انسانی حقوق

اقلیتی برادری کی خواتین کو اسمبلیوں میں امتیازی سلوک کا سامنا

2018،2013 اور2024 کی صوبائی اسمبلیوں کا جائزہ لیں تو صرف 6 اقلیتی خواتین اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پرنمائندگی کر پائیں،پنجاب میں شرح زیادہ

وجیہہ اسلم

پاکستانی معاشرے کے روایتی اور سماجی رویوں کی وجہ سے غیر مسلم خواتین کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اکثرغیرمسلم خواتین کومخصوص نشستوں پر سیٹ دینے سے گریزاں رہتی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کی گئی ہیں تاکہ اُن کی نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔ سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگز جیسے کہ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان تحریکِ انصاف، اور جمعیت علمائے اسلام موجود ہیں، لیکن ان جماعتوں نے اپنے اقلیتی ونگز سے خواتین کو کبھی ترجیح نہیں دی اور نہ ہی انہیں اپنی پارٹیوں کے ذریعے اسمبلی تک پہنچنے کا موقع دیا گیا۔

جب الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی یا صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے جماعتوں سے خواتین کے نام طلب کرتا ہے، تو یہ جماعتیں اکثریتی برادری سے وابستہ مسلمان خواتین کی فہرستیں جمع کروانے میں ذیادہ متحرک ہوتی ہیں۔ اسی طرح، جب الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اقلیتی نمائندگی کے لیے اُمیدواروں کے نام مانگے جاتے ہیں، توفہرست میں 1 سے 4 تک مرد اقلیتی افراد جبکہ اقلیتی خواتین کا نام 5 یا 6 نمبرپرہوتا ہے۔ اِس وقت بھی قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) 84 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے اور اسے اپنی کل نشستوں کے تناسب سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے حصہ مل رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو 54 ارکان کے مطابق مخصوص نشستیں دی جا رہی ہیں، جبکہ ایم کیو ایم 17 ارکان کے تناسب سے مخصوص نشستوں میں سے حصہ لے رہی ہے۔

منگلا شرما سابق رکن سندھ اسمبلی نے2001 میں لوکل باڈیزکے الیکشن سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔2018 کے انتخابات میں مخصوص نشست پرایم کیو ایم کی طرف سے سندھ اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ اُن کا کہنا ہےکہ ”جب میں سندھ اسمبلی کی ممبر بنی تو مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ بہت کچھ کر سکتی تھی جو میں نا کر پائی۔ اسمبلی میں خواتین اراکین کے حوالے سے جوسسٹم بنا ہوا ہے وہاں صرف مردوں کی ہی حکمرانی ہے۔ یہ میں اکثریتی مسلم خواتین اوراقلیتی خواتین دونوں کے حوالے سے کہہ رہی ہوں،ہمیں قانون سازی میں بھی پیچھے ہی رکھا جاتا ہے‘‘۔ منگلا شرما کہتی ہیں کہ اسمبلی میں جب بھی کوئی میٹنگز ہوتی تھیں تواُنہیں بتایا جاتا تھا کہ سینئرزمیٹنگ میں چلے گئے ہیں ،جب سوال کیا جاتا تھا کہ ہم جونئیرز کیسے جائیں گےتو جواب یہ ملتا تھا کہ اُنہیں معاملات کا ذیادہ پتہ ہے۔

سیاسی جماعتیں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر صرف غیر مسلم مرد حضرات کو ہی منتخب کیوں کرتی ہیں؟

ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بات کریں تو حالیہ انتخابات 2024 کے بعد پنجاب اسمبلی کی کُل 10نشستوں میں سے 5 پر مسلم لیگ ن نے 4 مردوں کو اور 1خاتون کو ٹکٹ دیا جبکہ 5مخصوص نشستوں پر ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ سندھ اسمبلی میں 9 نشستیں اقلیتوں کی ہیں جس پر ایک بھی غیر مسلم خاتون نمائندگی نہیں کررہی۔ بلوچستان اسمبلی کی بات کریں تو اقلیتوں کی دو نشستوں پر بھی مرد حضرات ہی براجمان ہیں۔عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ بلوچستان میں خواتین تعلیم سے محروم ہیں اِسی وجہ سے وہ سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہو پاتیں۔ بہت سی خواتین کو معاشی پابندیوں کا بھی سامنا ہے اور اُن کے پاس سیاست میں حصہ لینے کے لیے مالی وسائل نہیں۔

