ٹرانسجینڈر پرسنز ایکٹ 2018 پراعتراضات، خواجہ سرا کمیونٹی حقوق کے تحفظ کیلئے پریشان
انیلہ محمود
پاکستان کی نظرانداز ٹرانسجینڈر کمیونٹی سماجی امتیاز اور معاشرتی ناہمواریوں کا شکار ہے جن کے پاس سال 2009 سے پہلے کوئی قانونی سٹیٹس بھی نہیں تھا۔ 2009 میں سپریم کورٹ نے اِن کی علیحدہ شناخت کو تسلیم کیا۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان کوآج بھی معاشرے میں جگہ جگہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاََ تعلیم کا حصول پھر نوکریاں نہ ملنا، دیگر معاشرتی حقوق سے محرومی، سماجی سطح پر ان کے ساتھ امتیازی رویہ غیرمعمولی ہے۔ جنس کی بنیاد پر اسی عدم مساوات کا نتیجہ ہے کہ پبلک سیکٹرز میں انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ سفر پر مسافر سیٹ یا سواری ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔کچھ ٹرانس جینڈر لوگوں کی شادیوں اور دیگر خوشیوں میں ہاتھ پھیلائے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند ایسے افراد مفلسی کی خاطر خلافِ فطرت کام بھی کرتے ہیں جو کہ ان کی زندگی کا سب سے تاریک پہلو ہے۔ اس کے علاوہ انہیں حملوں کے خوف اور خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے حقوق کے لیے مختلف صورتوں میں طبع آزمائی کی جاچکی ہے اور کی جارہی ہے مگر پھر بھی مثبت نتائج دکھائی نہیں دیتے۔
ٹرانس جینڈر قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں واضح کیا گیا کہ خواجہ سرا افراد کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ 2018میں اس قانون کی پارلیمان میں منظوری دی گئی اور ٹرانس جینڈر ایکٹ نافذ العمل ہو گیا۔ لیکن نفاذ کے چار سال بعد ہی وفاقی شرعی عدالت میں اِس ایکٹ کو اسلامی احکامات کے منافی قرار دے کر چیلنج کردیا گیا،جس کے بعد سال 2023میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ٹرانسجینڈرایکٹ کے سیکشن دو ایف ۔سیکشن تین اور سات کو خلاف شریعت قرار دے گیا اور تب ہی سے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ2018 میں ٹرانس جینڈرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔ نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ ٹرانس جینڈرز اپنی جس شناخت کو چاہیں وہی اُن کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔ ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری انھیں ملازمتوں، تعلیم کے حصول اور صحت کی سہولتوں کی یکساں فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں اُن کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ٹرانس جینڈرز کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈرز کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں
پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔
دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ
سال 2023 میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ٹرانسجینڈرپرسنزایکٹ کے سیکشن دو ایف ۔سیکشن تین اور سات کو خلاف شریعت قرار دے دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ دین اِسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں اور خواجہ سرا آئین میں درج تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب جنس کی بنیاد پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔عدالت نے کہا کہ شریعت کسی کو بذات خود اپنی مرضی سے جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی لہذا جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت سامنے آئے۔ شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
