انتخابی وعدے اور پسماندہ طبقات: سوات میں میڈیا کی غیر متوازن کوریج کا جائزہ
گزشتہ عام انتخابات کے دوران، خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں مذہبی اقلیتوں، خواتین، خواجہ سرا افراد اور معذور افراد جیسے پسماندہ طبقات کی آوازیں میڈیا کی رپورٹنگ میں نمایاں طور پر غائب رہیں۔ سیاسی امیدواروں نے ان کمزور گروہوں کی بہبود کے لیے وعدے کیے، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی اور مرکزی میڈیا ادارے اکثر ان کے مسائل کو درست اور مناسب طریقے سے رپورٹ کرنے میں ناکام رہے۔
سوات میں پسماندہ طبقات
سوات ایک متنوع آبادی کا حامل ضلع ہے، جہاں مذہبی اقلیتیں، جیسے کہ مسیحی اور سیکھ کمیونٹی ، سماجی اخراج اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ یہاں کی خواتین کو بھی سیاسی اور معاشی میدانوں میں نمایاں مسائل کا سامنا ہے۔ خواجہ سرا برادری کو قانونی شناخت ملنے کے باوجود سماجی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے، اور معذور افراد کو بنیادی خدمات اور عوامی مقامات تک رسائی کے لیے انفراسٹرکچر کی کمی کا سامنا ہے۔
یہ طبقات جن کی سیاسی نمائندگی اور طاقت محدود ہے، میڈیا پر انحصار کرتے ہیں تاکہ ان کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔ تاہم سوات میں انتخابی کوریج نے ان کی کہانیاں بمشکل ہی بیان کیں۔
میڈیا کی کوریج میں کمی
سوات کے مقامی سینئر صحافی فضل خالق جو ایک عرصہ سے قومی اخبار کیساتھ منسلک ہے کہتے ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے دوران سوات میں حاشیہ پر موجود کمیونٹی، اقلیتوں، اور ٹرانسجینڈر افراد کے مسائل کو مقامی اور قومی میڈیا نے بہت کم یا نہ ہونے کے برابر توجہ دی، سیاسی مہمات کی کوریج میں صرف مخصوص سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی سرگرمیوں پر زور دیا گیا، جبکہ ان مارجنلائزڈ کمیونٹیز کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔
فضل خالق نے مزید کہا کہ یہ کمیونٹیز اکثر میڈیا کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتیں، کیونکہ پاکستان میں ان کو عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور انہیں سماجی طور پر اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، خاص طور پر ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو درپیش مسائل کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے اور ان کے حقوق کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔ میڈیا کی جانب سے ان کی زندگی کے چیلنجز کو اُجاگر کرنے کی کوشش نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی مہمات کے دوران بھی میڈیا کی توجہ اکثر صرف سیاسی امیدواروں اور ان کے بیانات پر مرکوز رہتی ہے، کیونکہ اس میں مالی فوائد اور دیگر مراعات شامل ہوتی ہیں۔ سوات جیسے علاقوں میں صحافت کا معیار بھی اس رجحان کی ایک وجہ ہے۔ یہاں کے بہت سے صحافی پیشہ ورانہ صحافت کی تکنیکوں سے واقف نہیں ہیں اور ان کا فوکس عام لوگوں کے مسائل کی بجائے صرف سرکاری پروٹوکولز اور بڑے سیاسی شخصیات کی کوریج پر ہوتا ہے، جو انہیں مالی فائدہ یا دیگر مراعات دلاتی ہے۔
فضل کے مطابق انتخابات کے بعد بھی ان مارجنلائزڈ کمیونٹیز کے مسائل کو میڈیا میں زیادہ توجہ نہیں ملی۔ اس کی ایک وجہ میڈیا کے اندر موجود پروفیشنلزم کی کمی ہے، جہاں سماجی مسائل کی بجائے صرف وہ خبریں اجاگر کی جاتی ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں مالی یا سیاسی فائدہ ہو۔ چند ایک میڈیا ادارے اور رپورٹرز سماجی مسائل کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کی آواز اکثر بڑی خبروں میں دب جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوات جیسے علاقوں میں غریب اور مارجنلائزڈ کمیونٹیز کے مسائل میڈیا میں کم نمایاں ہوتے ہیں، اور انتخابات کے دوران بھی ان کی ترجیح نہیں بن پاتے۔ اس رویے کو بدلنے کے لیے نہ صرف میڈیا کو پیشہ ورانہ رویے اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی سطح پر ان کمیونٹیز کے حقوق کو تسلیم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان کی آواز سنی جا سکے۔
پسماندہ طبقات کی رائے
