بلدیاتی انتخابات میں تاخیر: شہرِاقتدار کی مسیحی آبادی مسائل کے حل کی منتظر
نہ پانی، نہ گیس نہ روزگار، سچ تویہ ہے کہ ہمیں بجلی نہیں چاہئے کیونکہ ہم بل نہیں بھر سکتے، مگر پانی بنیادی ضرورت ہے جو ہمیں دلوا دے اس کے شکرگزار ہونگے
انیلہ محمود
اسلام آباد کے آئندہ متوقع بلدیاتی انتخابات میں تقریباََ گیارہ لاکھ بارہ ہزار سات سو چوالیس ووٹرز حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں بسنے والی اقلیتوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، جبکہ یہاں رجسٹرڈ اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41 ہزار 9 سو 77 ہے جن میں 38 ہزار 744 مسیحی ووٹرز اور دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3 ہزار 233 ہے۔وفاقی دارالحکومت کے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں مسیحی آبادی کا سوال یہ ہے کہ کیا اقلیتوں کو برابر کے شہری ہونے کا حق حاصل ہے؟ کیا ان کی آبادیوں میں تعلیم و صحت کی سہولیات موجود ہیں؟ کیا ان کے مسائل کے حل کے لیے ان کا منتخب نمائندہ، چیئرمین یوسی کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام کر سکتا؟ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد اقلیتی نمائندےکو تعمیراتی فنڈز میں حصہ دیا جا تا ہے یا الیکشن کے بعد اُسے سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے؟ اسلام آباد کی بیشتر یو سیز سی ڈی اے کی ایکوائر شدہ زمینوں پر موجودآباد کاریوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں تعمیرات ریگولرائز نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا اقلیتی نمائندہ دیگرکونسلرز کی طرح کچی آبادیوں میں رہائش پزیر مسیحی برادری کے تحفظ کو یقینی بنا سکتاہے؟
سڑک کنارے پکوڑے بیچ کر روزی کماتی پچاس سالہ سیما جوزف حکومت سمیت اپنے نمائندوں سے نالاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے مسائل تو بہت زیادہ ہیں مگر حل کوئی بھی نہیں کر رہا۔ حل کرنے والے ہوں تو حل ہو بھی جاتے ہیں، ووٹ لینے کیلئے آتے ہیں مگر مسئلہ سننے پر بولتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ سیٹ وہ ہماری وجہ سے لیتے ہیں تو انہیں ہماری سننی چاہئے ،نہ ادھر بجلی ہے، نہ پانی اور نہ گیس ہے،یہاں پانی پیسوں سے لینا پڑتا ہے، گیس بھی پیسوں سے لیتے ہیں، بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے ان کا مستقبل کیسے بنے گا۔۔؟ سیما کا مطالبہ ہے کہ آمدنی اتنی ہو کہ وہ بھی اپنے بچوں کواسکول بھیج سکیں۔ اُن کے مطابق اگر علاج کے لیے اسپتال میں جاؤ تو پیسے مانگے جاتے ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مفت ادویات ملیں گی لیکن کون سے اسپتال میں مفت ادویات مل رہی ہیں؟ وہ سمجھتی ہیں کہ پہلے بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں کسی نے کچھ نہیں کیا اب بھی الیکشن ہونگے تو کچھ نہیں ہوگا۔
نہ پانی ہے، نہ گیس نہ ہی روزگار، ہمیں بجلی چاہیے بھی نہیں کیونکہ ہم میں بل بھرنے کی سکت نہیں، مگر پانی بنیادی ضرورت ہے جو ہمیں دلوا دے اس کے شکرگزار ہونگے،علاقے میں گلیاں پکی ہونی چاہئیں ،یہ کہناتھاپچپن سالہ سلیم رضا کاجوپرائیویٹ نوکری کرکے اپنے خاندان کی ضروریات بمشکل پوری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری برادری کے کونسلر بھی جیت کر ہمیں نظر نہیں آتے۔ تعلیم کی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اسکول آبادی سے باہر ہے وہاں جانے کیلئے گاڑیوں کے تین، چار ہزار روپے ہم کہاں سے دیں، آبادی میں عوامی ورکرز پارٹی نے ایک اسکول قائم کیا ہے جہاں کچھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
