انسانی حقوق

گلگت بلتستان میں موسمِ سرما کی آمد۔ سیلاب سے متاثرہ خواتین کی زندگی مزید اجیرن

شیریں کریم

”اس امید سے آج بھی سیلاب والی جگہ پر جاتی ہوں، شاید ملبے سے کچھ سامان مل جائے“۔ یہ الفاظ ہیں 40 سالہ نگار کے، جن کا گھر اگست دو ہزار چوبیس میں آنے والے سیلاب میں بہہ گیا۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع استور کا دور افتادہ گاؤں گشنت سے ہے، جو اب زمین کا ایک ویران ٹکڑا بن چکا ہے۔ نگار اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھ کر ان دنوں کو یاد کرتی ہیں جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ خوشی خوشی اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئی تھیں۔

انہوں نے بتایا ”صرف تین مہینے گزرے تھے کہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہی سیلاب بہا لے گیا۔ اب اس جگہ سے وحشت محسوس ہوتی ہے جہاں ہم کبھی سکون کی زندگی گزارتے تھے“۔ نہ صرف نگار بلکہ ہر سال سیلاب سے کئی لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں اور بڑی تعداد میں تباکاریاں ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان میں 2024 میں آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، اس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

اگست 2024 میں ضلع استور کے گاؤں گشنت، پکورہ اور دیگر علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ اسی طرح 2023 میں اسکردو اور دیامر، جبکہ 2022 میں غذر کے گاؤں بوبر کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس دوران کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ متعدد افراد سیلاب کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے۔

ہر سال یہ سیلاب نہ صرف انسانی جانیں لیتے ہیں بلکہ درخت، مویشی اور لوگوں کی محنت سے بنائی گئی املاک بھی بہا لے جاتے ہیں۔ پیچھے صرف تباہی کی داستانیں ہی رہ جاتی ہیں۔ ان تباہ کاریوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں، کیونکہ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کی ذمہ داریاں خواتین پر ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار رہتی ہیں، مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اس صدمے سے نکلنا ان کے لیے خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔

گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، 2024 میں آنے والے سیلاب کے دوران مجموعی طور پر 29 پکے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے، جن کی مجموعی مالیت 72 لاکھ روپے تھی۔ اس کے علاوہ، 113 کچے مکانات بھی سیلاب کی زد میں آ کر مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ ان کا تخمینہ نقصان 87 لاکھ روپے لگایا گیا۔ سیلاب سے زرعی زمین کو بھی شدید نقصان پہنچا، جہاں 18,225 مرلہ زمین پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں، جن کے مالی نقصان کا تخمینہ 1 کروڑ 82 لاکھ 25 ہزار روپے لگایا گیا۔

اس سیلاب کے سبب پھل دار درختوں کو بھی نقصان ہوا۔ 3,511 درخت سیلاب کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہوگئے۔ ان کی مالیت 3 کروڑ 15 لاکھ 99 ہزار روپے تھی۔ جبکہ غیرپھلدار درختوں کے نقصان کا تخمینہ 37,700 روپے لگایا گیا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب ہر سال مقامی معیشت، زراعت اور رہائشی سہولیات کو کس شدت کے ساتھ تباہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح 2023 میں بھی سیلاب نے اِن علاقوں میں کم تباہی نہیں مچائی تھی۔گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (جی بی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے سیلاب میں اس پورے علاقے میں 92 گھروں کو نقصان پہنچا، جن میں سے 78 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جبکہ 14 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔

نگار کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد امدادی ٹیمیں آئیں، راشن اور ٹینٹ تقسیم کیے گئے، لیکن وہ ناکافی تھے۔ ”ہمارے رشتہ داروں نے ہمیں اپنے گھروں میں پناہ دی، لیکن اب موسم بدل گیا ہے۔ ہماری جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے جبکہ گاؤں میں برف باری ہو رہی ہے اور گرم رہنے کے لیے جلانے کی لکڑی نہیں مل رہی“۔ نگار اب بھی سیلاب زدہ جگہ پر جاتی ہیں کہ شاید کہیں سے اُنہیں اپنا کھویا ہوا سامان مل جائے،مثلاً اُن کی سونے کی قیمتی انگوٹھیاں بھی جنھیں سیلاب بہا کر لے گیا۔

نگار کی طرح بیگم بھی سیلاب کی پھیلائی تباہی سے متاثرہ ہیں، جو اپنے آٹھ بچوں کے ساتھ ایک رشتہ دار کے گھر میں رہ رہی ہیں۔ بیگم کا کہنا ہے، ”ٹھنڈ بہت زیادہ ہے، ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہماری زندگی یوں پل بھر میں بدل جائے گی“۔
بیگم کا مزید کہنا تھا کہ رشتہ داروں نے ایک کمرہ دیا ہے جس میں ہم بارہ لوگ ایک ہی ساتھ ہوتے ہیں، خواتین کو واش روم جانے کیلیے بھی بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ایک ہی کمرے میں اتنے سارے لوگوں کا رہنا مجبوری ہے کیونکہ اس ٹھنڈ میں ٹینٹ میں رہنا ناممکن ہے۔

