خیبر پختونخوا: بھتہ خوروں سے تنگ خواجہ سرا مُلک چھوڑنے پر مجبور
خالدہ نیاز
پشاور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا نینا کہتی ہیں کہ ”مجھ سے 60 لاکھ بھتے کا مطالبہ کیا گیا لیکن میں نے نہیں دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ پر فائرنگ کی گئی اور اب میں تین سال سے بیڈ پر ہوں“۔ جب نینا پر فائرنگ کی گئی تو ڈرائیور سمیت پانچ افراد اس واقعے زخمی ہوئے۔ نینا کے مطابق اُن کے پیروں میں راڈ لگے ہوئے ہیں اور اب وہ اِس قابل نہیں ہے کہ کسی پروگرام میں جاکر پرفارم کر کے اپنے لیے پیسے کما سکیں بس ڈیرے پر بیٹھی اپنا وقت گزار رہی ہیں۔
یہ کہانی صرف نینا کی نہیں ہے بلکہ کئی خواجہ سرا افراد کی ہے جن کو بھتہ نہ دینے پریا تو ضلع بدر کردیا جاتا ہے یا پھر انکو فائرنگ کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔
بھتہ خوری کے خلاف خواجہ سرا سراپا احتجاج
اگست 2024 میں خواجہ سرا افراد نے پشاور میں بھتہ خوری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا، مظاہرین نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے شکایت کی تھی کہ آئے روز بھتے وصول کیے جا رہے ہیں،اور بھتہ نہ دینے کی صورت میں اُنہیں نہ صرف سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا افراد کے قتل اور تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پولیس اُنہیں تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
پشاور سے وابستہ ایک اور خواجہ سرا، ہیر نے بتایا کہ ہم اِس معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جن پر بہت زیادہ تشدد کیا جاتا ہے تاہم کوئی اُنکی فریاد سننے والا نہیں۔ ہیر بتاتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر ہرقسم کے لوگ آتے ہیں جب انہیں معلوم پڑتا ہے کہ ہمارے پاس پیسے ہیں تو وہ ہم سے بھتے کی ڈیمانڈ شروع کردیتے ہیں، اور جب ہم اپنے پیسے دینے سے اِنکار کرتے ہیں تویہ بھتہ خور تشدد کے مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔
خواجہ سرا پولیس کے پاس جانے سے خوفزدہ کیوں؟
ہیر کہتی ہیں کہ پشاور میں کچھ مافیا گروپس ہیں جو خواجہ سراؤں سے ماہانہ یا ہفتے کی بنیاد پر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ تشدد کے واقعات اور بھتے سے تنگ آکر دو خواجہ سرا مُلک بھی چھوڑ چکے ہیں، بھتہ لینے والے یہ لوگ اثرورسوخ والے ہوتے ہیں۔ ہیر کا کہنا ہے کہ جب کوئی خواجہ سرا بھتہ دینے سے انکار کردے تو یا تو اُس کو مار دیا جاتا ہے یا شدید زخمی کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر خواجہ سرا معذور بھی ہوچکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ہیر نے کہا کہ خواجہ سرا پولیس کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن انکو انصاف نہیں ملتا، بہت سارے کیسز پڑے رہتے ہیں لیکن ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ ”بھتہ لینے والےخواجہ سراؤں کو دھمکاتے بھی ہیں کہ اگر پولیس کو بتایا تومزید نقصان سے دوچار ہونگے، اِسی وجہ سے خواجہ سرا اب پولیس کے پاس جانے بھی کتراتے ہیں“۔ خواجہ سراؤں سے بھتے کی صورت میں کتنی رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے اس حوالے سے ہیر کا کہنا تھا کہ ایک خواجہ سرا سے ایک کروڑ تک بھتہ مانگا گیا، وہ اب مُلک چھوڑ کرشارجہ منتقل ہوگیا ہے کیونکہ اِتنے تو پیسے اُس کے پاس نہیں تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بھتے پشاور میں زیادہ لیے جاتے ہیں باقی علاقوں میں اس کا رجحان کم ہے۔ ہیر مزید بتاتی ہیں کئی خواجہ سراؤں نے لاکھوں روپے بھتے دیے بھی ہے لیکن کب تک دیتے رہیں گے؟
خواجہ سرا افراد کی تعداد