سبزی فروش اکرم مسیح کی نظر میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم فراہمی کا ہے، جس کے پاس پیسے تھے اس نے بورنگ کرا لی جو غریب ہیں وہ پانی خریدنے پرمجبور ہیں۔ سو روپے میں چھ منٹ کا پانی ملتا ہے۔ دیہاڑی دار دن میں صرف پانچ سات سوروپے پانی کے دیتا ہے تو سوچیں کھائیں کہاں سے اور بچوں کو پڑھائیں کہاں سے۔ حکومت ووٹ بھی لے لیتی ہے گھر بھی توڑ دیتی ہے،کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں ہم انسان نہیں ہمارا کوئی حق نہیں ہم جائیں تو جائیں کہاں۔۔؟
کباڑیے کے کام سے وابستہ اکتالیس سالہ فیاض مسیح کا شکوہ کمیونٹی میں اتحاد کا فقدان ہے۔ وہ گلہ کرتے ہیں کہ سی ڈی اے والے کچھ دن پہلے بھی ایک گھر توڑ کر گئے ہیں مگر ہمارا نمائندہ کہیں نظر نہیں آیا عوامی ورکرز پارٹی والے کبھی میڈیکل کیمپ لگا دیتے ہیں تو خواتین آسانی سے وہاں چلی جاتی ہیں۔ہماری زندگی کی مشکلات ایسی ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ ہم بھی انسان ہیں یا اس ملک کے شہری ہیں۔
ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ کوئی ہمارے لیےکچھ کرے گا ہم نے انہی مسائل میں جینا ہے اور انہی مسائل میں مرنا ہے یہ کہنا تھا 53 سالہ پرویز مسیح کا، انہوں نے کہا کہ نوکریوں کی آسامیاں نکلتی ہیں غریب آدمی پیسے خرچ کرکے ٹیسٹ انٹرویو دیتا ہے مگر نوکری کسی فرشتے کو مل جاتی ہے انسان تو نظر نہیں آتے، جب آتے ہیں تووعدے کرتے ہیں کہ آبادیاں ریگولرائز کروائیں گے شناختی کارڈ جمع کرتے ہیں مگر آج تک خوف میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کب حکومت گھر گرا دے گی۔
ادارہ شماریات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 23 لاکھ 60 ہزار سے زائد ہے۔جس میں سے 53.10 فیصد آبادی دیہی اور 46.90 فیصد شہری آبادی ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے مطابق اسلام آباد کی 125 یونین کونسلز ہیں۔ بیشتر ایسی یونین کونسلز ہیں جہاں اقلیتی برادری موجود نہیں اور بعض ایسی ہیں جہاں 90 فیصد اقلیتی آبادیاں ہیں لیکن اقلیتی نمائندہ کونسلر ہی کی مخصوص نشست پر الیکشن لڑ تا ہے۔
اقلیتی برادری سے وابستہ ساٹھ سالہ طارق جوزف کا دل بھی نااُمید ہے۔ جوزف کے مطابق جب نمائندے الیکشن سے پہلے آتے ہیں تو ان کا رویہ اور ہوتا ہے جب جیت جاتے ہیں تو پھر نظر ہی نہیں آتے۔ گاڑیوں کی سکیمیں نکلیں مگرکسی غریب کو نہیں ملیں ،قرضوں کی یا کوئی اور سکیم نکلے کبھی غریب کو کچھ نہیں ملا، جو صاحب حیثیت ہیں جن کے سیاسی لوگوں سے تعلقات ہیں سب کچھ انہیں مل جاتا ہےغریب آدمی کو لانگ پراسس میں ڈال دیا جاتا ہے تو وہ تنگ آکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہمارے منتخب نمائندے مسئلے حل کریں گے تو ان کی اپنی روزی بند ہو جائے گی ہم مشکل میں رہیں گے تو ان کی سیاست چلتی رہے گی۔
مسیحی کالونی کے سرگرم سیاسی ورکر پینتالیس سالہ عمران گل نے کہا کہ کونسلر بے اختیار ہیں، نہ اختیارات دیئے جاتے ہیں نہ فنڈز کے لحاظ سے پروموٹ کیاجاتا ہے۔ گزشتہ دور میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو کچھ کام ہوئے تھے کچھ گلیاں بنائی گئی تھیں مگر جو کام جہاں رہ گیا ہے وہ مکمل نہیں ہوسکا، عمران نے تصدیق کی کہ یہاں زیادہ تر گھر ایک سو روپے میں چھ منٹ کا پانی خریدتے ہیں جن کے پاس وسائل ہیں انہوں نے پانی کو کاروبار بنا لیا ہے اور دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ہماری آبادیوں کے ریگولائز نہ ہونے میں ہماری برادری خود رکاوٹ ہے ہم میں اتحاد نہیں ہے۔ ہم اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کے پیچھے چلتے ہیں مگر اپنے مسائل کے حل کیلئے اکٹھے نہیں ہوتے آبادیاں ریگولرائز ہو جائیں تو حکومت بنیادی سہولیات بھی فراہم کرے گی۔توقع ہوتی ہے کہ جسے ووٹ دیں وہ ہمارے مسائل پر بات کرے، ہمارے ساتھ رہے ۔ تھانے، کورٹ یا کچہری کا مسئلہ بن جائے تو ہمارا نمائندہ نظر نہیں آتا، ہم خود مل جل کر مشکل کا حل نکالتے ہیں کوئی صحت مرکز موجود نہیں، کوئی اسکول موجود نہیں، پرائیویٹ اسکول کوئی بنا بھی لے تو اس میں غریب آدمی اپنے بچے نہیں پڑھا سکتا۔ہمیں پانی چاہئے، بجلی چاہئے ہمارے بچے سکولوں سے باہر ہیں ہم بھی پاکستانی ہیں، انسان ہیں، ہمیں بنیادی ضروریات کی فراہمی سے کیوں محروم رکھا گیاہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق ہر صوبہ ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گااور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری و اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گا۔ بلدیاتی ادارے فرد اور ریاست کے درمیان پُل کا کام دیتے ہیں۔ مقامی سطح پر ترقیاتی سرگرمیاں، اسکول ، اسپتال اور دیگر امور جن کا تعلق شہریوں کی روز مرہ زندگی سے ہوتا ہے ان کا انتظام و انصرام مقامی حکومتوں ہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسی نظام میں سڑکیں بنتی اور پختہ ہوتی ہیں،پینے کے لئے صاف پانی کا بندوبست ہوتا ہے،محلے سے گندے پانی کے اخراج کے لئے نکاسی آب کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
انہی مسائل پر بات کرتے ہوئے ایک سابقہ کونسلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ انکشاف کیا کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جو مسیحی کونسلر منتخب ہوئے تھے ان کو کسی بھی پراجیکٹ کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں ملا ، نہ ان کو دفاتر دیے گئے، نہ ان کو تنخواہ دی گئی، نہ کسی قسم کا کوئی ترقیاتی فنڈ محلے اور حلقے کی گلیاں نالیاں پکی کرنے کے لیے دیا گیا، نہ ہی ان کا کوئی اجلاس وغیرہ منعقد ہوا۔
امیرجماعت اسلامی اسلام آباد، محمد نصراللہ رندھاوا سمجھتے ہیں کہ منتخب نمائندے چاہے اکثریت سے تعلق رکھنے والے ہوں یا اقلیت سے، یہ ان پر منحصرہے کہ وہ کتنے باصلاحیت اور مستعد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بہت سے اقلیتی نمائندے ساری کمیونٹی کے لئے کام کرتے ہیں ۔ ہمارے اہل کتاب کے صدر اپنی کمیونٹی کے کاموں کے لئے اکثریتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس لئے ہم اقلیتی برادری کونہ صرف ان کی مخصوص اقلیتی سیٹوں کے لئے بلکہ اوپن سیٹوں کے لئے بھی اپنی جماعت سے نمائندگی دیتے ہیں۔جہاں تک اقلیتوں کی حالت زندگی میں بہتری کی بات ہے تو پاکستان میں یہی مسائل اکثریت کےبھی ہیں، ڈویلپمنٹ میں سست رفتاری، مہنگی بجلی ، مہنگائی، انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر ہے بہت سے اداروں میں بے پناہ کرپشن ہے۔ امیر جماعت اسلامی، اسلام آباد کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام کا عادلانہ نظام ہو تو سب کو حقوق ملیں گے، موجودہ سسٹم کو ہی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یہ سسٹم تبدیل ہوگا تو بلا تخصیص پھر اکثریت اور اقلیت سب کو اپنے اپنے حقوق ملیں گے کسی کو ایک دوسرے سے شکایت بھی نہیں رہے گی۔
سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اور ریسرچر، پیٹر جیکب نے مسائل کی وجوہات پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں مذہب کی بنیاد پر تقسیم پائی جاتی ہے، خوف پایا جاتا ہے جو نہیں ہوناچاہئے۔ بلدیاتی نظام ایک طریل عرصے تک مفلوج رہا ہے۔ ایسا نظام جو مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم اور تفریق نہیں کرتا وہ ہی قابل عمل اور موثر ہوسکتا ہے۔جہاں تک سیاسی نظام کی بات ہے اس میں حقوق کی یکسانیت پیدا ہوچکی ہے لیکن وہ آپریشنل نہیں ہے(عملدرآمد باقی ہے)۔مذہبی اقلیتیں چونکہ مارجنلائزڈ طبقات ہیں اُنہیں خود اپنے حقوق کا پتہ نہیں ہوتا اس لئے یہ زیادہ توجہ کے طلبگار ہیں۔
