انسانی حقوق

پاکستان میں صحافت، صحافی اور حکمران، خوف کے سائے میں آزادیٔ اظہار

آزادیٔ صحافت کے دعوے ایک طرف، حقیقت دوسری , تازہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس صحافیوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور مقدمات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت تحفظ کی یقین دہانیاں کرا رہی ہے تو سچ بولنے والے اب بھی خوف اور دباؤ میں کیوں ہیں؟

’’ حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے،پنجاب میں صحافی اور صحافت محفوظ ہے ‘‘ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن پر وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کا پیغام۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حق اور سچ کہنے والے صحافیوں پر ظلم و ستم کر کون رہا ہے ؟ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب نے بھی آج کے دن کی مناسبت سے کہا کہ حکومتِ پاکستان آزادیِ صحافت کے تحفظ اور صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ ہم ایسے تمام اقدامات کریں گے جن سے صحافیوں کے خلاف جرائم کی موثر تفتیش، انصاف کی فراہمی، اور ان جرائم کے مرتکبین کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ میں بین الاقوامی برادری، میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں، آزاد صحافت ایک مضبوط، شفاف اور جمہوری پاکستان کی ضمانت ہے۔

اسی سال پنجاب کی انفارمیشن منسٹر عظمی بخاری صاحبہ کی ایک پریس کانفرنس تو یاد ہو گی آپ کو جب وہ وزیراعلی پنجاب کے اس پریس کانفرنس میں آنے سے پہلے پنجاب کے صحافیوں سے پہلے تو ہاتھ جوڑ کر تمیز و تہذیب میں رہنے کی بات کر رہیں تھیں اور پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نوکری سے بھی نکلوا دینگی۔ گو اس کلپ کے وائرل ہونے کے بعد عظمی بخاری صاحبہ نے اس کی وضاحت بھی کی مگر پنجاب میں جب کچھ صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا تب صحافی برادری کے لیے سمجھنا مشکل تھا کہ یہ ازادنہ میڈیا مالکان کا فیصلہ ہے یا سرکاری اشتہارات پر چلنے والے حکومتی زیر اثر میڈیا کا۔

پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی صورتحال پر حالیہ برسوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، جس کی تصدیق مختلف رپورٹس سے ہوتی ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ” مئی 2022 سے مارچ 2023 کے دوران صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں اور ہراسانی کے 140 واقعات رپورٹ ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 63% زیادہ تھے۔ سب سے زیادہ واقعات اسلام آباد (40%) میں پیش آئے، اس کے بعد پنجاب (25%) اور سندھ (23%) میں۔ رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتیں 21% اور ریاستی اہلکار 19% کیسز میں ملوث پائے گئے۔ اسی رپورٹ نے حکومت سے Protection of Journalists & Media Professionals Act 2021 پر مؤثر عمل درآمد اور امپینیٹی کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔

اگلے سال، فریڈم نیٹ ورک کی Impunity Report 2024 میں صورت حال مزید خطرناک بتائی گئی۔ نومبر 2023 سے اگست 2024 تک کم از کم 6 صحافیوں کے قتل اور 57 دیگر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی، جن میں دھمکیاں، جسمانی حملے اور قانونی ہراسانی شامل تھیں۔ سندھ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ رہا جہاں 21 کیسز رپورٹ ہوئے، اس کے بعد پنجاب میں 13۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود صحافیوں کے تحفظ کے قوانین، خصوصاً سندھ کا قانون، عملی طور پر غیر مؤثر ثابت ہوا۔ اس رپورٹ میں حکومت سے قاتلوں کے خلاف کارروائی، شفاف تحقیقات، اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قومی پالیسی اپنانے کی سفارش کی گئی۔

فریڈم نیٹ ورک کی تازہ امیپیونٹی رپورٹ

2025 کے مطابق نومبر 2024 سے ستمبر 2025 کے دوران پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر حملوں میں ایک بار پھر خطرناک اضافہ ہوا۔ اس مدت میں 142 واقعات رپورٹ ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 60% زیادہ تھے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں سب سے زیادہ، یعنی ہر ایک میں 28% واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ مزید برآں، 36 قانونی مقدمات صحافیوں کے خلاف درج کیے گئے، جن میں سے 22 مقدمات Prevention of Electronic Crimes Act (PECA) کے تحت تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیا پر ریاستی دباؤ، آن لائن سنسرشپ اور قانونی کارروائیوں کے ذریعے آزادیٔ اظہار کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اس میں تجویز دی گئی کہ PECA جیسے قوانین کے غلط استعمال کو روکا جائے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صحافیوں کے لیے محفوظ ماحول پیدا کیا جائے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ:

دوسری جانب پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی 2024 اور 2025 کی رپورٹس نے بھی اسی رجحان کی تصدیق کی۔ کی 2024 رپورٹ کے مطابق پہلے 10 ماہ میں 137 حملے، 8 گرفتاریاں، 30 ایف آئی آرز اور 23 FIA و سائبر کرائم کارروائیاں ریکارڈ ہوئیں۔ تنظیم نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین محض کاغذوں تک محدود ہیں اور حکومت نے آزادیٔ اظہار کے حوالے سے اصلاحات کو یکطرفہ انداز میں "بلڈوز” کیا ہے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن 2025کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں حملوں اور قانونی مقدمات کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے، اور سب سے زیادہ واقعات لاہور، کراچی، اور اسلام آباد میں پیش آئے، جبکہ ڈیجیٹل صحافیوں کے خلاف مقدمات PECA کے تحت بڑھ رہے ہیں۔