وزارت داخلہ کے2021 کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی 28723 درخواستیں موصول ہوئیں۔اِن میں سب سے زیادہ 16530 درخواستیں جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے اور 15154 درخواستیں خاتون سے مرد میں تبدیل کرنے کی تھیں۔اسی طرح مرد سے ٹرانس جینڈر بننے کے لیے نو درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ عورت سے ٹرانس جینڈر بننے کے لیے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔۔جولائی 2022کے نادرا کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ڈیٹا بیس میں2978 شناختی کارڈر رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 1856 نئے شناختی کارڈ بنائے گئے۔نادرا کیمطابق 1035مرد خواجہ سرا نے شناختی کارڈ بنوائے جبکہ 87عورت خواجہ سرا قومی ڈیٹا بیس میں شامل ہوئے ہیں۔2023 کی مردم شماری کے مطابق ٹرانس جینڈر کی آبادی 20,331 بتائی گئی ہے۔
قانون میں موجود سقم
ٹرانس جینڈر حقوق کی محافظ مایا زمان نے کہا کہ اس بل پر اعتراضات کرنے والوں نے کہا کہ اِس قانون سازی کی آڑ میں آپ نے ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ٹرانس جینڈر بل میں ایک ہی جنس کی شادیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے، مطلب یہ کہ اگر میں ایکس کارڈ لیتی ہوں اور میری شادی ہوتی ہے تو یہ مانی ہی نہیں جائے گی کیونکہ اِس کا فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ ایکس کی شادی کسی مرد سے ہوگی یا عورت سے۔
جہاں تک ٹرانس جینڈر کے انسانی حقوق کی بات ہے اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے وہ آپ کا معاشرتی رویہ ہے۔ ٹرانس جینڈرزکیلئے مین سٹریم یونیورسٹیز میں داخلہ لینا اہم ہے اسی طرح نوکری کے یکساں مواقع بھی ضروری ہیں، بہت سے ٹرانس جینڈرزکو نوکریاں ملی بھی ہیں، لیکن اِن سارے اقدامات کے باجود کارپوریٹ سیکٹرمیں ہماری کمیونٹی کی نمائندگی مِسنگ ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی اتنے پڑھے لکھے ٹرانس جینڈرز ہمارے پاس نہیں ہیں۔
ایک اور قابل ذکر وجہ یہ بھی ہے کہ ایک گُرو کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کا چِیلا جا کر پچاس ہزار، ایک لاکھ والی نوکری کرے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اگرمیں چیلے کوڈیرے پربٹھا کر اُسے بندوں سے ملواؤں گی، فنکشن کراؤں گی تواِس سے مجھے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سارے سسٹم کیلئے ٹرانس جینڈرز کو یہی برین واش کیا جاتا ہے کہ آپ یہی کام کریں۔ یہ ایک ایسا سرکل ہے جس میں سے کوئی خوش قسمت ہی نکل پاتا ہے۔
میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ میں کہیں کرائے کے مکان کیلئے جاؤں تو مجھ سے لوگ سوال کرینگے کہ اچھا آپ کے کسٹمرز آیا کرینگے؟ اِسی طرح کے سوالات ان کے ذہن میں آتے ہیں کیونکہ اُن کیلئے یہ ناقابلِ فہم بات ہے کہ ایک خواجہ سرا پڑھی لکھی بھی ہوسکتی ہے، کام بھی کرسکتی ہے اور باہرنکل کر معاشرے کے شانہ بشانہ بھی چل سکتی ہے۔میں یہی کہوں گی کہ صرف قانون بننا اہم نہیں ہے جب تک اُس پر عملدرآمد نہ ہواور پِسے ہوئے طبقے کے مسائل حل نہ ہوں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ پر بات کرتے ہوئے شی میل ایسوسی ایشن فار فنڈامینٹل رائٹس کے صدر ندیم کشش کہتے ہیں کہ اِس ایکٹ میں وراثت کا قانون متاثر ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ جو خواجہ سرا شادی شدہ ہیں ان میں سے اگرکوئی ایکس کارڈ بنواتا ہے تو اس کی شادی ختم، اس کو ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سے شادی کے حقوق، والدین کے حقوق اوربچوں کے حقوق ، اورجنازے کے حقوق اپنے اپنے مذہب اور اقدار کے مطابق سب سلب ہوتے ہیں، تبھی یہ بل خواجہ سراؤں کیلئے مسئلہ بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرانس جینڈرزخود کو جسمانی یا جنسی طور پر معذورسمجھتے ہیں اور اپنے نظریے سے زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہ اُن کا حق بنتا ہے، حکومت کو کمیونٹی کی صحت، تعلیم اور اُن کے رہن سہن کے حوالے سے اقدامات کرنا چاہئیے۔جیسے بیت المال اور دارالامان بنائے گئے ہیں ایسے ہی ٹرانس جینڈرز کیلئے بھی کوئی سیٹ اپ بنایا جائے، ان کا ڈس ایبلٹی کا کارڈ بنایا جائے جو ان کی شناخت ہو۔
