سال 2021: سوات میں خواجہ سراوں پر تشدد کے 9 مقدمات درج ہوئے
”جب ہم نے خوازہ خیلہ سے گاشکوڑ کے چیک پوسٹ کو کراس کیا تو اتنے میں اچانک ایک گاڑی ہماری گاڑی کے سامنے کھڑی ہو گئی اور ہم پرماسک پہنے نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس میں میں زخمی ہوئی مجھے اغوا کرنے کی بھی کوشش کی مگر میرے دوستوں نے مجھے بچا لیا”
یہ کہنا ہے شگفتہ نامی خواجہ سراء کا وہ کہتی ہے کہ ہم خوازہ خیلہ میں ایک موسیقی و رقص کے پروگرام میں موجود تھیں کہ اتنے میں ایک مولوی آ گیا کہ پروگرام بند کر دیں عوام نے بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر مولوی نہ مانا اور پولیس کی مدد سے موسیقی کا پروگرام بند کرادیا۔
شگفتہ کے مطابق جب پروگرام بند ہوا تو ہم واپس جا رہے تھے کہ راستے میں اچانک ماسک پہنے نامعلوم افراد نے ہم پر حملہ کیا مجھے گاڑی سے زبردستی اتارنے کی کوشش کی مھجے پستول سے بھی مارا جس کیوجہ سے میرا چہرا اور سر شدید زخمی ہو گیا،
شگفتہ کہتی ہے کہ پھر میرے ساتھیوں نے مجھے ہسپتال پہنچایا اوراس کے بعد ہم پولیس سٹیشن چلے گئے جہاں ہم نے نا معلوم افراد کے خلاف ایف ائی ار درج کروا دی۔ پھر پتہ نہیں ایس ایچ او اور ان افراد کے مابین کیا طے ہوا کہ ہماری ایف ائی ار ہی ختم کرادی۔ بعد میں ہم نے ڈی پی او سوات کو کمپلینٹ درج کروادی اور انہوں نے متعلقہ ڈی ایس پی کو ہماری درخواست بھیج دی انہوں نے ہمیں بلا دیا اور ڈی پی او اور ڈی ایس پی کی تعاؤن سے ہمارا مسلہ ختم ہوا اور متعلقہ ایس ایچ او کو بھی معطل کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق سال 2019 میں سوات کے خواجہ سراؤں پر تشدد کے دو مقدمات درج ہوئے سال 2020 میں صرف ایک مقدمہ درج ہوا جبکہ سال 2021 میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا اور سوات پولیس کے پاس 9 مقدمات درج ہوئیں۔
سوات پولیس کے مطابق بعض اوقات خواجہ سرا کیطرف سے مقدمات درج ہی نہیں ہوتے کیونکہ یا تو اپس میں صلح ہو جاتی ہیں اور یا ان افراد سے ڈرنے کیوجہ سے خواجہ سرا پولیس میں رپورٹ درج نہیں کرواتے۔
خواجہ سراؤں کیساتھ تعاؤن کے حوالے سے پولیس افیسر نے بتایا کہ ہمارے طرف سے خواجہ سرا کمیونٹی کیساتھ ہر ممکن تعاؤن کیا جاتا ہیں کیونکہ پولیس کیجانب سے عوام کے جانوں اور مال کو تحفظ فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے چاہے وہ خواجہ سرا ہی کیوں نہ ہو۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے جب سوات میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواجہ سراء صبا نور سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ سوات میں ہمیں بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہیں ایک تو یہ کہ ہمیں اس سوسائٹی میں اسانی سے برداشت نہیں کیا جاتا اگر ہم رہائش کے لئے مکان کو کرایہ پر لیتے ہیں تو جب اس کا کرایہ 2 سے 3 ہزار تک ہو تو ہم سے 15 ہزار تک کرایہ لیا جاتا ہیں اور یا اسانی سے رہنے کا کوئی ٹھکانہ ملتا ہی نہیں۔
جب صبا نور سے تشدد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں بلکل ہمارے ساتھ بہت ایسے واردات ہوئے ہیں جن میں خواجہ سراء کو راستے سے اٹھایا گیا ہیں ان کی بے حرمتی کی گئی ہے کبھی تو اتنا تشدد کیا جاتا ہیں کہ بعض اوقات ہمارے دوست زخمی حالت میں ہسپتال تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔
سوات میں خواجہ سرا کی تعداد کتنی ہیں؟
