انسانی حقوقخبریں

"میں بھی مشال ہوں" کتاب شائع کیوں نہ ہوسکی؟

آج عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی تیسری برسی منائی جارہی ہے۔ انہیں 13 اپریل 2017 کو یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے قتل کردیا تھا۔

برسی کے موقع پر واقعہ کے عینی شاہد اور مشال خان کے استاد، عبدالولی خان یونیورسٹی کے سابق لیکچرار ضیاء اللہ ہمدرد نے اپنی فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے مشال خان جو ایک قابل اور ذہین طالب علم تھا پر کتاب مکمل کرلی ہے جس کو لکھنے کا فیصلہ انہوں نے فرعونیت دیکھنے کے بعد کیا تھا۔ یہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش ہے جو بربریت، تشدد، دہشت گردی اور جنونیت کے خلاف چٹان بن کر کھڑا رہا۔

وہ لکھتے ہیں کہ زندگی کی جدوجہد اور کہانی کے بعض عناصر کو بیان کرنے میں انہیں تین سال لگے ہیں۔ وہ اس کتاب کو مشال خان کی تیسری برسی یعنی آج شائع کرنے کے خواہش مند تھے تاہم اپنے ایڈیٹر سے مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے کتاب کی اشاعت کو مشال خان کا مقدمہ اعلی عدالت تک پہنچنے تک موخر کیا ہے۔

یہ وہ کام تھا جس کے لئے میں ٹھیک طرح سے سو نہیں پایا، میں نے اپنی زندگی اور کئیرئیر کا بیشتر وقت اس کتاب کو لکھنے میں صرف کیا، ضیاء اللہ ہمدرد

اپنی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ اس میں یونیورسٹی انتطامیہ کی بدعنوانیوں، جرنلزم ڈیپارٹمنت کا قیام، مسائل اور مسائل، مشال خان کا بے دردی سے قتل، جسٹس فار مشال خان موومنٹ کا قیام، پروپگینڈا کمپئین اور پس پشت عناصر، ریاستی اداروں کا کردار، ٹرائیل اور گواہاں، 400 ملازمین کی یونیورسٹی سے بے دخلی، یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مرکزی ملزمان کی پشت پناہی، دوستوں کی خود غرضی، سیاسی و مذہبی جماعتوں کا کردار، پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر سیاست، مذہبی تشدد کے متاثرین، میڈیا میں مشال خان سے متعلق شائع ہونے والے تجزیئے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے والی شاعری پر مشتمل ہوگی۔

ضیاء اللہ ہمدرد نے مزید لکھا ہے کہ ان کی کتاب کا پہلا ایڈیشن اردو میں شائع ہوگا تاہم وہ اس کا پشتو اور انگریزی میں ترجمہ شائع کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس حوالے سے تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔

یاد رہے مشال خان پر مبینہ طور پر فیس بک پر مذہب مخالف مواد نشر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ تاہم صوبہ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کے دوران کہا تھا کہ ہمیں توہین مذہب کے حوالے سے مشال کے خلاف سے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ مشال کے ایک دوست کا کہنا تھا کہ ان پر حملے کی وجہ جامعہ کی انتظامیہ کے خلاف تنقید تھی۔

Back to top button