انسانی حقوق

غگ : خیبرپختونخوا میں رائج رسم خواتین کے لیے زہرِقاتل

خالدہ نیاز

میری بیٹی پرعلاقے کے بااثر شخص عطاء اللہ نے غگ کیا تھا، وہ میری بیٹی نرگس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن نرگس اُس سے شادی کے لیے رضامند نہیں تھی۔ شادی سے انکار پراُس نے میری بیٹی کو قتل کروادیا- ضلع بونیر کے علاقے خدوخیل سے تعلق رکھنے والےجان محمد نے بتایا کہ اُنکی بیٹی کے قاتل عطاء اللہ نے پہلے سے دوشادیاں کررکھی ہیں اور وہ نرگس سے تیسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ انکی بیٹی اسکول میں ٹیچر تھی

میری بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش بھی کی گئی

جان محمد اپنی بیٹی پر ڈھائے گئے ظلم کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُس نے نرگس کو ایک سال سے بہت تنگ کر رکھا تھا، اُسکی زندگی اجیرن کردی تھی۔ ایک روزعطاء اللہ نرگس کے اسکول تک پہنچ گیا جہاں اُس نے میری بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد میں نے ایف آئی درج کروائی۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق3 ستمبر 2024 کو نرگس کو اپنے والد جان محمد کے سامنے اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ اسکول جارہی تھی۔ نرگس کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا جس کے بعد بونیر میں اساتذہ نے دو دن تک احتجاج بھی کیا۔ نرگس کے والد نے عطاء اللہ کے خلاف رپورٹ میں موقف اختیار کیا کہ اُس نے انکی بیٹی پر غگ کیا تھا اور شادی سے انکار پر اُسے قتل کردیا۔

غگ رسم کیا ہے؟

پشتو میں ‘غگ’ نعرے کو کہتے ہیں۔ اِس رسم میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کا نام لے کر علاقے میں یہ مشہور کر دیتا ہے کہ فلاں لڑکی اُس کے نام پر بیٹھی ہے اور اسلیے کوئی اور شخص اُس لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔ اِس رسم میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا، لڑکی کے گھر کے باہر جا کر یہ نعرہ لگاتا ہے کہ فلاں لڑکی سے کوئی شادی نہ کرے کیونکہ وہ اُس کے نام پر ہے۔ غگ رسم زیادہ تر قبائلی اضلاع میں رائج ہے تاہم خیبرپختونخوا کے باقی علاقوں میں بھی کئی خواتین اس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکیں ہیں۔ وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ اب غگ کا طریقہ کار کُچھ بدل گیا ہے۔ غگ کرنے والا اب فائرنگ کی بجائے غیر اعلانیہ طور پر لوگوں میں بات پھیلادیتا ہے کہ فلاں خاتون پر اُس کا حق ہے لہذا مزکورہ لڑکی سے شادی کا کوئی اور دعویدار نہ بنے۔

غگ کی ابتدا جنوبی وزیرستان سے ہوئی

ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نوشین فاطمہ غگ سے جڑے افسوسناک واقعات پر کافی کام کرچکی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ غگ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس کی ابتدا قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے ہوئی اور یوں یہ خیبرپختونخوا کے باقی علاقوں تک پھیل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ غگ رسم وہیں ختم ہو جاتی لیکن بدقسمتی سے یہ اب بھی پختونخوا کے کئی علاقوں میں رائج ہے۔

نوشین فاطمہ کہتی ہیں کہ قبائلی اضلاع میں جب بھی کوئی کسی جرم میں گرفتار ہوتا ہے، کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اکثر متاثرہ خاندان کولڑکی دے کر دشمنی ختم کردی جاتی ہے۔ ایسی رسومات کی وجہ سے عورت کو اپنا وجود باعث شرم محسوس ہوتا ہے۔ ایک خاتون اپنی بیٹی کو 18،20 سال تک پال پوس کر بڑا کرتی ہے اس کے بعد ایک غیر شخص اٹھ کر یہ دعویٰ کرے کہ لڑکی اسکی ملکیت ہے یہ کہاں کا انصاف ہے؟

