پاکستان میں تبدیلی مذہب کا معاملہ۔۔۔مسائل و مشکلات کا خارزار
نادیہ (فرضی نام) مذہبی رواداری سے محروم ایک بڑے شہر کے گنجان آباد علاقہ میں رہتی تھیں، جو کہ اٹھارہ سال تک ایک نرم روح اور گہرے ایمان کے ساتھ جُڑی ہوئیں تھیں۔ ایک قدامت پسند مسلم گھرانے میں پیدا ہونے والی نادیہ نے اسلامی تعلیمات اور روایات میں پرورش پائی۔ تاہم، سال 2007ء میں اُن کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہواتو اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی ایک ایسا نیا رُخ اختیارکرنے والی ہے جو اُن سےسکون تک چھین لے گا۔ اپنے شہر کے قدیم بازار میں خریداری کرتے ہوئے اُن کی نظریں جنوبی پنجاب سے آئے اپنی عمر سے بڑے مسیحی نوجوان کے ساتھ ایسے ملیں کہ دونوں مذہب اور ذات پات کو بھول گئے اور دو سال بعد ایک ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے 15 اپریل2009ء کومقامی چرچ میں شادی کر کے میرج سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا۔ اِس واقعے کا علم ہونے پر نادیہ کے والدین نے اُن سے ہمیشہ کے لئے لاتعلقی اختیار کرلی تو وہ اپنے شوہر سمیر مسیح (فرضی نام) کے ساتھ جنوبی پنجاب کی ایک چھوٹے شہر کی پسماندہ بستی چلی آئیں ،جہاں اُنکا شوہر سرکاری ملازم ہے۔ اِن دو سالوں کے دوران نادیہ نے عیسائیت کی طرف ایک ناقابل تردید کشش محسوس کی اور خفیہ طور پر بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، اپنے عقیدت مند خاندان اور پڑوسیوں کی نظروں سے دور، خاموش اجتماعات میں عیسائیوں سے ملنا بھی شروع کردیا تھا۔
نادیہ کا سفر آسان نہیں تھا۔ کئی مہینوں کے بعد، اُنہوں نے شادی کے ساتھ مسیحیت اختیار کرنے کا ایک سخت ترین فیصلہ کیا، ایک ایسا فیصلہ جسے وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔ نادیہ نے اِس تبدیلی کو پوشیدہ رکھا، یہ جانتے ہوئے کہ اسے ظاہر کرنے سے اُن کی برادری کی توہین ہوگی اور ممکنہ طور پر اُن پہ تشدد بھی۔ ان کی شادی، اگرچہ خوشگوار تھی، لیکن قانونی اور سماجی چیلنجز کے زیر سایہ تھی۔ چونکہ نادیہ کی زندگی کی اِس تبدیلی کو نہ تو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور نہ ہی اسے سماجی طور پر قبول کیا گیا تھا، اس لیے اسے زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ردعمل کا خطرہ مول لیے بغیر اپنے شناختی کارڈ پر اپنی مذہبی حیثیت کو قانونی طور پر تبدیل نہیں کر سکتی تھی۔ وہ سمیرمسیح کے ساتھ اپنی شادی بھی رجسٹر نہیں کروا سکیں کیونکہ پاکستانی قانون مذہب اسلام سے کسی اورمذہب کی قبولیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ جبکہ اِس شناخت کے بغیر، نادیہ کے بچوں کے پاس اپنے والدین یا مسلم خاندان میں وراثت کے حقوق کی اہلیت کا قانونی ثبوت نہیں ہوگا۔
اس تصویر کے دوسرے رخ میں جنوبی پنجاب کے ایک دور درازپسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے والی رضیہ بی بی (فرضی نام) سامنے آتی ہے ،جن کا تعلق ایک اچھا رہن سہن رکھنے والے مسیحی گھرانے سے ہے،اوراُن کے والد نے تعلیم مکمل ہونے پر اُن کو اپنی بوتیک بنا کر دی ،جہاں آنے والی گاہک خواتین کے اسلامی حلیے سے متاثر ہونے پر مذکورہ خواتین رضیہ بی بی کو ایک اسلامی مدرسہ میں لے گئیں اور اُنہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہونے پر 24 سال کی عمرمیں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر بناء کسی تگ و دو کے مقامی عالم دین نے رضیہ کو کلمہ پڑھانے کے بعد 31 مئی 2020ء کومذہب اسلام قبول کرنے کاتصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
والدین نے اِس حقیقت کا علم ہونے پراُن سے لاتعلقی اختیار کیا تو رضیہ مدرسے میں ہی رہائش پذیرہو گئیں اور ایک سال بعد اس کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے منتظم مدرسہ نے اپنے جاننے والے راشدخان (فرضی نام)سے شادی تجویز کی تو کوئی اور چارہ نہیں ہونے پر رضیہ نے شادی کی حامی بھر لی۔ یوُں 26 مئی 2022ء کو شادی کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد رضیہ کو سو روپے کے بیان حلفی پر یونین کونسل کی جانب سے 4 اپریل 2023ء کومیرج سرٹیفکیٹ اور محکمہ نادرا کی جانب سے10 اکتوبر 2024ءکو شوہر کے نام پر تجدیدی شناختی کارڈ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت، خاص طور پر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (آرٹیکل 18) کے تحت، ہر کسی کو مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے، جس میں اپنا مذہب تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ( آئی سی سی پی آر) عقیدے کی آزادی پر زور دیتا ہے،لیکن اسلامی تعلیمات میں، اسلام کو چھوڑنا (ارتداد) کو ایک سنگین معاملہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کچھ تشریحات اس کے لیے سزاؤں کی حمایت بھی کرتی ہیں۔ نادیہ کی قدامت پسند برادری کے اسکالرز نے بھی تبدیلیِ مذہب کو دھوکہ دہی کا عمل سمجھتے ہوئے روایتی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسے نہ صرف عقیدے کے رد کے طور پر دیکھا بلکہ سماجی منظر نامے پربھی ایک غیر مستحکم اثر کے طور پر بھی دیکھا۔ بہت سے علماء اصرار کرتے ہیں کہ ارتداد ایک قابل سزا جرم ہے، وہ مذہبی متن کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم معاشروں میں اسلام کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تاہم، بعض جدید اسلامی مفکرین کا کہنا ہے کہ اسلام عقیدہ کی آزادی کی حمایت کرتا ہے۔ وہ قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جیسے کہ "مذہب میں کوئی جبر نہیں” (قرآن 2:256) اس بات کے ثبوت کے طور پر کہ افراد کو ریاستی یا سماجی مداخلت کے بغیر اپنے عقیدے کا انتخاب کرنے میں آزاد ہونا چاہیے۔ پھر بھی، یہ آوازیں نادیہ کے تناظر میں اقلیت میں ہیں، جہاں روایتی علماء زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور جدت پسند مسلم ممالک میں انڈونیشیا، اگرچہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور مذہب کی آزادی کی اجازت دیتا ہے اور مذہب کی تبدیلی کو تسلیم کرتا ہے، کم از کم قانونی طور پر، لیکن اس کے سماجی اثرات اب شدید ہوتے ہیں۔ ترکی کا ایک سیکولر آئین ہے، اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو کم قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ تاہم، سماجی بدنامی اور مذہب تبدیل کرنے والوں کے خلاف امتیازی سلوک برقرار ہے۔ پاکستان کی طرح، ملائیشیا میں دوہرا قانونی نظام ہے جومذہب تبدیلی کے معاملات کو پیچیدہ بناتا ہے، خاص طور پر ان مسلمانوں کے لیے جو اسلام چھوڑنا چاہتے ہیں۔اسی طرح، مصر میں تبدیلی مذہب پر خاص طور پر مسلمانوں کے لیے خاصی پابندیاں عائد ہیں۔ مذہب تبدیل کرنے والوں کو اکثر قانونی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاکستانی قانون براہ راست ارتداد پر توجہ نہیں دیتا، کیونکہ کسی کے مذہب کی تبدیلی کے خلاف کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم، اسلام سے تبدیلی بڑی حد تک غیر تسلیم شدہ ہے، اور مذہبی حیثیت کو قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش مختلف غیر سرکاری رکاوٹوں اور سماجی دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے نادیہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ شناختی کارڈ پر اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکیں، شناختی کارڈ کی تنسیخ پر سال 2014ء میں اُنہوں نے اپنی مسلم شناخت برقرار رکھتے ہوئے تجدید کرائی جواِس سال گزشتہ ماہ دوبارہ ختم ہو چکی ہے،جس میں وہ اب بھی مسلمان درج ہے۔
نادیہ اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے اورتذبذب کے ساتھ اس موضوع پرگفتگو کرتےہوئے کہتی ہے کہ والدین کی لاتعلقی نے تو برسوں سے ہنسنے نہیں دیا تو مستقبل کے خدشات اسے ہر وقت سوچوں میں ڈالے رکھتے ہیں کہ شادی کے بعد سال 2010 ء سے 2017ء تک یکے بعد دیگرے وہ چار بیٹیوں اورایک بیٹے کی ماں بن گئی لیکن بہت بھاگ دوڑ کے بعد بھی اس کی شادی رجسٹریشن اور نئی شناخت کے ساتھ شناختی کارڈ کا مسلئہ حل نہیں ہو سکا بلکہ گزشتہ ماہ شناختی کارڈ کی تجدید کے لئے جب نئی شناخت بتائی تو تمام دفتر اکٹھا ہو گیا اور انہیں وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا گیا۔اس کے شوہر نے شناخت ظاہر کئے بناء یونین کونسل میں اپنے بچوں کااندراج تو کرا لیا ہے لیکن اب وہ ذیادہ پریشان ہے کہ اگلے سا ل شوہر کی ریٹائرمنٹ پراُس کا اور بچوں کا اندراج پنشن کاغذات میں کیسے ہوگا اور 15 سالہ بڑی بیٹی کا شناختی کارڈ کیسے بنے گا۔نادیہ کہتی ہیں کہ وہ برسوں سے مسیحی کالونی میں رہائش پذیر ہے لیکن خوف کی وجہ سے کسی کو اپنا ماضی نہیں بتایا۔ شناخت کے مسائل پر مختلف قانونی حلقوں سے بھی رجوع کیا ہے لیکن لاکھوں کے اخراجات بتانے کے باوجود مسلئہ حل ہونے کی مستند بات نہیں کی جاتی ہے۔
