معاشرے کے متعصب سلوک کا شکار اقلیتی خواتین معاشی استحصال پر بھی خاموش
وطن عزیز کے پِدرشاہی معاشرے کے صنفی اصول اقلیتی خواتین کے لیے عام خواتین سے ذیادہ سخت ہیں۔ گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی، توہینِ رسالت کے الزامات کا خوف ،زبردستی مذہب کی تبدیلی اور شادی، غیرت کے نام پر قتل، ملازمت کے کم مواقع، اورانتہائی کم اُجرت پر محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے اقلیتی خواتین غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
پاکستان میں اقلیتی خواتین کے معاشی، سماجی اور معاشرتی کردار کے ساتھ ساتھ تعلیمی حالات بھی شدید مسئلے سے دوچار ہیں ۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی جانب سے ’’خواتین کی معاشی اور سماجی بہبود‘‘ کےعنوان پر ممبنی سروے میں پنجاب سے پندرہ سے چوسٹھ سال کی خواتین کا موزانہ اقلیتی خواتین کے ساتھ گیا گیا۔ سروے کے مطابق پنجاب میں پچاس فیصداقلیتی خواتین اسکول نہیں گئی، پری اسکول چھ فیصد، پرائمری اسکول تیرہ فیصد، مڈل اسکول دس فیصد جبکہ بارہ فیصد نے میٹرک کیا تھا، چار فیصد نے انٹر، گریجویشن دو فیصد، اورایک فیصد خواتین نے ماسٹرزمکمل کیا، آٹھانوے فیصد خواتین نے روزگارحاصل کرنے کے لیے کوئی ٹرنینگ حاصل نہیں کی جبکہ اٹھتر فیصد اقلیتی خواتین ملازمت سے وابستہ نہیں اور اکھتر فیصدتعلیم سے محروم ہیں ۔ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی فرق کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں 142 ویں نمبر پر تھا۔مسائل سے دوچار وسائل کی جنگ کرتی اقلیتی خواتین کودرپیش اقتصادی رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اکثر کم تنخواہ والی ملازمت، غیر رسمی شعبے کی ملازمتوں تک محدود رہتی ہیں۔
پاکستان میں معاشی استحصال اور درپیش مسائل کے حوالے سے اسلام آباد کے غیر سرکاری اسپتال میں آٹھ سال سے نرس کے فرائض سرانجام دینے والی سائرہ جو خود ہندو برادری سے وابستہ ہیں، بتاتی ہیں کہ دنیا بھر میں خواتین کے خلاف بدسلوکی پر مبنی رویّوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے مگراقلیتی خواتین ترقی پانے کے مواقعوں میں کمی کے باعث نچلی سطح پرکام کر کے اپنا ذریعہ معاش چلا رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک دور میں نرسوں کا شعبہ اقلیتی خواتین تک محدود تھا مگر اب مسلمان نرسوں کی تعداد زیادہ ہے اور انہیں کسی مذہبی تفریق کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ یہاں غیرسرکاری اسپتالوں میں اقلیتی نرسوں کی کم تنخواہ، جبکہ تربیتی کورس کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ڈیوٹی کے اوقات زیادہ ضرور ہوتے ہیں۔ سائرہ کہتی ہیں کہ تمام تر منفی رویوں ہم اِن کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں کیوںکہ ہندو برداری سے تعلق ہونےاورخاتون ہوتے ہوئے دوہرے امتیازات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ اسلام آباد میں ہندو خواتین کی تعداد کم ہے اورچند ہی ہندو خواتین پڑھی لکھی ہیں مگراسکولوں میں اُنہیں بھی ٹیچرزکی ملازمت نہیں دی جاتی کہ اکثریت کی تعداد مسلمان بچوں کی ہے، کیونکہ والدین کی جانب سے غیر مسلم ٹیچرز پراعتراض کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا ہزارہ ڈویژن مانسہرہ کی رہائشی 42 سالہ نسرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر سخت رویے معمول کا حصہ ہیں ۔ بچوں کا پیٹ پالنا ہے تو لوگوں کے سلوک کی شکایت نہیں کرسکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میری پوری جوانی مسلمانوں کے گھروں کا کام کرتے گزر رہی ہے۔ سرف سے ہاتھ دھونا کام شروع کرنے سے پہلے، تمہارے لیے پانی پینے کا گلاس علیحدہ ہے، گھر کے کسی برتن کو استعمال نہیں کر سکتی۔ کھانا شاپربیگ میں ڈال کر گھر لے جاؤ، بچوں کو ہاتھ مت لگانا جراثیم لگ جائیں گے، کسی بستر یا صوفے پرنہیں بیٹھ سکتی، گھر کے مردوں کے سامنے مت آنا۔ ایسے جملے منہ پر بولے جاتے ہیں بغیر یہ لحاظ کیے کہ میں بھی ایک انسان ہوں“۔ مانسہرہ شہر میں اقلیتی برداری بہت کم ہے خاص کر کرسچن کمیونٹی کے افراد نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی ذیادتی کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمان خواتین کی جانب سے زیادہ منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کام شروع کرتے وقت جو تنخواہ بتائی جاتی ہے وہ ادا نہیں کی جاتی، جب کسی نئے گھر میں ملازمت کے لیے جاؤ تو گھر کی خواتین کہتی ہیں کہ یہ ناں ہی ظاہر کرنا کہ تم کرسچن ہو۔ نسرین کہتی ہیں کم اجرت کی وجہ سے دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ مگراِس معاشی استحصال کی شکایت کرنا ہم پر حرام ہے، جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے یا خاندان سمیت قتل کر دئیے جائیں گے، یا پھر توہینِ مزہب کا اِلزام ہے لہذا ایسے کسی بھی خطرے کو مول لینے کی ہم میں ہمت نہیں ہے۔
ہمارے خاندان نے کئی سال پہلے پنجاب سے مانسہرہ شہر میں نقل مکانی کی ہے اوراب یہاں ہماری رہائش ہے کیوں کہ اِس علاقے کے حالات قدرے بہتر ہیں ۔پنجاب میں اقلیتی برداری سنگین قسم کے مسائل اور خطرات میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ نسرین کہتی ہیں کہ حالات اجازت دیتے تو اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرواتے مگر غربت نے میرے بچوں کو بھی مزدوری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ کئی گھروں میں کم اُجرت کے ساتھ کام کرنے کے دوران مذہبی تبدیلی کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ میرا مذہب میرا ذاتی معاملہ ہے لیکن چپ کر کے لوگوں کی سُن لیتی ہوں کہ کہیں کسی ردعمل کی وجہ سے ملازمت سے ہاتھ دھونے نہ پڑ جائیں ۔
مسرت بی بی سترہ سال سے روالپنڈی کے مختلف علاقوں کے گھروں میں ملازمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی بھی گھر میں کام کے لیے جانے سے پہلے میں خود بھی اپنا مذہب کے ساتھ تعارف دیتی ہوں تاکہ بعد میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو مگرافسوس کہ لوگ اپنے گھروں میں کام تو دیتے ہیں مگر ساتھ ہی انتہائی کم تنخواہ بتاتے ہیں، ساتھ بولتے ہیں کہ کرسچن سے لوگ کام نہیں کرواتے مگر ہم انسانیت کی وجہ سے اپنے گھریلو کاموں کے لیے رکھتے ہیں تا کہ آپ کا نظام چل سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ کرسچن ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت کام کاج کے لیے نہیں رکھتی ہیں اس لیے جہاں بھی کام ملے، میں انتہائی کم معاوضہ پر کرلیتی ہوں۔ حالات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ کبھی چھُٹی اور موسم کی سردی ،گرمی یا بارش کی وجہ سے دیر سویر ہو جائے تو تنخواہ کاٹی جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اس ملک میں پیدا ہو کر اپنی شناخت تو دور زندگی بسر کرنا ہی ایک مشکل ہے۔
مسیحی برادری کے مسائل اور حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر رومانہ بشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتی خواتین کو دوہرے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009 میں اقلیتی برداری کے لیے پانچ فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا جس کے لیے تقریریں بھی ہوتی ہیں مگر یہ اقلیتی برادری میں زیادہ تعلیم یافتہ افراد نہ ہونے یا ملازمت کے معیار پر پورا نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتی برداری کے لیے یہ’’سٹگمٹائزایشن‘‘ بہت زیادہ ہے کہ یہ افراد نچلی سطح کی ملازمت کر سکتے ہیں اعلی عہدوں کے لیے اہل نہیں ہوتے مگر کئی سالوں کے بعد مردوں کے ساتھ اقلیتی خواتین بھی مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئی ہیں یہاں تک کہ پولیس کے محکمے میں بھی خواتین کی تقرریاں ہوئی ہیں۔