ہم جنوبی پنجاب کے علاقے کوہ سلیمان میں کشتی پر ریسکیو آپریشن کر رہے تھے ۔ اسی دوران ہمیں بچوں کے چلانے کی آواز آئی، آواز کہ سمت کا اندازہ لگایا تو کچھ لہراتے ہاتھ نظر آئے۔ ہم نے رخ اس جانب موڑا رو دوبچیاں اور ان کا باپ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ گود میں نوازئید بچے کی لاش تھی جبکہ انکی والدہ اس لمحے آخری سانس لے رہی تھیں۔ یہ تکلیف بیان سے باہر تھی کہ کس طرح سیلاب نے ان کے گھر انے والی خوشی کو بھی ماتم میں بدل دیا ریسکیو 1122 کے نوجوان تنویر نے ہمیں بتایا۔
کشتی میں ہم زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچانے کی کوشش میں تھے اس لیے ان دونوں لاشوں کو وہیں چھوڑنا پڑا۔ خشکی تک پہنچتے پہنچتے بچیوں کے والد بھی دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دو بچیاں جو بمشکل 12 اور 15 سال کی تھیں یتیم ہو گئیں۔تبویر نے مزید بتایا۔
اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین موجود ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ ماہ زچگی کے مرحلے میں ہوں گی۔
سیلاب سے متاثرہ پاکستان کے تمام علاقوں میں خواتین اس وقت سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں ۔ حمل سے لے کر زچگی تک کا مرحلہ وہاں طے کرنا جہاں نہ تو سر پر چھت ہے ، نہ خوراک اور نہ ہی ادویات بلاشبہ تکلیف دہ ہے ۔ زری اشرف جو ڈاکٹر ہیں نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا
میں نے اہنے ہاتھوں سے اب تک سیلاب متاثرہ خواتین کے بچوں کو جنم دیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر فری میڈیکل کیمپ بھی لگائے اور پھر حاملہ خواتین کو ملتان میں لا کر انکی زچگی کے عمل کو مکمل کیا۔ مگر حالات اب بھی افسوس ناک ہیں۔ زری نے مزید کہا۔
زری کا کہنا ہے جنوبی پنجاب میں حامہ خواتین میں سے اکثریت کا ساتواں یا آٹھواں حمل ہے تو ایسے میں ان کی صحت پر بات کرنا تو سراسر مذاق ہی ہو گا۔ چھ بچوں کے بعد ساتواں حمل ویسے ہی جسمانی لحاظ سے عورت کو بہت کمزور کر دیتا ہے اور ایسے میں جب خوراک اور دوا بھی میسر نہ ہو تو زندگیاں رسک پر ہی ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ زچہ اور بچہ دونوں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔
سیدہ پینتالیس سال کی ہیں اور اس وقت سندھ کے ایک کیمپ میں اپنی تین بیٹیوں اور دیورانی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ سیدہ کی بیٹی کو عین سیلاب کے دوسرے روز پہلی بار ماہواری کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیدہ کہتی ہیں وہ مجھے بتا بھی نہیں پائی جبکہ اس کے لباس پر لگے دھبے مجھے اس کی مشکل سمجھا گئے مگر مجبور تھے کہ ہمارے پاس مزید لباس نہ تھا اور نہ ہی کوئی انتظام۔
این ڈی ایم اے کے مطابق پاکستان بھر میں اب تک ایک کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ آبادی جزوی اور مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ متاثر طبقہ خواتین کا ہے۔
صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاری اور سندھ کو افت زدہ قرار دینے کے بعد وہاں کم عمر بچیوں کی پیسوں کے عوظ شادیوں کی اطلاعات نے سماجی تنظیموں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔
ایک نشریاتی ادارے کےطابق ضلع دادوں میں والدین نے اپنی پندرہ سالہ بچی کی شادی اہنے رشتہ داروں کے گھر پچاس ہزار روپے کے عوض طے کر دی جس میں اس بچی کے والد ” قادر بخش ” کے مطابق پچس ہزار انہیں نکاح سے پہلے اور باقی نکاح کے بعد ملے گا۔
قادر بخش اور ان کے خاندان کا ماننا ہے یہ رقم انہیں واپس اہنے علاقے میں جا کر آباد کاری میں مدد دے گی۔ اسی لیے اب وہ اپنی دوسری دس سالہ بیٹی کے لیے بھی رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
