پہاڑ سر کرنا آسان مگر معاشرے کے فرسُودہ خیالات کو بدلنا مشکل کیوں؟
تحریر: شیرین کریم
پہاڑوں کو سر کرنے کے خواب لیے یہ خواتین اپنی زندگیوں میں محض چوٹیاں نہیں بلکہ دقیانوسی خیالات اور رکاوٹوں کو بھی عبور کر رہی ہیں۔ گلگت بلتستان کے حسین مگر دشوار گزار پہاڑوں کے دامن میں بسی خواتین اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک منفرد راستہ چن رہی ہیں۔
اِن بہادر خواتین میں ایک نام آمنہ حنیف کا ہے جو ہوشے کے دُورافتادہ گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ آمنہ نے 2018 میں کوہ پیمائی کے سفر کا آغاز کیا، اور اُس وقت ان کے گاؤں سے کوئی بھی خاتون اِس منفرد ایڈونچرسپورٹ کا حصہ نہیں تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنے دادا کے ہمراہ پہاڑوں کا رُخ کرتیں، تو لوگ طنز کرتے اور اُن کے خاندان کو طرح طرح کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا کہ اُنہوں نے اپنی بیٹی کو کیسے اِس میدان میں اترنے کی اِجازت دی ہے۔
آمنہ اپنے کوہ پیمائی کے سفر پر بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ "لوگ شروع میں میرے اِس کوہ پیمائی کے شوق کی مخالفت کرتے تھے، اور ہر بار باتیں بناتے تھے۔ لیکن میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی خود پر تنقید کرنے والوں کو روکا۔ آج وہی لوگ جو کبھی مجھے ناکام کہتے تھے، میری کامیابی کی خبر سُن کرمبارکباد دینے کے لیے آتے ہیں۔” آمنہ نے اپنی ثابت قدمی اور جذبے سے نہ صرف اپنے خواب پورا کرنے کی جانب قدم بڑھایا بلکہ اِس فیلڈ میں دلچسپی رکھنےوالی خواتین کے لیے بھی ایک سازگار ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اورآج اُن کی انہی کاوشوں کے سبب پورے علاقے میں اُنہیں ایک کامیاب خاتون کوہ پیما کے طور پر جانا جاتا ہے۔
صرف آمنہ ہی ایک ایسی کہانی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی کئی خواتین کوہ پیمائی کی فیلڈ میں آگے آئیں جن میں سے ایک قابل ذکر نام نام ثمینہ بیگ کا ہے جو ایک عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما اور دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔
ایسا ہی عزم لیے ہنزہ کی رہائشی سلطانہ نے بھی گلگت کے حسین پہاڑوں کو سر کرنے کا سفر شروع کیا اور اس سال کے ٹو جو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے، کو سر کر کےایک تاریخ رقم کی۔ سلطانہ کہتی ہیں، "پہاڑ سر کرنا آسان نہیں ہے، مگر میں ایک پہاڑی خاتون ہوں اور پہاڑوں میں رہنے کا تجربہ ہے۔ اگر ہم اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں کی دشوار راہوں پر جا سکتے ہیں توان چوٹیوں کو سر کیوں نہیں کرسکتے؟” سلطانہ نے بتایا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ دیگر ممالک کے کوہ پیما اِن پہاڑوں کو سر کرنے میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں تواُنہوں نے سوچا کہ پاکستانی خواتین کو بھی یہ ہمت کرنی چاہیے،خاص کر گلگت بلتستان کی خواتین کو، کیونکہ پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ جس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی ہے، اُس کا تعلق بھی ہمارے گاوں سے ہے، اسی وجہ سے مجھے بہت ہمت اور حوصلہ ملا۔
پاک فوج کے تعاون سے خواتین کی ایک ٹیم نے اِس سال کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے سفر کا آغاز کیا، اور سلطانہ اس ٹیم میں شامل تھیں۔ اس سفر میں پانچ خواتین شریک ہوئیں، لیکن ان میں سے صرف سلطانہ ہی تھیں جنہوں نے کے ٹو کو کامیابی سے سرکیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کامیابی میں بے شمار مشکلات تھیں اور سب سے بڑا چیلنج مالی مدد اور کوہ پیمائی کے لیے ضروری سامان کا حصول تھا۔ انہوں نے بتایا، ”کوہ پیمائی ایک مہنگا اور مشکل کام ہے، اور زیادہ تر ہم مقامی خواتین کو ڈونرز کی مدد کا انتظار رہتا ہے۔ یہ کام بیرون ملک کی خواتین بھی کرتی ہیں جن کے پاس تربیت اور تجربہ ہوتا ہے، جبکہ ہمیں محدود وسائل میں کام کرنا ہوتا ہے“۔ پاکستان میں کوہ پیمائی کے میدان میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، مگر سلطانہ اور آمنہ جیسی باہمت خواتین نے اِن چیلنجز کے باوجود اپنے اِس سفر کو جاری رکھا۔ اُن کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان کی خواتین میں طاقت اور عزم کی کمی نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہاڑوں میں زندگی نے اُنہیں مضبوط بنا دیا ہے، اور یہ قدرتی طاقت ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