نوشین فاطمہ کے مطابق یہ رسم ختم نہیں ہوئی بلکہ اِس میں صرف تبدیلی آئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں عموماً اب بھی شادی کے وقت لڑکیوں کی مرضی نہیں پوچھی جاتی خاندان والوں کا جہاں دل چاہتا ہے لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں۔ ہنگو کے علاقے میں خواتین مکمل طور پر غگ کا شکار ہیں، بچپن ہی سے لڑکوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ میری چچا کی بیٹی یا ماموں کی بیٹی میری ہی ہے، غگ رسم کے لیے اب فائرنگ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔

ہنگو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایاکہ اُنکے والد کے انتقال کے بعد چچا نے اُنہیں پالا پوسا تعلیم دلوائی۔ پھر ایک وقت آیا جب علاقے کے ایک لڑکے نے ان پر غگ کیا جس کے بعد خاتون کو اُسی لڑکے سے بیاہ دیا گیا۔ شادی کے بعد اُس آدمی نےانکی زندگی اجیرن کر دی، خاتون کوکبھی میکے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جس چچا نے اُنہیں پال پوس کے بڑا کیا اس کے ہاں آنے کی اجازت نہیں تھی، اور جب ایک دن وہ ہمت کر کے اپنے بیمار چچا سے ملنےگئیں تو شوہر نے ان پر گھر کے دروازے بند کرد یے اور کئی سال گزرنے کے باوجود نہ تو انکو طلاق دی اور نہ ہی گھر واپس آنے دیا۔متاثرہ خاتون نے مزید کہا کہ اب وہ بوڑھی ہوچکی ہیں اور انکے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے جس سے انکی بیٹیاں ہیں۔

اِس قاتل روایت کو آگے بڑھاتے ہوئےاب خاتون کےبھتیجوں نے اُس کے شوہر کی دوسری شادی سے ہوئی بیٹیوں پرغگ کیا ہے کہ وہ کسی سے شادی نہیں کرسکتیں لیکن وہ ایسا بالکل نہیں چاہتی کیونکہ انکی زندگی اس وجہ سے تباہ ہوئی، وہ کسی اور کی زندگی تباہ نہیں کرنا چاہتی لیکن وہ چاہ کے بھی اُن لڑکیوں کی مدد کے لیےکچھ کر نہیں سکتیں۔

قانون کا فائدہ کیوں نہیں؟

نوشین فاطمہ کا ماننا ہے کہ اگرچہ غگ رسم کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں قانون موجود ہے تاہم جب کوئی اِس رسم کے خلاف رپورٹ ہی نہیں کرے گا تو اِس قانون کے ہونے سےکوئی فائدہ نہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک علمائے کرام، علاقے کے مشران اس کے خاتمے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تب تک اس قاتل رسم سے جان چھڑانا ناممکن ہے۔ نوشین فاطمہ بتاتی ہیں کہ خواتین اس معاشرے کا وہ کمزور طبقہ ہے جو نہ تو جرگے میں جاسکتی ہیں اور نہ ہی پولیس کو اپنا مسئلہ بیان کرسکتی ہیں۔ لیکن معاشرے کی آگاہی کے لیے اسکول اور کالجز کے تعلیمی نصاب میں اس طرح کی رسومات پر مواد شامل کرنے سےِاس سے جُڑے واقعات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔

سال 2013 میں غگ رسم کے خاتمے کے لیےاُس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ایک ایکٹ پاس کیا جس میں غگ کرنے والوں کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کی وکیل عائشہ بانو اس حوالے سے کہتی ہیں کہ غگ جیسی رسومات کی وجہ سے خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔ یہ دقیانوسی رسم ایک غور طلب مسئلہ ہے۔ اس رسم کی آڑ میں کوئی بھی شخص کیسے ایک خاتون اور اسکے خاندان والوں کی مرضی کے برعکس اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلان تک کرتا ہے کہ وہ خاتون اُسکی ملکیت ہے اور اگر کسی نے اُس سے شادی کی کوشش کی تو وہ اُس شخص کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