ہمارے ادارے کی جانب سے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ساتھ بھی میٹنگز ہوئی ہیں کہ اقلیتی برداری بھی کمیشن کے تحت مختلف اداروں میں فائز ہوں جس پر کمیشن کی جانب سے واضح بتایا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ اقلیتی برداری سے سامنے نہیں آتے جو کمیشن سروس کے لیے حصہ لیتے ہیں یا تو وہ ٹیسٹ یا انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں۔ جس کے بعد پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے زور دیا گیا کہ اقلیتی برداری کے کمیشن ٹیسٹ کا علحیدہ سے انعقاد کیا جائے جس کے بعد 2023 میں پنجاب حکومت کی جانب سے اقلیتی برادری کے تعلیمی معیار کے مطابق علیحدہ کمیشن ٹیسٹ لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسیحی برداری سے تعلق ہونے کی وجہ میں اس بات کو بہت محسوس کرتی تھی کہ اقلیتی برداری ملک کے اداروں میں اعلی عہدوں پر فائر نہیں ہیں جس کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا ہے۔اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ بھی میٹنگز کیں جس کے بعد اقلیتی برداری کے لیے ہائر ایجوکیشن کے لیے پنجاب میں دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا اور دیگرصوبے بھی اس کی پیروی کر رہے ہیں مگر وفاق میں اب تک نہیں ہوا ۔صرف قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک فیصد کوٹہ سسٹم ہے۔
رومانہ بشیر کہتی ہیں کہ اقلیتی خواتین گھریلو ملازمہ کے طور پر زیادہ تعداد میں کام کر رہی ہیں ، وسائل کی کمی اور مسائل کا شکار خواتین اپنے ساتھ ہونے والے تشدد، ذیادتی ،خطرات، مذ ہبی تفریق، اور معاشی استحصال کے بارے میں شکایتیں درج کرنے سے کتراتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی سینیٹری ورکزخواتین کے حالات بدتر ہیں ہمارے پاس آنے والی اطلاعات کے مطابق خواتین کو سپروائزر کی جانب سے گالم گلوچ کے ساتھ گھر سے دور ڈیوٹی،صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، اور ریٹائرمنٹ کے بعد خالی سیٹوں پر خواتین کی بھرتیاں نہ ہونا جیسے کئی دیگر مسائل کا سامنا ہے۔
اقلیتی خواتین کے معاشی استحصال کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینٹرفارسوشل جسٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر سنیل ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معاشی تنگدستی کا شکار ہونے والی اقلیتی خواتین زیادہ ترنرسنگ ،ٹیچنگ ،سلائی کڑھائی ،پارلرز میں ذریعہ معاش چلا رہی ہیں۔ان میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ان خواتین میں گھریلو ملازمین ،سینیٹری ورکرز،فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کی بڑی تعداد ہے جو مذہبی بنیادوں پر معاشی استحصال کا شکارہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے تحفظ کے لیے قانون تو موجود ہے مگر بدقسمتی سے پرائیویٹ سطح پر لیبررائیٹس نہیں دیے جاتے جیسے کہ ای او بی آئی سیکورٹی، علاج معالجے کی سہولیات عملی طور پر فراہم نہیں کی جاتی ہیں ۔
یہاں تاریخ سے جُڑی ایک قابِل ذکر بات ہے کہ 1948 میں پاکستان، انسانی حقوق کےعالمی اعلامیے کی توثیق کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا اور اس کے بعد پاکستان نے نو میں سے سات دیگر بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی توثیق کی ہے، جن میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن بھی شامل ہے۔ جسے اقوام متحدہ نے 1979 میں اپنایا اور 1996 میں پاکستان نے اس کی توثیق کی۔ تاہم، حقیقت میں پاکستان میں خواتین کی حالت ایسی ہے کہ 2021 میں جارج ٹاؤن انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین کے امن اور سلامتی کے انڈیکس میں 167 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ہر سال اقلیتی برادریوں کی 1000 سے زائد خواتین کو اغوا کیا جاتا ہے، زبردستی اُن کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور جبراً شادی کی جاتی ہے۔ اقلیتی گروہوں کی خواتین کو اُن کی جنس اور اقلیتی حیثیت دونوں ہی کہ وجہ سے مسلسل امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