سال 2023 کی مردم شماری کے مطابق 24 کروڑ 41 لاکھ کی آبادی میں 20 ہزار 331 خواجہ سرا ہیں۔ ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کی شرح میں 50 فیصد سے بھی زائد کمی دیکھنے میں آئی، خیبرپختونخوا میں 7 سال میں خواجہ سرا افراد کی تعداد 2 ہزار 325 سے کم ہوکر 1 ہزار 117 رہ گئی ۔ پنجاب میں یہ تعداد 12 ہزار 435 سے بڑھ کر 13 ہزار 957 ہوگئی، جبکہ سندھ میں خواجہ سراؤں کی تعداد 5 ہزار 954 سے کم ہوکر 4 ہزار222،اور بلوچستان میں 780 سے کم ہوکر 765 رہ گئی ہے، اور شہر اقتدار اسلام آباد میں 280 سے کم ہوکر 270 پہ آگئی ہے، تاہم ٹرانس ایکشن الائنس خیبرپختونخوا کی صدر فرزانہ ریاض کے مطابق صرف خیبرپختونخوا میں 70 ہزار خواجہ سرا موجود ہیں جبکہ پشاور میں خواجہ سراؤں کی تعداد 6 ہزار تک ہے۔
شناختی کارڈ کے حصول میں رُکاوٹیں خواجہ سرا کمیونٹی کا دیرینہ مسئلہ
پشاور سے تعلق رکھنے والی زینت خان جینڈر لینز ڈاٹ پی کے کے نام سے ویب سائٹ چلاتی ہیں اور زیادہ تر خواتین اور خواجہ سراؤں کے حوالے سے سٹوریز اپلوڈ کرتی ہیں۔ زینت خان کا کہنا ہے خواجہ سرا افراد معاشرے کا کمزور طبقہ ہے جن کو نہ تو گھر والے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ۔
انہوں نے بتایا جن خواجہ سرا افراد کے شناختی کارڈ نہیں ہوتے، اُن کا قیمتی سامان اُن کے ڈیرے پر ہی موجود ہوتا ہے اور کیونکہ کئی لوگ اُن کی رہائش گاہ پر آتے رہتے ہیں انکو پتہ چل جاتا ہے کہ اِن کے پاس پیسے ہیں تو یا تو وہ زبردستی لے لیتے ہیں یا بھتے کی صورت میں رقم کا تقاضہ کرلیتے ہیں اور مجبوراً ہماری خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد کو بھتہ دینا پڑتاہے۔ زینت خان کا ماننا ہے کہ پولیس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہاں ایک عام آدمی کی نہیں سنی جاتی توبھلا خواجہ سراؤں کی داد رسی کیسے ممکن ہے۔ گھر والوں کی سپورٹ سے بھی یہ کمیونٹی محروم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں۔
خواجہ سراؤں کے دوست بھی کمائی میں سےحصہ لیتے ہیں
خواجہ سرا علیشا مردان سے تعلق رکھتی ہیں وہ اپنی کمیونٹی کے لیے حقوق کے لیےکام کرتی ہیں۔ علیشا کہتی ہیں پشاور کی طرح مردان میں بھی خواجہ سراؤں سے بھتہ لیا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے اور بعد میں اُن سے رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے جب کوئی خواجہ سرا بھتہ دینے سے انکار کردے تو انکو کہا جاتا ہے کہ اب مردان میں پروگرام نہیں کروگے۔
علیشا بتاتی ہے کہ خواجہ سرا افراد کے جو دوست ہوتے ہیں وہ بھی کام کاج نہیں کرتے اور اُنہی کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔ خواجہ سرا جب پروگرام سے واپس آتے ہیں تو جو کمائی کی ہوتی ہے سب وہی بندہ لے لیتا ہے خواجہ سرا کے پاس صرف اپنی ضرورت کے پیسے رہ جاتے ہیں، وہ لڑکا بولتا ہے کہ تمہارے لیے میں نے سارا گھر چھوڑا ہے، بدنامی سر لی ہے۔علیشا کے مطابق ایک خواجہ سرا کے لیے مرد کے بغیر زندگی گزارنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہی اُس کو باقی مردوں اور بدمعاش لوگوں سے بچاتا ہے۔ جو خواجہ سرا پروگراموں سے کمائی کرتے ہیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ خواجہ سراؤں سے صوبے کے سارے اضلاع میں بھتہ وصول کیا جاتا ہے چاہے وہ مردان ہو، بونیر ہو، سوات ہو یا پشاور۔ اِس مہنگائی کے دور میں گھر چلانا، کرایہ دینا بہت مشکل ہے اوپر سے بھتہ خوروں نے اُن کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بہت سارے خواجہ سراؤں کو اس وجہ سے مار دیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے بھتہ دینے سے انکار کیا۔
ویڈیوز کے ذریعے خواجہ سراؤں کو بلیک میل کیا جاتا ہے
