پاکستان میں گزشتہ سال آزادی اظہار کے تحفظ کی صورت حال ناقص رہی: تحقیق
شہریوں کی آزادی اظہار رائے کے لئے قانونی اور عملی تحفظات کے سلسلے میں پاکستان نے سال ٢٠٢٠ میں کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی نئی ریسرچ کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وباء سے متاثرہ سال کے دوران پاکستان نے آزادی اظہار کی تشخیص انڈیکس پر سو میں سے صرف تیس پوائنٹس حاصل کیے جو کہ ناقص تحفظات کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان فریڈم آف ایکسپریشن رپورٹ کے نام سے یہ تحقیق بدھ کے روز ایک آن لائن تقریب کے دوران شائع کی گئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر انڈرولا کامینارا نے کہا کہ یورپی یونین کے تعاون سے شائع کی جانے والی رپورٹ پاکستان میں آزادی اظہار کی صورت حال کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے اور چند تشویشناک رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کے یورپی چارٹر میں آزادی اظہار رائے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔پاکستان کی جانب سے جی ایس پی پلس تجارتی سکیم کیلئے جن بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی پاسداری کا عزم کیا گیا ہے آزادی اظہار نہ صرف ان کا ایک اہم پہلو ہے بلکہ یہ بنیادی آزادی یورپی یونین اور پاکستان کے مابین اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان کی ایک کلیدی ترجیح بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحافیوں کے حالات اور انہیں درپیش تشدد، دباؤ، اور ہراسانی کے واقعات خاص طور پر پریشان کن ہیں۔ یورپی یونین کی سفیر نے کہا کہ نقصان دہ جھوٹی معلومات کا پھیلاؤ بھی ایسا تشویشناک مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے یورپی یونین اندرونی اور بیرونی دنیا میں کام کر رہا ہے۔
جھوٹی معلومات سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں اس لئے جھوٹی معلومات کا جواب شفاف، بر وقت اور حقائق پر مبنی اطلاعات کی مدد سے دینا اہم ہے تاکہ معاشروں کی مصائب سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر بنے۔ رپورٹ میں ایک نئے انڈیکس کے ذریعے پاکستان میں آزادی اظہار کی صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ انڈیکس قانونی تحفظات، آزادی صحافت، ڈیجیٹل اظہار رائے، اجتماعیت، سیاسی و سماجی ماحول، اور اظہار رائے کو لاحق خطرات پر مبنی ساٹھ اشاریوں پر مبنی ہے۔ ان اشاریوں کی پیمائش کیلئے پاکستان میں میڈیا، سیاست، انسانی حقوق، قانون، اور تدریس کے شعبوں سے وابستہ ماہرین کا ایک سروے کیا گیا اور مستند ذرائع سے اعداد و شمار اکھٹے کیے گئے۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کا انڈیکس پر مجموعی اسکور سو میں سے صرف تیس پوائنٹس بنا جو کہ تشخیص کے فریم ورک کے مطابق آزادی اظہار رائے کے تحفظات کی بری صورت حال ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں پیمرا اور پی ٹی اے نے اظہار رائے اور آن لائن مواد پر اکثر اوقات صوابدیدی قدغن لگائی اور سوشل میڈیا، تفریحی پروگراموں، اور سیاسی اور سماجی امور پر خبروں اور تبصروں کے خلاف اقدامات اٹھائے۔ اسی دوران صحافی جسمانی، قانونی، اور ڈیجیٹل دھمکیوں کی زد میں رہے جبکہ ان کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی نہ کی جا سکی۔ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر سوشل میڈیا پر منظم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ سال میڈیا سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد قتل ہوۓ، چھتیس صحافیوں کو کام کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا، دس کو حراست میں لیا گیا، اور تئیس کے قریب صحافیوں کو رپورٹنگ یا انکے آن لائن اظہار رائے کے حوالے سے عارضی طور پر حبس بےجا میں رکھا گیا، مزید یہ کہ آٹھ صحافی کورونا وائرس کی وجہ سے بھی انتقال فرما گئے۔
تقریب کے دوران پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل اویس اسلم علی، ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم بولو بھی کی شریک بانی فریحہ عزیز، صحافی اسد ہاشم، میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان اور سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیئٹیوز کے پروجیکٹ مینیجر جلیل بابر نے بھی اظہار خیال کیا۔ رپورٹ سول سوسائٹی فار انڈیپنڈنٹ میڈیا اینڈ ایکسپریشن منصوبے کے تحت تیار کی گئی ہے جسے سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیئٹیوز، میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن مل کر انجام دے رہے ہیں۔