرنے کا انتظام ہوجاتا ہے لیکن شام کو پھر جانا پڑتا ہے تاکہ رات کے لئے پانی کا بندوبست ہوسکے۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ”جب گھر پر مہمان آتے ہیں تو وہ دن میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا،میرے بچے کافی چھوٹے ہیں اور انکے والد صبح سویرے روزگار پہ چلے جاتے ہیں سو میرا ہاتھ بٹانے والا کوئی نہیں،اکثر گلی محلے کے بچوں سے مدد لے لیتی ہوں مگر کبھی وہ بھی بات ماننے سے انکارکردیتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی اپنی ماؤں کے ساتھ کافی دور سے پانی لاتے ہیں اور تھک جاتے ہیں“۔