حال ہی میں خواجہ سرا ڈولفن آیان کی برہنہ ویڈیوز وائرل کی گئیں جس کے بعد خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار ملزمان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 31 اکتوبر کو پشاور کے تھانہ ہشت نگری میں ڈولفن آیان نے ایف آئی آر درج کروائی جس کے مطابق چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ملزمان نے 2023 میں ایک پروگرام کے بہانے لے جاکر اسلحے کے زور پر ڈولفن آیان کی ویڈیوز بنائیں اور بعد میں اُنہیں دھمکی دی کہ اگر پولیس کو بتایا تو وہ یہ ویڈیوز وائرل کردیں گے۔ ڈولفن آیان کے مطابق ملزمان اُن سے بھتہ لیتے رہے اور بلیک میل بھی کرتے رہے۔ اِس واقعے کے بعد وہ مُلک سے باہر جا چُکیں ہیں تاہم پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔ اُن کی گُرو نینا خان کا کہنا ہے کہ ملزمان نے ڈولفن کو بہت تنگ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ مسلسل ذہنی اذیت کا شکار تھی اور اب مذید ڈیمانڈز پوری نہیں کرسکتی تھی، اِسی لیےملزمان نے اسکی ویڈیوز وائرل کردِیں۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سرا ایسوسی ایشن ٹرانس ایکشن الائنس کی صدر فرزانہ کا کہنا ہے کہ بھتہ لینے والا مافیا گینگ کی شکل میں کام کرتا ہے جب انکو پتہ چل جاتا ہے کہ کسی خواجہ سرا کے پاس پیسے موجود ہے تو ان سے بھتے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ”جس خواجہ سرا کی آمدنی اچھی ہوتی ہے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اس کو لے جاتے ہیں اس کی نازیبا ویڈیو بنائی جاتی ہے ، پھر اُسی ویڈیو کے ذریعے انکو بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر بھتہ نہ دیا تو یہ ویڈیو وائرل کردی جائے گی“۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ بہت سارے خواجہ سرا کسی کے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتے اور اِس وجہ سے بھی اُن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پشاور میں بھتوں کا رجحان زیادہ ہے باقی علاقوں میں کم ہے لیکن وہاں بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں سے مختلف رینج میں بھتے لیے جاتے ہیں کسی سے ایک لاکھ لیے گئے تو کسی سے پانچ، کسی سے چھ لاکھ۔ پولیس والے اکثرملزم کو چند روز کے لیے پکڑ تو لیتے ہیں لیکن وہ پھر رہا ہوجاتا ہے اور دوبارہ خواجہ سراؤں کی زندگی اجیرن کردیتا ہے۔
ٹرانس ایکشن الائنس کے اعدادوشمار کے مطابق 2015 سے لے کر 2024 تک خیبرپختونخوا میں اب تک 125 خواجہ سرا افراد قتل ہو چُکے ہیں۔ الائنس کے مطابق خیبرپختونخوا میں اب تک خواجہ سراؤں پر تشدد کے تقریباً ڈھائی ہزا واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں لیکن تشدد میں ملوث زیادہ تر ملزمان کو سزا نہیں مل سکی۔
پشاور میں بھتہ لینے والا کوئی گینگ موجود نہیں: سی سی پی او پشاور
دوسری جانب سی سی پی او پشاور قاسم علی خان کا کہنا ہے کہ شہر میں ایسا کوئی گینگ نہیں ہے جو صرف خواجہ سراؤں کو ٹارگٹ کرکے ان سے بھتہ لیتا ہے البتہ اِس کمیونٹی کو آپس میں مسئلے مسائل پیش آتے ہیں جس پر باقاعدہ پولیس ایکشن لیتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سی سی پی او نے بتایا کہ سال 2023 میں پشاور میں 4 خواجہ سرا قتل ہوئے جبکہ رواں برس ابھی تک تین خواجہ سرا افراد کے قتل کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 14 ملزمان نامزد ہوئے تھے جن میں سے 8 گرفتار ہوئے ہیں۔
خواجہ سراء الزام لگاتے ہیں کہ پولیس ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں اس کے جواب میں سی سی پی او نے کہا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے جن ملزمان کو پکڑا جاتا ہےاُن کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کرمنل جسٹس سسٹم میں کچھ سقم موجود ہے لیکن پولیس کوشش کرتی ہے کہ ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دلوائے البتہ خواجہ سرا اکثر خود ہی راضی نامہ کرلیتے ہیں۔
سی سی پی او نے مزید کہا کہ پروگرامز کے دوران یا واپسی پرخواجہ سراکمیونٹی کے ساتھ لوٹ مار یا انکو ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن پولیس کے پاس بھتے کے حوالے سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