سوات میں کتنے خواجہ سراء موجود ہیں اس بارے میں نہ تو پولیس کے پاس کوئی ڈیٹا موجود ہے اور نہ ہی کسی ادارے کے پاس مگر صبا نور جو کہ خود منزل فاؤنڈیشن کی جنرل سیکٹری ہے جو خواجہ سراء کے حقوق پر کام کرتی ہیں ان کے مطابق سوات میں 125 تک خواجہ سراء مقیم ہیں۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کی تعداد کتنی ہیں؟
پاکستان بیورو اف اسٹیٹکس کے 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق بشمول سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد 940 ہیں مگراس تعداد پر خواجہ سرا کمیونٹی کے خاصے تحفظات ہیں۔
ٹرانس ایکشن الائنس خیبر پختونخوا کے صدر فرزانہ کے مطابق صرف پشاور میں ایک ہزار خواجہ سرا رہتے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو غیر رجسٹرڈ ہے اور خواجہ سراؤں کی طرح ڈریسنگ نہیں کرتے۔
ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ ہیں۔
مردم شماری کے مطابق پاکستان میں کتنے خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں؟
پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب مردم شماری میں نظر انداز کی جانے والی خواجہ سرا برادری کو بھی علیحدہ سے شمار کیا گیا۔ 2017 کے مردم شماری کے مطابق ملک میں موجود خواجہ سراؤں کی کل تعداد 10 ہزار 418 ہیں۔
پنجاب میں خواجہ سرا کی تعداد سب سے زیادہ ہے کیونکہ پنجاب صوبہ ابادی کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے جن میں یہ تعداد 6 ہزار 709 افراد پر مشتمل ہیں۔ خواجہ سراؤں کی ابادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جہاں مخنث افراد کی تعداد 2 ہزار 527 ہیں۔ خیبر پختونخوا میں یہ تعداد 913 جبکہ بلوچستان میں 109 ہیں۔ قبائلی علاقوں (فاٹا) میں یہ تعداد صرف 27 ہے جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام اباد میں یہ تعداد 133 ہیں۔
خیبر پختونخوا میں کتنے خواجہ سرا قتل ہوئے؟
ٹرانس ایکشن الائنس کے صدر فرزانہ کے مطابق 2015 کے بعد خیبر پختونخوا میں 79 تک خواجہ سرا قتل جبکہ 2 ہزار سے زائد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہیں۔
سماجی تنظیم بلو وینز کے ساتھ کام کرنے والے قمر نسیم جو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرتے ہے ان سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے کہا گزشتہ پانچ سالوں سے ہم نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے بڑا فوکس کام کیا ہے جس میں بہت سارے اداروں کیساتھ مل کر پالیسی سازی کرنا اور خواجہ سرا کے حقوق، تعلیم اور صحت کے حوالے سے ہمارے ادارے نے کافی کام کیا ہیں۔
قمر نسیم سے جب پوچھا گیا کہ خواجہ سرا کو ان کے حقوق کیوں نہیں مل رہے تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک کافی مشکل بات ہے ایک یہ کہ سنسیویٹی موجود نہیں تھے دوسرا یہ کہ خواجہ سرا خود ارگنائز نہیں تھیں اور جو کہ کوئی قانون موجود نہیں تھا اس لئے خواجہ سراؤں کو ان کے وہ حقوق نہیں مل سکے جو ایک پاکستانی شہری ہونے پر ان کا حق تھا۔
قمر نسیم کے مطابق 2010 میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کے حقوق کو تسلیم کیا اور ان کے لئے شناختی کارڈ میں ایک الگ خانے کی سفارش کی اور ساتھ ہی جو متعلقہ ادارے تھے ان کو ارڈرز دیئے سپریم کورٹ اف پاکستان نے اور اس کے بعد ہائی کورٹ نے بھی یہ حکم دیا کہ خواجہ سراؤں کی صحت،تعلیم، رائٹ ٹو ووٹ اور اس حوالے سے جو دیگر سہولیات ہے وہ خواجہ سراؤں کو دیئے جایئں اور ان کے حقوق کو یقینی بنایا جائے مگر بد قسمتی سے نادرا کے علاوہ شاہد ہی کسی اور ادارے نے اس پر عمل کیا ہیں۔