معاشرتی رویوں سے تنگ ہندو برادری مُسلم نام رکھنے پر مجبور
تحریر: سلمیٰ جہانگیر
میرے دھرم نے مجھ سے میرا بچپن چھینا، ہندوتھی لیکن انسان تو تھی گلی کی بچیاں میرے ساتھ میرے مذہب کی وجہ سے نہیں کھیلتی تھیں یا شاید اُن کے گھر والوں نے منع کیا تھا۔اسکول کی اُستانی بھی مجھ سے نفرت کرتی تھیں۔ مجھے اپنی ہی ہم جماعت لڑکیوں سے دور بٹھایا جاتا، اِس تعصب ذدہ رویے نے مجھے ذہنی مریض بنا دیا۔
وہ نفرت بھری آوازآپ کو بھی اپنے جیسا بنا دے گی
روزینہ ( فرضی نام) جو پشاور شہر کے صدر میں مقیم ہیں، اُن کے تین بہن بھائی ہیں تینوں کے نام مُسلم ہیں۔ جبکہ پہلے انکا اپنا اصل نام پونم، بھائی کا نام وشال اور چھوٹی بہن کا نام سونم تھا۔ اب انہی بہن بھائیوں کے نام دانش اور راحیلہ ہیں کیونکہ بچپن میں کھیل سے لے کر اسکول تک جس کو بھی علم ہوتا کہ وہ ہندو برادری سے وابستہ ہیں تو لوگ اُن سےدور ہو جاتے ۔ نا کوئی اُن کے ہاتھ کی بنی چیز کھاتا اور نا ہی اپنے کھانے پینے کی چیز کو ہاتھ لگانے دیتے۔
وہ اپنے بچپن کے دِنوں کو یاد کرتی ہیں کہ جب بھی گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلتیں تو اکثر والدین اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اپنےساتھ لے جاتے وہ نفرت بھری آواز اب بھی اُن کے کانوں میں گونجتی ہےکہ اِس کے ساتھ نا کھیلو یا یہ ہی میلی ہے، کل کو آپ کو بھی اپنے جیسا بنا دے گی۔
روزینہ کی عُمر اب 32 سال ہے۔ اُنہوں نے مذید بتایا کہ اپنے بہن بھائیوں میں وہ کافی حساس طبیعت کی مالک تھیں اِسی لیے لوگوں اور خاص کر اسکول اساتذہ کے روئیے کی وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوگئیں۔ اِن حالات کو دیکھتے ہوئے روزینہ کے والد نےپرانا علاقہ چھوڑ دیا اور پشاور صدر میں رہائش پذیر ہوگئے جہاں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔ اس نئے علاقے میں اُنہوں نے کسی کو اپنے اصل مذہب کے بارے نا ہی کچھ بتایا اور نا وہ اِس بارے میں کوئی بات چیت کرتے ہیں۔ روزینہ اب ایک پرائیویٹ نوکری کرتی ہیں۔اِس ڈر سے کہ لوگ اُن سے پھر سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں روزینہ کے دفتر میں کسی کو نہیں معلوم کہ وہ ہندو خاتون ہیں۔
ایسا ہی ایک اور قصہ زینت کا بھی ہے جو پشاور شہر میں ہی زندگی گزار رہی ہیں۔اُن کی عمر 20 سال ہے۔ زینت بتاتی ہیں کہ گھر والوں نے سب بہن بھائیوں کے نام شروع سے ہی مسلم رکھے ہیں( ان کے کوئی ہندو نام ہی نہیں رکھے ہی نہیں گئے) کیونکہ گھر والےجانتے تھے کہ مسلم نام رکھنے سے زندگی گزارنے میں آسانی ہوگی اور معاشرے میں کوئی بھی مذہب کی بنیاد پر اُن سےتفریق یا نفرت آمیز رویہ نہیں برتے گا۔ زینت نے اپنے مذہب کے حوالے سے کبھی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بات نہیں کی۔
معاشرتی رویوں کے ڈر سے اپنا مذہب چھپاتے ہیں
پشاور میں رہائش پزیر 65 سالہ شویتا اپنے 68 سالہ شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، وہ بھی مذہب کے لحاظ سے ہندو ہیں اور اکثر کئی لوگ اِس وجہ سے اُن سے دُور دُور رہتے ہیں، زیادہ لین دین نہیں رکھتے لیکن کئی مسلم اور میسحی خواتین اُن کی اچھی دوست بھی ہیں۔ اور یہ سب ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔
روزینہ اور زینت کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شویتا کہتی ہیں کہ آزادی سے لے کر اب تک پاکستانی آئین نے اُن کو تمام حقوق دیے ہیں جو اکثریت کے مذہب سے جُڑے پاکستانی شہری کو ملے ہیں لیکن چند لوگ ایسے ہیں جو مذہب کی بنیاد پر نفرت بھی کرتے ہیں۔
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے جاوید مسیحی ایک سرکاری ہسپتال میں ملازم ہے۔ وہ اپنے آپ کو مسیحی ہی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے چند مسلم دوست بھی ہیں جن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جاوید کہتے ہیں کہ وہ ہر سال کرسمس پر اپنے مسلم دوستوں کو اُن کی فرمائش پراُنہیں کیک کھلاتے ہیں جبکہ وہی مسلم دوست بڑی عید پر قربانی کا گوشت گھر بھجواتے ہیں۔ اُن کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ انہیں مذہب کی وجہ سے کوئی ڈر یا خوف محسوس ہوا ہو۔