شکور احمد ، جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے ہیں۔ شکور کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی صرف ہماری فصلیں اور گھر ہی بہا کر نہیں لے گیا بلکہ میری بھابھی بھی اسی ریلے کی نظر ہوئیں۔ شکور اپنے خاندان کے ساتھ اس وقت ایک سرکاری سکول میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ شکور کہتے ہیں کہ پانی کے تیز بہاو نے کیا کچھ بہا دیا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ جانور تو پانی کی نظر ہوئے ہی مگر کہاں کس کا ہاتھ چھوٹ گیا یہ اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد بھی بحالی کا کام جاری ہے۔ سیلاب زدگان کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے بہت سی بین الاقوامی اور قومی تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن، چئیرمین الخدمت فاونڈیشن ہیلتھ سروسز نے ہمیں الخدمت فاونڈیشن کے پروگرام ” محفوظ ماں ، محفوظ خاندان ” کے حوالے سے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت سیلاب زدہ علاقوں میں حاملہ خواتین کی رجسڑیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ الخدمت فاونڈیشن نے سب سے پہلے سیلاب متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر میں سے ماں اور بچوں کے تحفظ کے مراکز سے بحال کیا ہے اور ساٹھ ایمولینس طبعی عملے کے ساتھ ان علاقوں میں موجود رہتی ہیں۔
حفیظ الرحمن نے بتایا کہ سیلاب سے تقریبا 84 سے زائد ڈسڑک تباہ ہوے اور اس وقت ان علاقوں ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ایسی حاملہ جواتین ہیں جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے جبکہ بیالیس ہزار اگلے تین ماہ میں ڈلیوری کے عمل سے گزریں گی۔ ایسے حالات میں الخدمت فاونڈیشن تیزی سے ہیلتھ یونٹس قائم کر رہا ہے جہاں ڈاکٹر کا کمرہ ، واش روم ، میڈیکل ٹیسٹ اور دیگر سہولیات بھی موجود ہونگی۔ ان سینٹرز میں حاملہ خواتین کو خوراک اور علاج سب مہیا کیا جائے گا اور کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں سرکاری اور ملٹی کے ہسپاتوں سے خدمات لی جائیں گی۔
الخدمت طبعی عملے کے ساتھ ساتھ ٹرینڈ دائیاں بھی رجسڑ کر رہی ہے تاکہ بوقت ضرورت زچگی کو آسان اور محفوظ بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر حفیظ کہتے ہیں حاملہ خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان بچیوں کی مشکلات سامنے ہیں اور اس حوالے سے الخدمت پانچ طرح کی کٹس خواتین کو فراہم کر رہی ہے۔ کلئیر برتھ کٹ، ڈگنٹی کٹ ( جس میں ماہواری سے متعلق تمام سامان میسر ہوتا ہے)،ہائجین کٹ( صابن ، سینٹائزر اور صفائی کے حوالے سے دیگر اشیاء )، نوزائید کٹ اور خوراک کی کٹ۔
الخدمت اب تک تک تقریبا 4 لاکھ افراد کا علاج اپنی موبائل میڈیکل سروس سے کر چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پرپچاس سے ساٹھ حاملہ خواتین الخدمت کے ساتھ خود کو رجسڑ کروا رہی ہیں تاکہ زچہ و بچہ کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
کھلے آسمان کے نیچے ایک ٹینٹ کے سہارے آباد دو سے تین خاندانوں کے افراد خواتین کو اب بھی غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے میڈیا تک پہنچنے والی خبر نے خوف کی فضا کو مزید مضبوط کیا جب سیلاب کیمپ سے ایک اٹھ سال کی بچی کو راشن کا بہانہ بنا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور سندھ میں دادو کی کیمپ سے رات سات سوئی چھوٹی بچی کے گم ہونے کی خبر نے سیلاب زدگان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا
زری کہتی ہیں کہ راجن پور،تونسہ میں اس وقت بھی لوگ کیمپس میں آباد ہیں گو ہردے کے اور واش روم کے مسائل ضرور ہیں مگر جنسی زیادتی اور اغواہ کے واقعات شائد صرف خوف پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر ہھیلاے جاتے ہیں جب کہ زمینی حقائق اسے جھٹلاتے ہیں۔