وہ کہتے ہیں اِن مسائل کی وجہ یہ بھی ہے کہ کچی آبادی کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے،اپنے گھروں سے بے دخلی اِنکاسب سے بڑا مسئلہ ہے جہاں لوگ سنجیدہ ہیں نمائندگی کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں وہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کو درخواست دیں کہ ان کے پاس مالکانہ حقوق نہیں ہیں، وہ کتنے عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں، میٹر لگے ہیں گورنمنٹ کو ٹیکس دے رہے ہیں، مالکانہ حقوق یا متبادل جگہ دی جائے۔ یہ ریکارڈ کسی نہ کسی طرح پراسس میں آجائے گا تو مالکانہ حقوق مل جائیں گے اور آبادیاں ریگولرائزڈ ہو جائیں گی۔ انتظامیہ نہ کرے تو عدالت تو ہے ناں۔ حکومت کوسستی لیبر چاہئے ہوتی ہے تو ان لوگوں کو پہلے بسایا جاتا ہے لیکن چند سال بعد آبادیاں گرانے آجاتے ہیں۔ بلدیاتی نظام حقیقی عوامی نظام ہے،بلدیاتی نظام میں تواتر ہو تو بہتری بھی ہو جاتی ہے۔
سوشل ایکٹیوسٹ اور مصنف پرویز ولیم کا ماننا ہے کہ بلدیاتی نظام کی بنیاد گورننس ہوتی ہے، ہمارے یہاں اس لئے اس کو نافذ نہیں کیاجارہا کہ جب وہ نظام آتا ہے تو پھر جتنے بھی فنڈز، پلاننگ اور پالیسیاں ہیں وہ بلدیاتی نمائندے کرتے ہیں یہ اُن کا اختیار ہوتاہے۔ اس کے بعد اوپرجو بیٹھے ہیں اُن کو لگتا ہے کہ یہ عوامی مسائل تو ہاتھ سے نکل گئے ہیں کیونکہ اسی پر انہوں نے سیاست کرنی ہوتی ہے ۔ اقلیتی آبادی میں گورننس سے جُڑے مسائل اس قدرزیادہ ہیں جن کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ کچھ آبادیوں میں خواتین و مردوں کیلئے ایک دو ڈسپنسریاں ہیں وہ تو ٹھیک کام کر رہی ہیں لیکن خواتین کیلئے کوئی علیحدہ سنٹر نہیں بنایا گیا۔ جہاں تک اقلیتی آبادیوں کی ریگولائز نہ ہونے کی بات ہے تواِس کے پیچھے سیاسی وجوہات بھی ہیں۔
بچوں کیلئے تعلیم کا ماحول نہیں ہے اور پھر ان کے والدین کی استطاعت بھی نہیں ہے کہ بچوں کو بہت پڑھائیں ، ایف اے، بی اے پڑھ لیتے ہیں مگر اس میں تو کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی باقی جو ہمارا 5 فیصد ملازمت کا کوٹہ ہے اس پر بھی عملدرآمد بہت کم ہوتا ہے۔ہائیرپوسٹوں کیلئے اقلیتی برادری کے لوگ اپلائی ہی نہیں کرتے ہیں اور جو اپلائی کرتے ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔جب کوئی پڑھا لکھا نوجوان ملازمت کے لئے جاتا بھی ہے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے درجہ چہارم کے کام میں ڈالا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس سیل کے انفارمیشن سیکرٹری طارق غوری کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی آبادیوں میں تعمیرات ریگولرائز نہ ہونے کی سب سےبڑی وجہ ساری بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں جب الیکشن سے پہلےاِن آبادیوں میں ووٹ لینے جاتی ہیں تو سب سے بڑا وعدہ ان کے ساتھ ان کی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے کا ہی کرتی ہیں لیکن الیکشن جیتنے یا ہارنے، دونوں صورتوں میں وہ دوبارہ مڑ کر ان کی طرف دیکھتی بھی نہیں۔ ایک اور بڑی وجہ مقامی افراد کاآپس میں اتحاد کا فقدان بھی ہے۔اکثر اوقات گروپ بندیوں کی وجہ سے بہت سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کروانا ہی کافی نہیں بلکہ اِن کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کا بااختیار ہونا بھی ضروری ہے۔ اگرعوامی سطح پر منتخب نمائندے، فراہم کی گئی رقوم کو اپنی کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لئے استعمال کریں تو اِن کے علاقوں میں گلی، محلے کچے نہ ہوں اور سب کو تعلیم،صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ممکن ہوسکے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