سوات کی سکھ کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے ہیڈ آف سکھ کمیونیٹی سوات، تحصیل چیئرمیں منیارٹی اور ممبر تنازعات حل کونسل منگورہ پولیس سٹیشن ویر بنسری لال جی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقے میں میڈیا نے کچھ خاص کردار ادا نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ یہاں پر جو الیکشن کا سسٹم ہے اس پر اقلیتوں کو بہت زیادہ تحفظات ہے کیونکہ جو پارٹی سے وابستہ لوگ ہوتے ہیں وہ اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں اور کوئی خاص بندے جس کا پارٹی کیساتھ کوئی واسطہ بھی نہیں ہوتا اس کو سیٹ مل جاتی ہے۔میڈیا کا اس حوالے سے بھی ایک اہم کردار ہے جو انہوں نے ادا کرنا ہے مگر ابھی تک وہ ادا نہیں کیا کہ وہ بھی اقلیتی رہنماؤں کیساتھ بیٹھ جائے اور ان کے مسائل کے حوالے سے رپورٹ کریں۔
بنسری لال نے مزید کہا کہ ہمارا شمشان گھاٹ بھی سیلاب کی نظر ہو گیا تھا جس میں کچھ صوبائی حکومت کے تعاؤن سے اور باقی ہمارے کمیونیٹی کے چندے سے ہم نے دوبارہ تعمیر کیا اور اس کے علاوہ مسیحی برادری کے مسائل جیسے کہ مخصوص قبرستانوں اور مذہبی مقامات کے تحفظ، پر توجہ نہ دینے کی نشاندہی بھی کی۔
بنسری لال جی نے کہا ہمیں اپنی مذہبی رسومات کے لیے بہتر سہولیات کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن میڈیا نے انتخابات کے دوران زیادہ تر سیاسی کمپائن کو ہی ترجیح دی تھی اور اب انتخابات کے بعد کیونکہ میں لوکل اسمبی کا بھی ممبر ہوں لوکل باڈی میں تو اب میری تقریر کو باقاعدہ کوریج ملتی ہے اور لوکل سوشل میڈیا پر بھی وہ انٹرویوز چل جاتی ہے۔
اسی طرح سوات میں خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال کو خاص طور پر نظرانداز کیا گیا ہے، جس کی جڑیں انتخابی مہم سے لے کر میڈیا کوریج تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انتخابی مہمات میں خواجہ سرا کمیونٹی سے متعلق وعدے کیے گئے تھے، جیسے ان کی بنیادی حقوق کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور معاشرتی تحفظ کی یقین دہانی۔ تاہم، انتخابی وعدے محض کاغذی باتیں ثابت ہوئیں اور زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔
نادیہ خان جو کہ ایک مقامی خواجہ سرا کارکن ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر انتخاب میں وعدے ملتے ہیں کہ ہمارے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور ہمیں معاشرتی تحفظ دیا جائے گا، مگر انتخاب ختم ہونے کے بعد یہ وعدے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ میڈیا بھی ہمارے مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے، اور ہمیں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے بجائے، ان کو نظرانداز کیا گیا اور ان کی آواز کو دبایا گیا۔ میڈیا نے انتخابی مہم کے دوران خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، اور جو وعدے کیے گئے تھے ان کی پیروی میں بھی ناکامی ہوئی۔
نادیہ کے مطابق خواجہ سرا کمیونٹی کو اب سوشل میڈیا پر اپنی آواز اٹھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، کیونکہ مین اسٹریم میڈیا ان کے مسائل کو ترجیح نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے وہ اپنے حقوق اور نمائندگی کی بات کر رہے ہیں، لیکن انہیں اب بھی قانونی اور سماجی سطح پر وہ حقوق حاصل نہیں ہو رہے جو ان سے وعدہ کیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سوات کی پسماندہ خواتین جن میں خاص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین شامل ہیں، انتخابی عمل میں نظرانداز ہوئیں۔ خواتین کے روزگار، تعلیم، اور صحت کے مسائل پر انتخابی مہم کے دوران کچھ وعدے کیے گئے تھے، لیکن میڈیا نے ان مسائل کی بھرپور نمائندگی نہیں کی۔ سوات کی ایک مقامی خاتون تسلیم بی بی نے بتایا کہ ہمارے مسائل ہمیشہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں، انتخابی وعدے کیے گئے تھے کہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے اور صحت کی سہولتوں میں بہتری لائی جائے گی، لیکن ان وعدوں پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا، اور میڈیا بھی ان مسائل کو اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔
سوشل میڈیا کا کردار
سوات سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صحافی حیدر علی جان نے کہا کہ سوشل میڈیا کا سوات جیسے علاقوں میں عام انتخابات کے دوران اور بعد میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی پر گہرا اثر رہا ہے، خاص طور پر خواتین، مذہبی اقلیتوں، اور خواجہ سرا افراد کے حوالے سے۔
حیدر علی جان کے مطابق سوشل میڈیا نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جس سے ان افراد کی آواز بلند ہوئی، خواتین اور خواجہ سرا افراد جو پہلے سماجی دباؤ کی وجہ سے سیاسی عمل میں حصہ لینے سے کتراتے تھے انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی نمائندگی کا مطالبہ کیا اور اپنے مسائل کو اجاگر کیا، مذہبی اقلیتیں بھی اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا نے سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ اپنے منشور میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی کو شامل کریں۔ انتخابات کے دوران، مختلف سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر اپنے ترقیاتی منصوبے اور پسماندہ طبقات کے لیے خصوصی اقدامات کو زیادہ نمایاں کریں، خواتین امیدواروں اور کارکنان نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا تاکہ اپنی کمپائنز کو منظم کر سکیں اور ووٹرز تک رسائی حاصل کر سکیں۔ روایتی میڈیا کی رسائی محدود ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا نے خواتین کو ایک نیا فورم دیا ہے۔
سوات میں خواجہ سرا افراد کی سیاسی نمائندگی یا حقوق کی بات چیت سوشل میڈیا پر نسبتاً نئی ہے لیکن اس پلیٹ فارم کے ذریعے ان کی کوریج میں اضافہ ہوا ہے۔ خواجہ سرا افراد نے اپنی شناخت اور مطالبات کو سوشل میڈیا پر نمایاں کیا، جس کی وجہ سے سیاسی اور سماجی مکالمے میں ان کے مسائل شامل کیے جانے لگے ہیں۔سوات میں بسنے والی اقلیتیں، جیسے کہ مسیحی یا سکھ برادریاں، سوشل میڈیا پر اپنی نمائندگی اور حقوق کے حوالے سے زیادہ بات چیت کرتی ہیں۔
علی جان کے مطابق کبھی کبھار سوشل میڈیا پر اقلیتوں کی آبادی یا ان کے سماجی و سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔ بعض افراد جان بوجھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو ان کے حق سے زیادہ نمائندگی یا حقوق دیے جا رہے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
سوات کے مقامی صحافیوں کےسوشل میڈیا پیجز یا چینلز پر میں اس قسم کی خبریں یا ویڈیوز نہیں دیکھی ہے کہ جس میں اقلیتی کمیونٹی کو غلط دکھایا گیا ہو۔
منفی اثرات کے باوجود، سوشل میڈیا پسماندہ طبقات کے لیے اپنی آواز اٹھانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ کئی خواتین حقوق کے کارکنان نے ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال خواتین کی تعلیم اور روزگار میں حائل رکاوٹوں جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جنہیں روایتی میڈیا نے اکثر نظرانداز کیا۔
انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کے رائے اور آگے کا راستہ
میڈیا کی جوابدہی کو بہتر بنانے کے لیے، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور این جی اوز ایک زیادہ جامع انتخابی رپورٹنگ کے طریقے کی وکالت کر رہی ہیں۔ سوات میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تبسم عدنان کے مطابق، میڈیا اداروں کو اپنی کوریج کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام آوازوں کو شامل کیا جا سکے۔ "پسماندہ طبقات کی کہانیاں سوات میں ہونے والے واقعات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں،” انہوں نے زور دیا۔ "ہمیں میڈیا اور منتخب نمائندوں دونوں کو جوابدہ بنانا ہوگا تاکہ اقلیتوں، خواتین، خواجہ سرا افراد، اور معذور افراد کے مسائل کو وہ توجہ ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔”
جیسے جیسے سوات ترقی کی راہ پر گامزن ہے، ضروری ہے کہ میڈیا ان آوازوں کو نظرانداز نہ کرے جنہیں سب سے زیادہ سنے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات کے دوران کیے گئے وعدے پورے ہونے ہیں تو ان کی رپورٹنگ بھی ضروری ہے، نہ صرف انتخابات کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی۔