غگ کی سزا کتنی ہے؟

غگ کرنے والے شخص کو قانون کے تحت کتنی سزا ملتی ہے اس حوالے سے ایڈوکیٹ عائشہ بانو نے بتایا کہ اس جُرم کی کم سے کم سزا 3 سال قید جبکہ زیادہ سے زیادہ 7 سال قید ہے، جبکہ غگ کرنے والے شخص کو جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ کچھ کیسز میں یہ دونوں سزائیں دی جاسکتی ہے۔ عائشہ بانو نے کہا کہ غگ کرنے والے شخص کی سہولت کاری میں ملوث شخص بھی ملزم تصور ہوتا ہے اور اس کو بھی سزا ملتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں نہ صرف غگ ایسی رسم ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں یا تو گھروں پر بوڑھی ہوجاتی ہیں یا اپنی مرضی کے برعکس شادیاں کرلیتی ہیں بلکہ یہاں رشتے سے انکار پر بھی اکثر اوقات وہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں خیبرپختونخوا میں شادی سے انکار پر کئی خواتین کو قتل کیا گیا۔

صوابی میں شادی سے انکار پر تین بہنیں قتل

جولائی 2024 میں صوابی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں شادی سے انکار پر ایک بھائی نے تین بہنوں کو قتل کیا۔ مقتول لڑکیوں کے والد عبدالحلیم نے پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ اسکی 23 سالہ بیٹی سنبل اپنے رشتے کے خوش نہیں تھی جبکہ اس کا بھائی اسکی شادی کرانے پر بضد تھا، انکار پر اس نے فائرنگ کرکے سنبل سمیت دو اور بہنوں کوقتل کردیا۔

پولیس کے مطابق 13 اکتوبر کو ضلع نوشہرہ میں بھی ایک 18 سالہ لڑکی کو رشتے سے انکار پر قتل کردیا گیا۔ قتل کی گئی لڑکی مردان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ اپنے چچا زاد کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہی تھی کہ اس دوران ملزمان نے فائرنگ کر کے اُسے قتل کردیا۔ لڑکی کے چچا زاد شاہسوار نے پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ حمید اور ودوُد نامی ملزمان نے لڑکی پر فائرنگ کی۔ ملزم حمید لڑکی کا رشتہ دار ہے جو اُس سے شادی کا خواہشمند تھا، اس نے رشتہ بھیجا لیکن لڑکی والوں کی طرف سے انکار کیا گیا جس کی بعد حمید نے لڑکی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس نے رپورٹ تو درج کر لی ہے تاہم ملزمان ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔

غگ پرانے زمانے سے قبائلی اضلاع میں رائج ہے

قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی کارکن مولانا خانزیب نے غگ کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ رسم پرانے زمانے سے قبائلی اضلاع میں رائج ہے، جب جنگیں ہوتی تھی تب خواتین کو مالِ غنیمت کے طور پر لے جایا جاتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی آئی پھر لوگ زبردستی خواتین پر غگ کرنے لگے اور شادیاں کرنے لگے۔

مولانا خانزیب نے بتایا کہ اگرچہ اب لوگوں میں کسی حد تک شعور آچکا ہے اور غگ میں کمی بھی آئی ہے تاہم آ ج بھی معاشرہ مردوں کا ہی ہے تو یہاں خواتین کو مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا وہ حق حاصل نہیں جو ملنا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ روز خیبر میں ایک جرگے کے دوران سورہ رسم کی کھلم کھلا مخالفت کی گئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب لوگوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کسی حد تک شعور آچکا ہے۔
قبائیلی علاقوں میں رائج ”سورہ“ رسم کی تعریف کچھ یوں ہے کہ جب فریقین کے درمیان معاملہ قتل کے بدلے قتل تک پہنچ جائے، تو دونوں فریقین میں صلح کرائی جاتی ہے، جس کے تحت مقتول فریق کے لوگ قاتل فریق سے صلح میں بہن یا بھتیجی مانگتے ہیں۔

غگ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے!

اسلام شادی کے حوالے سے خواتین کو کیا تحفظات دیتاہے اس حوالے سے مولانا خانزیب نے کہا کہ جب بھی کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے اس کا رشتہ پکا کیا جاتا ہے تو اس میں اسکی مرضی ضروری ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نکاح کے وقت بھی لڑکی سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا اس کو نکاح قبول ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا غگ اور باقی ایسی جتنی بھی رسومات ہیں یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن چونکہ قبائلی اضلاع میں رسومات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ غگ رسم آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سال 2023 میں پاکستان میں 550 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔ جبکہ سال 2022 میں 520 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جس میں 323 خواتین شامل تھی۔ اِن افراد میں 103 کا تعلق خیبرپختونخوا سے بتایا گیا ہے۔

Back to top button