حنا بطول، گشنت کی ایک اور متاثرہ خاتون ہیں، وہ بھی اس رات کو یاد کرتی ہیں جب سیلاب آیا تھا۔ ”سیلاب رات کو جب آیا تو ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ بچے چیخ رہے تھے، مائیں اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایسا لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہو۔ قیامت کا منظر تھا اور کبھی لگتا تھا کہ شاید یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ گاؤں کے دو بچے، ایک 22 سالہ لڑکی اور ایک چار سال کا لڑکا، جان کی بازی ہار چکے تھے۔ ہم ابھی صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ سردیوں نے ہمیں گھیر لیا۔ نومبر کے آغاز سے ہی برف باری ہو رہی ہے، اور اب ہمیں یہ فکر ستا رہی ہے کہ یہ سردیاں کیسے گزاریں گے“۔

حنا کے مطابق سیلاب نے متاثرین کو ان کے گھروں اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا ہے۔ سیلاب کے بعد لوگ ڈپریشن، انزائٹی، اور جلدی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے بچوں کو جلد اور پیٹ کی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی قلت سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور جو پانی دستیاب ہے وہ مٹی اور آلودگی سے بھرا ہوتا ہے۔ سیلاب نے اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ بارش ہوتے ہی گاؤں کے لوگ خوف کے مارے اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ بارش تھمنے کے بعد ہی وہ واپس آتے ہیں، مگر انہیں ہر وقت یہی خدشہ رہتا ہے کہ کہیں دوبارہ سیلاب نہ آجائے۔

”ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر ہے۔ سیلاب کے بعد سکول کی فیسیں نہیں دے سکے۔ اتنی زیادہ مشکلات ہیں کہ کس کس کا ذکر کریں“۔ رقیہ بے بسی کے ساتھ کہتی ہیں، وہ بات کرتے کرتےاچانک خاموش ہو جاتیں۔

سوشل ورکر خالدہ بطول کے مطابق، ”حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے وعدے تو بہت کیے، لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ درجہ حرارت منفی 14 سے 15 ڈگری تک پہنچ چکا ہے، لیکن لوگوں کے پاس شیلٹر نہیں ہے“۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مدد غیر سرکاری تنظیم سے آئی، لیکن وہ ناکافی تھی۔ انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی فہرستوں میں ناانصافی کی گئی، اور مستحقین کو نظر انداز کیا گیا۔

نگار، بیگم، اور حنا جیسی خواتین کو نہ صرف اپنے پورے خاندان کی دیکھ بھال کرنی ہے بلکہ اس کٹھن وقت میں گھر کو چلانے کی بھی ذمہ داری اٹھانی ہے۔ سیلاب کے بعد کی زندگی ان کے لیے مسلسل ایک امتحان بن چکی ہے، اور سردیوں کی شدت نے اس آزمائش کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ کہانیاں صرف گلگت بلتستان کے کسی ایک گاؤں کی نہیں ہیں بلکہ ان تمام علاقوں کی ہیں جہاں قدرتی آفات ہر سال سینکڑوں خاندانوں کے لیے زندگی جینا مشکل کر دیتی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ جانے مزید کیا گُل کھلائیں گی۔

سیلاب کے دوران اور بعد میں انتظامیہ کا کردار کیسا رہا؟

ڈپٹی کمشنر ضلع استور محمد طارق نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ انتظامیہ شروع دن سے متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے جو امداد موصول ہوئی تھی، اسے فوری طور پر مستحقین تک پہنچایا گیا۔ علاقے میں متاثرہ خاندانوں کی ضروریات کا جائزہ لینے کے بعد ریلیف فراہم کی گئی، جس میں خوراک، راشن، اور دیگر ضروری اشیاء شامل تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شدید متاثرہ علاقوں میں راستوں کی بحالی کے لیے بھی فوری اقدامات کیے گئے تاکہ متاثرین تک امدادی سامان بروقت پہنچ سکے اور ان کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام سرکاری محکمے اور مقامی انتظامیہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زندگی معمول پر لائی جا سکے۔ راشن کی فراہمی کو نہ صرف بروقت یقینی بنایا گیا بلکہ اس عمل کو شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ حکومت اور انتظامیہ کی یہ کوشش ہے کہ متاثرین کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے اور آئندہ ایسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پر گہری نظر رکھنے والے ماہر ڈاکٹر کرامت علی، اسسٹنٹ پروفیسر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہے۔ یہاں کی مقامی کمیونٹیز خاص طور پر خطرے میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف راشن فراہم کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ایسی آفتوں سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کرنا اہم ہے۔

گلگت بلتستان میں ایسے علاقوں کی نشاندہی کرنا انتہائی اہم ہے جو سیلاب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ سیلاب کب اور کہاں آئے گا اور اس سے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔اس کی بنا پر پیشگی اقدامات کرکے نقصانات کو کم کیا جاسکے۔ ایمرجنسی کی صورت میں مقامی کمیونٹیز کو تربیت دی جائے تاکہ وہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ علاوہ ازیں حفاظتی دیواریں بنانا، محفوظ مقامات کی نشاندہی کرنا، اور سیلاب کے دوران لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات کرنا بھی ضروری ہے۔

ڈاکٹر کرامت علی کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی آفت کے بعد بحالی کا عمل ایک مکمل سائیکل پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں رسپانس، ریکوری، اور ریہیبلیٹیشن شامل ہیں۔ اُن کے مطابق حکومت اور متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ایک اہم مسئلہ ہے، اس سے نمٹا جائے اور تمام ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیاری کو بہتر بنایا جائے۔ ساتھ ہی فنڈز کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ریلیف اور بحالی کے عمل کو مؤثر بنانا ضروری ہے تاکہ کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچایا جا سکے۔

Back to top button