بخت بی بی بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے سیلاب کیمپ میں رہ رہی ہیں ۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو صرف تین ماہ کا ہے۔ بخت کہتی ہیں کہ سیلاب کے بعد زندگی پہلے سے بھی مشکل ہو گئ ہے۔ خوراک نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچے کو دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں اور واش روم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سب بڑا مسئلہ بچیوں کو ہے۔
بخت ، کہتی ہیں کھلے آسمان کے نیچے رفاح حاجت کرنا بچیوں کے لیے بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
سندھ میں جوہی کی تین ، میہڑ کی ایک اور خیرپور ناتھن شاہ کی دویونین کونسل کے تقریبا 15,000 کے قریب سیلاب زدگان منچھر جھیل کے قریب زیرو پوائنٹ( ایف سی بند) پر موجود ہیں۔ یہ نسبتاً اونچا علاقہ ہے لیکن اس کے چاروں جانب سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے گاﺅں موجودہیں جن کے لٹے پٹے غریب لوگ اس بند پر موجود ہیں۔
ان خاندانوں کو بھی رفع حاجت کے لیے واش روم نا ہونے کے مسائل کا سامنا ہے۔ واش روم کی سہولت نا ہونے کی وجہ سے خواتین نے خوراک کم کر دی ہے بلکہ پانی بھی بہت کم استعمال کر رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ مزید غذائی قلت کا شکار یو رہی ہیں۔
سندھ میں ایک سماجی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والی لیڈی ڈاکٹر رضیہ نسیم نے بتایا کہ ان خواتین سے ملنے کے بعد اندازہ ہوا کہ خوراک نا لینے سے ان میں خون کی کمی کے ساتھ ساتھ پیشانی روکنے سے پیشانی کی نالی کا انفیکشن بھئ ان خواتین کی صحت خراب کر رہا ہے۔
رضیہ کہتی ہیں اس سب کے باوجود وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتیں۔
صباحت جنوبی پنجاب میں بحالی کے کام میں اپنی ٹیم کے ساتھ پہلے دن سے کام کر رہی ہیں۔ صباحت کہتی ہیں کہ خواتین نا تو خود اور نا ہی اپنی بچیوں کو ان کے ذاتی مسائل پر کھل کر بات کرنے دیتی ہیں۔ دوسری جانب کچھ علاقوں میں پورٹیبل واش روم نسب ہو چکے ہیں مگر بہت سے علاقے اب تک اس سہولت سے محروم ہیں۔
صباحت کہتی ہیں واش روم نہ ہونے سے ماہواری کے دوران مکمل صفائی کا دھیان نہ رکھنے سے بھی لڑکیاں مختلف انفیکشن کا شکار ہو رہی ہیں جس پر وہ کھل کر بات بھی نہیں کرتیں۔
” آپ سیلاب متاثرین کے پاس جا کر ان سے بات کر کے دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے انکا دکھ کتنا بڑا ہے ، وہ نہ تو دن میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں اور نہ ہی رات میں ” جہاں ارا جو ماہر نفسیات ہیں نے ہمیں بتایا۔
جہاں اڑا کا کہنا ہے طبعی سہولیات کے ساتھ ساتھ اس وقت ہماری بچیوں اور خواتین کو نفسیاتی مدد بھی چاہیے۔ گھر کی چھت سے اچانک ٹینٹ میں ا جانا، واش روم نہ جا پانا ، نہا نہ سکنا وغیرہ جیسے ان دیکھے مسائل خواتین خصوصی نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت پر بڑے اثرات ڈال رہے ہیں "۔
ایک بین الاقوامی تنظیم واٹر ایڈ پاکستان (WaterAid Pakistan ) جو پاکستان میں صحت و صفائی کے حوالے سے کام کرتی ہے کہ مطابق یہ حقیقت ہے کہ سیلاب میں پانی کے ذخائر آلودہ اور واش روم کی سہولیات تباہ ہوجاتی ہیں۔
’واش روم کی عدم سہولت خصوصا خواتین کے لیے بے پردگی، بے توقیری اور عدم تحفظ کا سبب بنتی ہے۔ خواتین رفع حاجت کے لیے اندھیرا ہونے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ بے پردگی نہ ہو لیکن اس اندھیرے میں وہ کسی سانپ وغیرہ کے کاٹنے کا اور خصوصا ہراسمنٹ کا شکار ہوسکتی ہیں۔‘ تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہماری روایات اور ثقافت ( خصوصا پردہ) کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت، ڈونرز اور امدادی اداروں کی ترجیح متاثرہ علاقوں میں ایسے محفوظ واش روم کی فراہمی جن میں لائٹ کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کو واش روم یا لیٹرین ڈیزائن کرنے کے حوالے سے فیصلہ سازی میں بھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ اپنی ضروریات کے حوالے سے وہ زیادہ بہتر بتاسکتی ہیں۔‘