ساہیوال، ٹیچنگ ہاسپٹل کے چلڈرن وارڈ میں لگنے والی آگ اور مریم نواز کے دبنگ فیصلے
وارڈ میں لگے اے سی میں سے اچانک دھواں نکلتا دیکھ کر ہم نے فورا سٹاف کو بتایا مگر کسی نے ہماری بات کو اہمیت نہیں دی۔ زینب بی بی نے ڈی ریپوٹرز کو بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اے سی سے نکلتے دھوے نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری وارڈ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن وہاں نا آگ بجھانے کے لیے کچھ موجود تھا اور نا ہی عملہ نے اس کی کوشش کی اور بچوں کو وارڈ ہی میں چھوڑ دیا۔
آٹھ جون کو کیا ہوا؟
ساہیوال شہر کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں صبح دس بجے کے قریب اچانک چلڈرن وارڈ میں آگ بھڑک اٹھی۔ آگ کے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری چلڈرن وارڈ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وارڈ میں اس وقت تقریبا 75 بچے زیرعلاج تھے۔ اگ شارٹ سرکٹ کے باعث وارڈ میں موجود اے سی میں لگی ۔ چلڈرن وارڈ پہلی منزل پر ہے ۔ اگ لگنے کے بعد فائر بریگیڈ کو بلایا گیا مگر تب تک پوری وارڈ کالے دھوے سے بھر چکی تھی۔
شوکت جوتہ، صحافی ہیں ۔ واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے شوکت نے بتایا کہ اس لمحے والدین اپنے بچوں کی زندگیوں کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے جبکہ سٹاف والدین کو واضح پیغامات دے رہا تھا کہ "جائیں آپ اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں "
ہسپتال انتظامیہ کا موقف
چلڈرن وارڈ میں لگنے والی آگ کے واقعے کے بعد انتظامیہ نے مکمل چپ سادھ لی ۔ رات گئے تک نقصانات کے حوالے سے بھی کوئی معلومات نہیں دیں گئیں اور سب اچھا بتایا جاتا رہا۔ ایک روز کے بعد وزیراعلی پنجاب کو جو رپورٹ پیش کی گئ اس میں آگ لگنے کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے ہر انتظامیہ شخص کو اس ذمہ داری سے بری قرار دیا گیا۔
ایم ایس ٹیچنگ ہسپتال اختر محبوب نے بھی اس کے بعد اس واقع کو صرف ایک حادثہ قرار دیا اور بضد رہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع سے محفوظ رہے۔ جبکہ ہفتہ کے روز لگنے والی آگ سے لے کر اتوار کی شام تک کوئی پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی گئ جبکہ ارشد نامی ایک شخص کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کہ اس شخص نے بچوں کو آگ سے نکالا، ایم ایس آفس نے فورا اس کی تردید ضرور جاری کی۔
عینی شاہدین کا بیان
75 بچوں کے والدین وہاں کالے دھوے کو دیکھتے ہوئے دھائ دیتے رہے کہ ان کے بچوں کو وہاں سے نکالا جائے۔ لیکن سٹاف نے اپنی جانیں بچانے کو ترجیح دی۔
سلیم کاٹھیاواڑ صحافی ہیں اور پہلے روز سے ہی اس واقع کو کور کر رہے ہیں۔ سلیم نے بتایا کہ والدین نے خود کالے دھویں میں محصور بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت وارڈ سے باہر نکالا۔ جبکہ بچوں کے چہرے دھوے سے کالے ہو چکے تھے ۔ بہت سے بچے تبدیل بھی ہوے۔
سلیم نے جب متاثرہ والدین سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے موبائل کی ٹارچ کی مدد سے کالے اندھیرے میں اپنی جانوں کو داو پر لگا کر بچوں کو بچایا۔ بچوں کے اندر دھواں بھر چکا تھا ۔
اموات اور سہولیات
اگ لگنے کے واقعات میں متاثرہ بچوں کی تعداد 17 ہے جبکہ اس تعداد کو خفیہ رکھا گیا۔ واقع سے اگلے روز چار بچوں کی موت کا آفیشل نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس پر موت کی وجہ ، ملٹی ارگن فیلئیر ” لکھی گئ۔ یعنی یہاں بھی ضلعی انتظامیہ نے خود کو مکمل معصوم ثابت کیا۔ اس وقت تک 13 بچوں کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ باقی چار بچے بھی نازک حالت میں ہیں۔
واقع کے روز کی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اوپن سٹریچر پر دس سے بارہ انتہائی نگہداشت کے بچوں کو دوسری وارڈ میں شفٹ کیا جا رہا تھا لیکن اس بات کو اہمیت نہیں دی گئ کہ ان تمام بچوں کو اس وقت آکسیجن کی اشد ضرورت تھی۔
مریم نواز کا دورہ ساہیوال
آج مریم نواز نے ساہیوال ضلعی انتظامیہ اور ٹیچنگ ہسپتال کی انتظامیہ کے ساتھ چار گھنٹے طویل اجلاس کیا۔ وزیراعلی پنجاب کا آج کا یہ دورہ ساہیوال کی انتظامیہ کے منہ پر ذکر دار طمانچہ ثابت ہوا ۔ وزیراعلی نے سوال اٹھایا کہ اتنے بڑے حادثے کے بعد ہسپتال انتظامیہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ معصوم ہے ؟ کیا ان والدین کے دکھ کا بھی اندازہ نہیں لگایا گیا جو آگ کی وجہ سے زندگی کھو بیٹھے۔ وزیراعلی نے واقع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف چار بچوں کی ہلاکت ظاہر کی گئ اور وجہ بھی کچھ اور لکھی جو واضح کرتی ہے کہ ہسپتال انتظامیہ صرف خود کو بچا رہی ہے ۔ عام آدمی اور اس کی تکلیف کا انہیں ذرا بھی اندازہ نہیں۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر پرنسپل ساہیوال میڈیکل کالج عمران حسن ،ایم ایس ٹیچنگ اسپتال ،ڈاکثر عمر اور ڈاکٹر عثمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جبکہ ان گرفتاریوں کے خلاف ٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ہڑتال کر دی ہے۔
اس وقت ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں ایمرجنسی مریضوں کو بھی چیک نہیں کیا جا رہا۔