آزادانہ صحافت اور اس کے زیرعتاب آنے والے دو اہم نام ۔مطیع اللہ جان اور اسد علی طور ہیں۔ جب خبر دینے والے خود خبر بننے لگیں تو یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ صحافت آزاد ہے یا زیر عتاب۔ پاکستان میں نوکریوں سے نکلواے جانے کے بعد یوٹیوب صحافیوں کے لیے ایک پناہ گاہ بنا لیکن یہ پناہ گاہ بھی حکومتی سطح پر ان کے بیانیے پر حملہ تصور ہوئی۔ بائیس کے قریب صحافیوں کے یوٹیوب چینلز بند کرواے گئے جنہیں بعد میں کورٹ نے چلنے کی اجازت دی۔ بات یہاں نہیں بنی تو صحافیوں کے بینک اکاونٹس بند کروا دیے گئے۔ مضحکہ خیز پہلو یہ رہا کہ اسد علی طور نے جس شخص سے طوطوں کا لین دین کیا اس تک کے اکاونٹس بند کر دیے گئے۔

مطیع اللہ جان اس وقت بھی اپنے ایک سال پرانے مقدمے کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

ثمینہ پیشہ اس وقت حکومتی ریڈار پر ہیں۔ نا طرف انفارمیشن منسٹر آن کے خلاف ویلاگ کر رہی ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف منظم کیمپین چلائی جا رہی ہے۔ کیا واقعی حکومتوں کا کام یہی ہوتا ہے ؟

پاکستان میں پیکا لا میں امینڈمینٹ کی گئ۔ اس امینڈمینٹ نے حکومت کو یہ کھلا اختیار دیا کہ وہ کسی بھی تیسرے فریق کے ذریعے جب چاہیں ، جس کے خلاف چاہیں مقدمہ درج کروائیں اور یہ مقدمے بڑے پیمانے پر درج بھی ہوے۔ عظیم بٹ نے ایکس پر صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے لکھا ۔
اگر ہم 2019 سے 2021 اور 2023 سے 2025 کے دوران پاکستان میں صحافیوں کی صورتحال کا تقابلی جائزہ لیں تو مجموعی طور پر 2023 سے 2025 کا عرصہ زیادہ خطرناک اور مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے:

2019 سے 2021 کے درمیان فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹس کے مطابق، صحافیوں پر حملوں کے 91 سے 148 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 6 سے 7 قتل، متعدد اغوا، دھمکیاں اور گرفتاریوں کے کیسز شامل تھے۔ اُس وقت بھی ماحول خطرناک تھا، مگر ریاستی سطح پر دباؤ زیادہ تر براہِ راست تشدد یا گرفتاریوں تک محدود تھا۔

لیکن 2023 سے 2025 کے دوران صورتحال مزید بگڑ گئی۔
فریڈم نیٹ ورک اور Pakistan Press Foundation (PPF) کی تازہ رپورٹس کے مطابق:
صرف 2023 میں 140 سے زائد حملے اور خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں۔

2024 میں 137 کیسز سامنے آئے، جن میں 8 گرفتاریوں، 30 ایف آئی آرز، اور 23 کارروائیاں شامل تھیں جو FIA اور سائبر کرائم ونگ نے کیں۔

2025 کی فریڈم نیٹ ورک رپورٹ نے واضح کیا کہ حملوں، ہراسانی، اور PECA قانون کے تحت درج مقدمات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ خواتین صحافیوں اور ڈیجیٹل رپورٹرز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔

2023–2025 کے عرصے کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے آن لائن نگرانی، سوشل میڈیا سینسرشپ، اور قانونی ہتھکنڈوں کا استعمال بڑھ گیا۔ اس دوران صحافیوں کے گھروں پر چھاپے، مقدمات، اور سائبر حملے عام ہو گئے۔

صحافت کبھی آسان پیشہ نہیں رہی لیکن موجودہ دور میں صحافی اور پریس کلبز کو جس طرح سٹیٹ پاور کے ساتھ کنٹرول کرنے کی سعی کی جا رہی ہے یہ قابل افسوس بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ پاکستان میں ارشد شریف شہید کی تیسری برسی کے چند روز بعد ان کی والدہ انصاف کی تمنا دل میں لیے اللہ کے حضور پیش ہو گئ لیکن ارشد شریف شہید کو پاکستان کی کوئی عدالت انصاف نا دلا سکی۔

پاکستان میں خواتین کی تعداد صحافت میں یوں بھی کم ہے لیکن جو ہیں انہیں بھی اے روز ان لائن ہراسانی اور ورک پریشرز کا سامنا رہتا ہے۔ عاصمہ شیرازی کے خلاف بھی سوشل میڈیا ایک میدان جنگ بنا رہتا ہے دوسری جانب جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے بعد سندھ میں کمیشن بننے کے باوجود بھی کام کچھ خاص نظر نہیں آیا ۔ اس حوالے سے مظہر عباس صاحب لکھتے ہیں۔

یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ ایسے لاتعداد صحافی بھی ہونگے جو شائد پریشر برداشت کر کے خاموش ہو گئے ہوں ۔ اویس حمید، 365 چینل لاہور میں ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ وہ لکھتے ہیں

آزادیٔ اظہار کسی ریاست کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت کی علامت ہوتی ہے۔ اگر صحافی خوف کے بغیر سوال نہیں اٹھا سکتے تو جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے اور عوام اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ حکومت کے بیانات اور زمینی حقیقت کے فرق کو ختم کرنے کے لیے محض یقین دہانیاں نہیں، عملی اقدامات درکار ہیں — تاکہ پاکستان میں حق اور سچ لکھنے والا قلم محفوظ رہ سکے۔

Back to top button