والدین پر قانونی پابندی ہونی چاہئے تھی کہ وہ بچے کومحض اِس بنیاد پر نہیں نکال سکتے کہ وہ خواجہ سراء ہے، دوسرا اُس گرو پر پابندی لگنی چاہئے جو اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو لیکر اُن کا میک آپ کرکے، جنسی اعضا کی سرجری کروا کر بالکل نئی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ایسے آپریشن پر قانونی قدغن ہونی چاہئے، سزا اورجرمانے ہونے چاہئیں۔ جب والدین نکال دیتے ہیں توگرو ایسے افراد کو رکھ لیتے ہیں اورمافیازکےحوالےکرکے اُن سے جرائم کرواتے ہیں تو یہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018، سیاست کی نذر
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ ایکٹ سیاست کی نذر ہوگیایہ کہنا تھا خواجہ سرا رائٹس ایکٹیوسٹ، شہزادی رائے کا۔ وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سرا کمیونٹی کی شناخت چھینی جارہی ہے اس پر ہم ایسے خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ ہمیں جنسی غلام بنانا چاہتے ہیں، ہمیں انسان نہیں سمجھتے ، یہ ہماری زندگی اور وجود کا سوال ہے۔شہزادی رائے کے مطابق اس ملک میں بہت سے لوگ خواجہ سراؤں سے خوفزدہ ہیں یہ اُس وقت خوف میں مبتلا نہیں تھے جب ہم ناچتے گاتے تھے، بھیک مانگتے تھے یا سیکس ورکر تھے۔ جب ہمارے لئے 2018 میں قانون آیا جس کے تحت ہمیں نوکریاں ملیں، ہم ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، ایکٹیوسٹ بنے یہاں تک کہ جب ہم نے سیاست میں قدم رکھا یہ خوف تب سے بڑھا۔
شہزادی کہتی ہیں کہ ہم اس فیصلے کومسلسل چیلنج کرتے رہیں گے۔ چند لوگوں کوایکٹ پر اعتراض یہ تھا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا،میڈیکل ٹیسٹ ضروری تھا جو میں سمجھتی ہوں کہ تذلیل ہے،ٹرانس جینڈر بہت پسا ہوا طبقہ ہیں ہمیں اسپتال جانے میں بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسی صورت میں آپ ہم پر میڈیکل ٹیسٹ کی شرط رکھ کر ہماری کمیونٹی کو مزید پیچھے دھکیل رہے ہیں تا کہ ان کے شناختی کارڈ نہ بنیں۔جب شناخت نہیں ہو گی تو ہم بھیک مانگنے تک محدود ہو جائیں گے،حق وراثت سے محروم کرنا تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ہماری کمیونٹی پر تشدد کے کیسز کا مسئلہ ہمارے لئے چیلنج ہے۔دیت کے قانون کی وجہ سے ہمارے رجسٹرڈ کیسز پر ہمارے گھر والے دباؤ میں آکر پیسے لے لیتے ہیں،اگر ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ پر عملدرآمد ہو تو ہمیں تمام انسانی حقوق ملیں گے۔
رخسانہ جبین نگران شعبہ تحقیق و تربیہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان، ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018پر سخت معترض ہیں، ان کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ پر سب سے پہلا اور بڑا اعتراض لفظ ”ٹرانس جینڈر“ ہے جو مخنث کیلئے لفظ ہی نہیں ہوتا ،یہ ایکٹ بظاہر توانٹرسیکس(مخنث) لوگوں کیلئے بنایا گیا تھا جن کے اندر پیدائشی نقص ہوتا ہے اور ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے وہ شخص جس نے اپنی جنس تبدیل کی ہو،کسی کو خود ساختہ مرد یا عورت بننے کا حق نہیں ہے۔ اس لئے اس کا نام انٹرسیکس ایکٹ ہونا چاہئے۔ انٹرسیکس یا مخنث کی تعداد معاشرے میں 0.017فیصد ہے جو انتہائی کم ہے اور یہ بیماری ہے اور اس کا علاج بھی ہوتا ہے۔ یہ نبی پاک ۖ کے دور میں بھی تھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہم کہتے ہیں جو انٹرسیکس مخنث ہیں ان کے حقوق کیلئے ان کی معاشرے میں بحالی کیلئے، روزگار کیلئے ، تعلیم و تربیت کیلئے ہر چیز کیلئے ضابطے، اصول اور قوانین بنائے جائیں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز(پروٹیکشن آف رائٹس)ایکٹ 2018 کے مطابق ، خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو انکے بنیادی انسانی حقوق ملنا چاہیئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی ہرطرح سے حق تلفی ہورہی ہے ،مذہبی جماعتوں نے اسے سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کیا،یہ کہنا ہے محمد عثمان ایگزیکٹو ڈائریکٹر دریچہ کا۔انہوں نے کہا کہ اخلاقی طور پر ہمیں ڈبلیو ایچ او اور سماجی اصولوں کے مطابق امتیاز کے خلاف کھڑا ہونا چاہئیے جبکہ یہاں امتیازی سلوک ہر شعبے میں موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی حساسیت کا پروگرام نہیں ہے۔ ٹرانس مین اور ٹرانس ویمن اپنے ہی گھروں میں تعصب کا شکارہو رہے ہیں۔ خاندان اپنے بچوں کو دنیا کے سامنے لانے سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کو مختلف کمیونیٹز کے ذریعے پروگرام چلانے چاہئیں،میڈیا کے زریعے آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے، تحقیق کے ذریعے مشکلات کا حل نکالا جا سکتا ہے، سپورٹ پروگرامز کے ذریعے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو مدد مل سکتی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کا دائرہِ اِختیار
وفاقی شرعی عدالت کے پاس یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ کسی قانون میں ترمیم کرسکے یا اسے ختم کرسکے۔ وفاقی شرعی عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ اس قانون کا یہ حصہ غیراسلامی ہے آگے یہ وفاقی حکومت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔ یہ موقف ہے مہلب جمیل کا جو ٹرانس جینڈرز رائٹس سکالرہیں انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈرز کیلئے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا حصول کافی مشکل ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے ٹرانس جینڈرز کی تعریف کو بھی چیلنج کردیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ اگر یہ چیلنج ہو جائے گا تو پھر پراسس کیا ہوگا۔ اگر یہ والی شق ختم کردی جائے گی تو پھر ان کو وارثت میں حق ملنا بہت مشکل ہے۔ یہاں لڑکیوں کوحق نہیں ملتا تو ٹرانس جینڈرز کو کیسے حق ملے گا۔ اس شق کو بہترکیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ اسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔
ملیحہ حسین ایگزیٹو ڈائریکٹر، مہر گڑھ کے مطابق قوانین اس وقت تک موثر نہیں ہوتے جب تک ان کی عملداری نہ ہو۔ سب سے پہلے ٹرانس جینڈرز کی تعلیم، صحت اور تمام چیزوں کی ذمہ داری ان کے والدین کی بنتی ہے۔ اگر ہم انسانی سطح پر دیکھیں تو کوئی ماں باپ یہ کیسے کرسکتے ہیں کہ اپنی ایک اولاد کے ساتھ باقی بچوں کے برابر سلوک نہ کریں۔ یہ بچہ خود سے اس دنیا میں نہیں آیا ان والدین کی وجہ سے ہی آیا ہے تو آپ اس کے ساتھ ناانصافی کیسے کرسکتے ہو۔ عوام میں ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے کئی طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اِن غلط فہمیوں کی وجہ سے ٹرانس جینڈرزکی زندگی ہمارے معاشرے میں مشکلات کا شکاررہتی ہے، اگر اُن کا نقطہ نظر مدنظر رکھا جائے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی اور ان کے بہت سے حل طلب مسائل حل ہو سکتے ہیں۔