خیبر پختونخوا میں ہندو برادری کی آبادی
سال 2023 کے مطابق پاکستان میں ہندو آبادی کی کُل تعداد 38 لاکھ 67 ہزار 7 سو 29 ہے جس میں 20 لاکھ 7 سو 51 مرد جبکہ 18 لاکھ 86 ہزار 7 سو 97 خواتین شامل ہیں ۔ اِس ہندو برادری میں سے 5 ہزار 4سو 73 افراد صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پزیر ہیں۔ گزشتہ سال کے اندازوں کے مطابق جو اعداد و شمار اقلیتوں کو بتائے جاتے ہیں ہے اِن پراقلیتی برادری کے بعض لوگ اعتراض رکھتے ہیں اوراِن کو شفاف نہیں مانتے۔
ہندو افراد خود کو مسیحی ظاہر کرنے پر مجبور
پشاور میں خدمات سرانجام دینے والے سماجی کارکن ہارون سرب دیال جو خود اقلیت سے وابستہ ہیں، اپنی برادری کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ہندوؤں کے مسائل باقی اقلیتی برادریوں کے مقابلے میں کافی مختلف اور الگ ہیں۔ معاشرے کی منفی سوچ کی وجہ سے ہندو تعلیم، روزگار کے مواقع اور دیگر ضروریات زندگی کی سہولیات حاصل کی غرض سے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ بعض خود کو مسیحی بھی ظاہر کرتے ہیں تاکہ معاشرہ ان کو کسی حد تک قبول کرے۔
ہارون سرب دیال کواقلیتی مردم شماری پر بھی شکوک ہیں۔ وہ اس لیے کہ جب زیادہ تر ہندوخود کو ہندوہی ظاہر نہیں کرتےاور اپنی شناخت چھپاتے ہیں تو مردم شماری پھر کیسے درست ہوسکتی ہے؟ ہندوؤں سے اُن کے مذہب کی بنیاد پر نفرت کی جاتی ہے، باقی اقلیتوں کے مقابلے میں اُنہیں روزگار کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔
معاشرتی اقدار کے گہرے اثرات
پشاور کے سینئرتجزیہ نگار اورصحافی محمد فہیم جنہوں نے اقلیتی حقوق پر کافی کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ جہاں تک مسلم نام رکھنے کی بات ہے ان کے خیال میں جب کسی اکثریتی علاقے کے اندر اقلیتی لوگ رہتے ہوں تو اکثریتی قوم کی جوبھی ثقافت ہوگی وہ عمومی طور پر اقلیت میں مکس اپ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس صوبے میں پشتون قوم کی اکثریت ہیں تو یہاں پہ پشتونوں کے الفاظ بہت ملیں گے نام بھی پشتونوں کے ملیں گے۔ پنجاب کی طرف جاتے ہیں تو یہی پشتون جب وہاں آباد ہوتے ہیں تو پھر پنجاب کے جو الفاظ ہیں ان زبان کے نام ہیں وہ رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو ہندوؤں کے اندر بھی یہ ہے کیونکہ اکثریت مسلمانوں کی ہے تو وہ مسلمانوں کے جو نام ان کو پسند آتے ہیں وہ رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
فہیم کے مطابق سرکاری سطح پر اقلیتی برادری پہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ مسلم نام رکھیں۔ جہاں تک ہندو مذہب سے نفرت کی بنیاد کو دیکھا جائے تو اگرہم اپنے تعلیمی نظام میں نصاب پر نظر دوڑائیں تو ہمیشہ سے جو تعصب نظر آیا ہے وہ ہندو مذہب سے متعلق دیکھنے کو ملتا ہے ۔اپنی تاریخ کو جب بھی پڑھتے ہیں تب بھی ہندوؤں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور بچوں کو بھی گھروں میں ایسی ہی معلومات فیڈ کرتے ہیں۔
نسل در نسل لوگوں کو بتایا گیا کہ ہندو آپ کے مخالفین ہیں وہ بچے جن کو ذیادہ سمجھ بھی نہیں ہوتی تو وہ ہندومذہب کے لوگوں کے لیے ایسی سچویشن بنا دیتے ہیں کہ وہ محفوظ نہیں رہ پاتے لہذا کسی بھی ناخوشگوار واقعے سےبچنے کے لیے ہندو اپنی شناخت کو وقتی طور پر چھپا دیتے ہیں اور اپنے اوپرایک چادر سی اوڑھ لیتے ہیں۔ شاید ہندو مذہب کے بڑے بزرگ سمجھتے ہوں کہ ایسا کرنے سے کم سے کم اُن کے بچے ذہنی اذیت سے محفوظ رہیں گے۔
آئین میں درج اقلیتوں کے حقوق معاشرے میں معدوم