نائیلہ کیانی پاکستان کی کوہ پیما خواتین میں ایک اور مقبول نام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نائیلہ نے مختصر وقت میں دنیا کے 7 ہزار میٹر سے بلند 11 پہاڑ سر کرنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے، اپنے اِس سفر پہ بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ یہ راستہ آسان نہیں تھا۔ ابتدا میں لوگ کہتے تھے کہ اس کا کیا کام پہاڑوں میں، یہ گھر بیٹھے۔
نائیلہ کیانی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے ایسی منفرد اسپورٹس میں آگے بڑھنے کے مواقعوں کی کمی ہے اور کچھ ہی شعبوں کو ان کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی اپنے گھر والوں کو بتائے کہ وہ کوہ پیمائی کرنا چاہتی ہے تو مردوں کی نسبت اُس کا یہ سفر زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ گھر والوں کی اجازت ہوتی ہے، کیونکہ اکثر خواتین کو اتنی دُور پہاڑوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر والدین اور خاندان کی حمایت حاصل ہو جائے تو ایک عورت اپنے خواب پورے کر سکتی ہے۔ فیملی کی سپورٹ بہت ضروری ہے، لیکن خواتین کی مہارت اور کامیابی پر لوگ ساتھ دینے کے بجائے سوال اٹھاتے ہیں۔ بجائے انہیں سپورٹ کرنے کے، ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ تاہم، اگر کوئی صدق دل سے محنت کرے تو اللہ کامیابی عطا کرتا ہے، اور اللہ کا شکر ہے کہ مجھے کامیابی ملی۔
نائیلہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گلگت بلتستان کی خواتین بھی اب ایسی مہمات میں شامل ہو رہی ہیں۔ پہلے خواتین کی تعداد کم ہوتی تھی، مگر اِس بار کے ٹو ایکسپیڈیشن میں پانچ خواتین نے شرکت کی، جن میں سے سلطانہ نے کے ٹو سر کیا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک فخر کی بات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خواتین کی حمایت کریں اورایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہوں نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ خواتین کے لیے سپورٹس ایکٹیوٹیز جیسے کہ ٹریکنگ، ہائیکنگ اور کوہ پیمائی کو فروغ دینے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس سے خواتین میں ہمت اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور وہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہتی ہیں۔ اور وہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان نام روشن کر سکتی ہیں۔
نائیلہ نے مزید کہا کہ 99 فیصد پاکستانی خواتین کو اپنے شوق اور خواب، گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں کی وجہ سے قربان کرنا پڑتے ہیں، جو کہ بہت افسوسناک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شروع میں معاشرے کا ڈر تھا، مگر اب وہ ختم ہو چکا ہے، کیونکہ معاشرے کے لوگ آپ کو کچھ نہیں دیتے۔ عورتوں کو اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھنا چاہیے۔ ہماری خواتین کو ہار نہیں ماننی چاہیے اور ہر شعبے میں آگے آنا چاہیے۔
سیکریٹری سیاحت ضمیر عباس نے گلگت بلتستان میں سیاحوں کی سہولیات اور کوہ پیمائی کے فروغ کے اقدامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ادارہ گلگت بلتستان آنے والے تمام غیر ملکی سیاحوں کے لیے این او سی اور ویزہ کی سہولیات فراہم کرتا ہے تاکہ علاقے میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں ماونٹینئرنگ اسکول کی تعمیر کے منصوبے (پی سی ون) کی منظوری دی جا چکی ہے۔ اس اقدام سے وہ افراد جو اپنی مدد آپ کے تحت تربیت حاصل کر رہے ہیں، اب باقاعدہ اسکول میں تربیت حاصل کریں گے اور کوہ پیمائی کے لیے روانہ ہوں گے۔
یہ ماونٹینٸرنگ اسکول ایک امید کی کرن ہے جو کوہ پیماؤں خاص کر خواتین کو ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان کی خواہشات اور دلچسپی کو نکھارنے اور پروان چڑھانے کیلیے یہ مددگار ثابت ہوگا اور نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان بھر کی خواتین اس فیلڈ میں اپنا لوہا منوائیں گی۔
گلگت بلتستان کی ان بہادر خواتین کی کامیابیاں نہ صرف اُن کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بلکہ دیگر پاکستانی خواتین کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں۔ شوق اور مسلسل لگن سے بھرپور اِن باہمت خواتین کے تجربات سے واضح ہے کہ اگر عزم اور حوصلہ ہو تو کوئی بھی خواب ادھورا نہیں رہتا۔ پہاڑوں کو سر کرنے کے خواب لیے، یہ خواتین اپنی زندگیوں میں محض چوٹیاں نہیں بلکہ دقیانوسی خیالات اور رکاوٹوں کو بھی عبور کر رہی ہیں۔