بلوچستان سےوابستہ اوراقلیتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن شیزان ولیم کا کہنا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے اندراِس قسم کا فریم ورک ڈیزائن ہوچکا ہے کہ وہاں پرچند ایک لوگ اپنی ذاتی مفاد کے لئے پارٹیوں کے اندر گھُسے ہوئے ہیں اور وہی انکے قریب ہیں۔تین سے چاربرس پہلے جب ہم نے سیاسی جماعتوں میں خواتین کو ڈھونڈا تو ہمیں صرف دو سے تین خواتین ہی ایسی ملیں جو سیاست کی سمجھ بوُجھ رکھتی تھیں۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہاں خواتین میں تعلیم کی کمی بھی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں بارے میں خواتین ذیادہ نہیں جانتیں اوراِن کی اکثریت ووٹ ڈالنےبھی نہیں جاتی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں خواتین کو نشستیں دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں خواتین کومواقع دے رہی ہیں۔ ایک اور اہم وجہ بلوچستان میں قبائلی نظام کا گہرا اثر ہے۔ قبائلی نظام میں مردوں کو فیصلے لینے کا اختیار ہوتا ہے اور خواتین کو سیاسی معاملات میں کم اہمیت دی جاتی ہے۔

اقلیتی ممبران میں اتحاد کی کمی

سابق ایم پی اے سندھ اسمبلی منگلا شرما سے جب سوال کیا گیا کہ، کیااقلیتی ممبران میں اتنا اِتحاد ہے کہ وہ اپنی اقلیتی خواتین ممبران کوساتھ لے کر سکیں، کیا اسمبلی میں آپ کو کبھی ایسا حوصلہ افزا رویہ نظر آیا؟ تو اِس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ”باکل بھی نہیں، مجھے آج بھی یاد ہے کہ اسلام آباد میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جسں میں نے کہا تھا کہ خواتین کی تین نشستیں مختص کر دیں مگر کسی نے بھی میرے ساتھ اتفاق نہیں کیا،مجھے کہا گیا کہ ہم کیوں خواتین کو نشستیں دیں ہم میل ممبرز کو کیوں نہ دیں“۔

کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اس مسئلہ کو حل کرسکتا ہے؟

”الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جس طرح تمام سیاسی جماعتوں کوجنرل الیکشن میں خواتین کو 5فیصد ٹکٹیں دینے کا پابندکیا ہےاِسی طرح اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں بھی خواتین کا کوٹہ مختص کردینا چاہیے“، یہ کہنا تھا سابق رکنِ سندھ اسمبلی منگلا شرما کا۔

سابق چئیرمین الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اقلیتی خواتین کی اسمبلیوں میں نشستوں کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ آئین میں اِس حوالے سے کچھ درج نہیں۔جہاں تک بات ہے کہ اقلیتی خواتین کو بھی اقلیتی مردوں کے برابر چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں نشستیں ملنی چاہیے تو اِس معاملے میں آئین میں کہیں بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر کوئی اقلیت کی نشست ہے تویہ سیاسی جماعت کا فیصلہ ہے کہ اُس نے اپنے حصے میں آنے والی مخصوص نشستوں میں سے کتنی خواتین کو دینی ہیں اور کتنی مردوں کو، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن پابند نہیں کر سکتا۔آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لیے 10 نشستیں مختص ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا تبھی اقلیتی خواتین اپنے حقوق کے لئے اسمبلی میں آواز اٹھا سکیں گی۔ اگر اِس بارے میں قانون سازی نہیں ہوتی تو آئندہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو غیر مسلم مخصوص نشستوں پر پارٹی کے منشورمیں ایک کوٹہ مختص کر دینا چاہیے۔ اقلیتی خواتین کوٹہ کی بنیاد پر آئینی طور پراسمبلیوں کا حصہ نہیں بن سکتیں کیونکہ یہ ایک مشکل اور نا ممکن کام ہے مگر اگر سیاسی جماعتیں اور اقلیتی برداری ایک صفحہ پہ اکھٹے ہو جائیں کہ اقلیتی خواتین کو بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہونا چاہیے،مثال کے طور پر انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن میں جمع ہونے والی اقلیتوں کی لسٹ میں اقلیتی خواتین کا نام دُوسرے یا تیسرے نمبر پر ہونا چاہیے۔

ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی سوچ کیسے بدلے گی؟

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی چودھری سالک حسین کا کہنا ہے کہ ”جس طرح جنرل نشستوں پر خواتین کے لئے 5فیصد کوٹہ مختص کر دیا گیا ہےاسی طرح ہمیں اقلیتی خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلنا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں موجود اقلیتی رہنما اس سلسلے میں ایک واضح طریقہ کار بنائیں جس پراسمبلی کے فورم میں ڈبیٹ کر کے کوئی فیصلہ کر سکیں“۔

ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی کھیل داس کوہستان کہتے ہیں کہ”حالیہ الیکشن میں اُنکی جماعت نے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے قومی اسمبلی میں 10نام دئیے تھے ۔اس فہرست میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنےوالی پارٹی ورکرنیلم کُماری کا نام پانچویں نمبر پرتھا۔انہوں نے حلف بھی لیا تھا مگر اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا تو انہیں ڈی نوٹیفائیڈ کر دیا گیا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ اگر 10اقلیتوں کی نشستیں ہیں تو اس میں 3 کم از کم خواتین کے لیے مختص ہونی چاہیے۔خواتین کی مخصوص نشستوں میں بھی اقلیتی خواتین کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے‘‘۔

نیشنل پیس کمیٹی فارانٹر فیتھ ہارمنی بلوچستان کے صدر شیزان ولیم اِس بارے میں کہتے ہیں کہ ”نیشنل پارٹی نے اب جا کر ایک خاتون کو پارٹی میں شامل کیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے کہا ہوا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں خواتین کو پارٹی کے خواتین ونگز میں شامل کریں مگر ایسا عملی طور پر نظر نہیں آتا۔ اگرایسا ہوتا بھی ہے تو سیاستدانوں کی بیگمات سامنے آئیں گی مگر ورکرز نظر نہیں آئیں گی۔بلوچستان میں بڑی سیاسی جماعتوں میں پیسے والے لوگ سامنے آتےہیں۔خواتین کو اگر رکھا بھی جاتا ہے تو انہیں پارٹیوں کے پولیٹیکل ونگ میں نمائندگی دی جاتی ہے،پارٹی کی سیاست میں جگہ نہیں دی جاتی۔ اگر اسی سسٹم میں بہتری کی بات کی جائے تو جب اقلیتوں کی لسٹیں بنتی ہیں تواِن نشستوں کے لیئے انٹرا پارٹی الیکشن ہونے چاہیے۔ اِس طرح جو چندہ دے کر پارٹی میں اوپر آ رہے ہیں انکا رجحان ختم ہو جائے گا دوسرا یہ پارٹی میں جن کی ذیادہ خدمات ہیں وہ لوگ سامنے آ سکیں گے‘‘۔

پاکستان میں اقلیتی خواتین کو اسمبلیوں میں نمائندگی مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے کئی چیلنجز کو دور کرنا ہوگا۔ حکومت، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ غیر مسلم خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ آئینی طور پر غیر مسلم خواتین کی سیاسی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر، پارلیمنٹ میں اقلیتی خواتین کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جا سکتی ہیں۔اگر قانون سازی نہیں ہوتی تو آئندہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں پر اقلیتی خواتین کا کوٹہ پارٹی منشور میں شامل کرنا ہوگا۔

Back to top button