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل طارق افغان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ آیئنِ پاکستان میں جتنے حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں اتنے ہی اقلیتوں کو بھی حاصل ہیں۔شہریوں کے مساوی حقوق کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق تمام لوگوں کو مساوی طور پر تحفظ حاصل ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اکثر اوقات ہندوافراد اپنی شناخت کو چھپاتے ہیں۔جس طرح کیلاش وادی کے کیلاشی لوگ ہیں وہ بھی اکثر اپنی شناخت کو چھپاتے ہیں حالانکہ وہاں تو اُن کی اکثریت ہے۔
آئین اور قانون تمام اقلیتی برادریوں کو حق دیتا ہے کہ اپنی اپنی عبادت گاہ ہوں کو آزادانہ طورپرجائیں اور اپنے مذہب کی پیروی کریں کسی کو بھی اس حق میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں ہے لیکن چونکہ اکثریت مسلمانوں کی ہے اور کیونکہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے، لہذا ہندو اپنےمذہب یا اپنی شناخت کو چھپاتے ہیں تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ زبردستی مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی وجہ سے اب اقلیتی افراد شناخت چھپانے کے لیے بچوں کے نام تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ گھروں سے لے کر مدرسوں تک بچوں کے ذہنوں میں غیرمسلم کے خلاف نفرت ڈالی جاتی ہے۔ اقلیتوں کے لیے قانون تو ہے ریاست نے اسکو عملی بھی بنایا ہے لیکن عوام کے ذہن سے نفرت کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
اسلامی معاشرے میں غیر مسلم کا مقام
ایک اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق پر بات کرتے ہوئے سینئر ریسرچ اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد غُلام ماجد نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو علم نہیں ہے کہ کسی کوبھی مذہب کی بنیاد پر تنگ کرنا اسلام میں منع ہے۔ دینِ اسلام نے کبھی بھی کسی دوسرے مذہب والوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکا حتی کہ ان کے لیے جہاں بھی ان کے مذہب کے مطابق گنجائش بنتی ہے وہ دی بھی ہے اور اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں دو معاملے بہت اہم ہوتے ہیں جن کو باقاعدہ اسلام نے عنوان دیا ہے ایک معاشرت اور ایک معاشرت کے اندر مزید اگے جا کے مدارات، معاشرت کا معنی ہے باہم اکٹھے زندگی گزارنا، اکٹھے زندگی بسر کرنا ،ایک جگہ،ایک علاقے میں ،ایک شہر میں یا ملک میں ،اور معاشرت پر اسلام پابندی نہیں لگاتا ۔
غُلام ماجد کہتے ہیں کہ مدارات کا پھر یہ تقاضا ہوتا ہے کہ جب اکٹھے رہ رہے ہیں تو ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور اگر بالفرض کوئی بیمار ہوا ہے چاہے دوسرے مذہب کا ہے تو اُس کی بیمار پُرسی کرنا، اگر اُسےکسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ ضرورت پوری کرنا، اگر وہ محتاج ہے، فقیر مسکین ہے تو اس کو کھانا کھلانا، اچھے طریقے سے اس شخص کے ساتھ پیش آنا مدارات ہیں ۔
تو اسلام معاشرت سے اگے مدارات کی بھی اجازت دیتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ اگراپ نے رہنا ہے تو رہیں وہ آپ کے معاشرے میں موجود ہیں تو ان کو موجود رہنے دیں اور اُن کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے دیں۔ اب ایک اہم بات ہے مثلا خنزیر اسلام میں حرام ہے ۔ لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر آپ کے معاشرے میں غیر مسلم ہو اور اس کے مذہب میں سور اور خنزیر حلال ہے تو اس کو وہ سور اور خنزیر رکھنے دو ۔کیونکہ اس کے مذہب میں جائز ہے وہ اس کا مالک بھی بن سکتا ہے ۔ بہت ساری چیزیں ہیں لیکن لوگ اس کو اگنور کرتے ہیں تو یہ تعلیمات پھیلانے کی ضرورت ہے اگر یہ تعلیمات پھیل جائیں تو کسی لڑکی کو کسی بچی کو چاہے وہ غیر مسلم ہو اپنا نام بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