اسلام قبول کرنے والی رضیہ بھی بے چینی اور مشکلات کی زندگی جی رہی ہے، رضیہ کا بتاناہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کی تو معلوم ہوا کہ شوہر پہلے سے شادی شدہ اور دو بیٹیوں کا باپ ہے۔اب اس سے بھی بیٹا ،بیٹی ہونے کے ساتھ وہ تیسری مرتبہ حاملہ ہے۔شوہر کے خاندان نے اُسے پہلے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے قبول کرنے سے انکارکر دیا اور دو جگہ گھر ہونے کی وجہ سےشوہر گھن چکر بنارہا۔اسی وجہ سے اس کی ملازمت بھی چلی گئی اوروہ معاشی مشکلات کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ مالی امداد اور ملازمت کے لئے دفتروں کے چکرکا ٹ رہی ہیں لیکن کئی ماہ سے کچھ بھی نہیں ہوسکا۔
مزید برآں، پاکستانی قانون نےنادیہ کی سمیرمسیح سے اس کی شادی کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ اسلامی قانون کے تحت مسلم مردوں اور عیسائی عورتوں کے درمیان شادی کی اجازت ہے، لیکن اس کے برعکس مسلم خواتین جوعیسائی مردوں سے شادی کرتی ہیں، عام طور پر ممنوع ہے۔ پاکستانی عائلی قوانین میں نادیہ جیسے مقدمات کی دفعات نہیں ہیں، تو کسی چرچ کی جانب سے بھی نادیہ کو مذہب تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا ہے،جس کی وجہ سے وہ قانونی طور پر باطل ہے۔ اس کے نتیجے میں، ان کے بچوں کو قومی رجسٹریشن، تعلیم اور وراثت کے حقوق کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ قانون ان کی موجودہ مذہبی حیثیت کے تحت انہیں باضابطہ طور پر جائز تسلیم نہیں کرے گا۔
قانون دان لازرااللہ رکھا کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی قانون کی بنیاد پر شادی کو قانونی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا ایک عورت جو عیسائیت اختیار کرتی ہے اور ایک عیسائی شوہر سے شادی کرتی ہے اسے قانونی شناخت حاصل کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی قانون ایسی تبدیلیوں کی حمایت نہیں کرتا اور عام طور پر صرف مسلمانوں کے لیے اسلامی عقیدے کے اندر شادیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ایسی شادی کے بچوں کو قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بشمول شناخت کے مسائل، وراثت کے حقوق، اور اپنی ماں کی نئی مذہبی شناخت کے تحت تعلیم یا صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں مشکلات۔ اگرچہ پاکستان میں ارتداد کے خلاف براہ راست کوئی قانون نہیں ہے، لیکن توہین مذہب کے قوانین سخت ہیں، اور اسلام پر کسی بھی سمجھی جانے والی تنقید کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
کونسل ممبر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان لبنیٰ ندیم کا کہنا ہے کہ ایک انسانی حقوق کے محافظ کی حیثیت سے میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی اور عقیدے کا حق حاصل ہے۔ ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی شخص کے مذہبی انتخاب کے حق کو تحفظ فراہم کریں تاکہ انہیں کسی قسم کے نقصان یا امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسے افراد کی قانونی مدد، ذہنی سکون کے لیے مشاورت اور کمیونٹی میں آگاہی پروگرامز کے ذریعے اُن کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مذہبی آزادی کے حق کو یقینی بنایا جائے۔
نادیہ کے چیلنجز پاکستان کے لیے منفرد نہیں ہیں۔ تاہم، پاکستانی قوانین کی سخت نوعیت اور سماجی توقعات کی وجہ سے اس کی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے۔ کچھ مسلم اکثریتی ممالک، جیسے ترکی یا لبنان میں، مذہبی اقلیتوں کو زیادہ قانونی تحفظات حاصل ہیں، اور بین المذاہب شادیوں کو قانونی طور پر رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔ انڈونیشیا میں، اگرچہ تبدیلی اکثر سماجی طور پر چیلنج ہوتی ہے، قانونی نظام ذاتی مذہبی انتخاب کے حوالے سے زیادہ لچک کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، ان میں سے بہت سے ممالک اب بھی افراد، خاص طور پر خواتین، جو اسلام سے تبدیل ہو جاتے ہیں، پر اہم سماجی دباؤ ڈالتے ہیں۔
نادیہ سمیت تبدیلی مذہب کے مرحلے سے گزرنے والی دیگر خواتین کی زندگی اُن کے عقیدے اور انتخاب کو مسترد کرنے والے سماجی اور قانونی نظام کے درمیان ایک نازک توازن ہے۔ ایسے افراد کا دِل خوف اوراُمید دونوں سے بھرا ہوا ہے۔