بیماری کیوں چھپاؤں؟
پشاور کے پچاس سالہ شہناز بھی پاکستان کے نو میں سے ایک خواتین میں شامل ہے جس کودو سال پہلے چھاتی یا برسٹ کینسر کی شکایت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کو چھاتی کے دونوں طرف میں شدید درد محسو س ہونا شروع ہوگیا جو بعد میں ڈاکٹر سے تشحص کرنے کے بعد معلوم ہوا اُس کو چھاتی یا سینے کی سرطان کی شکایت ہے۔ اُن کے بقول شدید درد دائیں طرف تھا لیکن مسئلہ بائیں حصے میں تھا جس کا آپریشن کرکے گیلٹی نکال دی گئی اور ماہانہ معائنے کے لئے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں سرکاری طور پر ارنم کے علاوہ کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جہاں پر مریضوں کو آسان اور سست علاج کی سہولت میسر ہوں جبکہ شوکت خانم اور دیگر نجی طبی ادارے یہ سہولیات مہیا کررہے ہیں لیکن یہ صورت تحال دیہی علاقوں میں انتہائی سنگین اور نہ ہونے کے برابر ہے۔
لندن سے بریسٹ سرجری میں سپشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹر آمجد علی جو آج کل پشاور کے ایک بڑے نجی طبی ادارے رحمن میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کاکہنا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ جبکہ خیبر پختونخوامیں پندرہ ہزار سے زیادہ نئے مریضوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے لیکن مختلف مسائل کی بناء پر اصل تعداد سامنے نہیں آتے اُنہوں نے کہا کہ چھاتی کی سرطان سے زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں اور نو میں سے ایک خاتون جبکہ نو سو سے ہزار مردوں میں ایک بندہ مزکورہ بیماری سے متاثرہوتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کو چھاتی کینسر کے تشخیص اور علاج میں کئی اہم مسائل درپیش ہیں جن میں بیماری کے حوالے سے کم معلومات، مرض کو چھپانا، مریضوں کی رجسٹریشن کے لئے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی اور سست علاج کے لئے کم سہولیات اور باقی سب کچھ جن سے دوسر ے ممالک کے نسبت غریب ممالک کے مریض جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
رابعیہ خان نوشہرہ کی رہائشی ہے اور ایک سال قبل شادی سے پہلے اُس کا رشتہ صرف اس وجہ سے ٹوٹا کہ اُس کے منگتیر کو جب معلوم ہوا کہ اُس کو چھاتی کی سرطان کی شکایت ہے جس کی وجہ سے سینے کے ایک طرف کا آپریشن کرکے گیلٹی نکال دی گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ مرض کی تشخیص سے پہلے اُس کا منگتیر کیساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وجہ پوچھنے پر وہ آبددیدہ ہوئی اور کہنے لگی کہ اُس نے کہا کہ مجھے صاف کہہ دو کہ آپ کا حسن متاثر ہو چکاہے اور اب اُس نے دوسری لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ہے۔
اب رابعیہ مکمل طورپر صحت یاب ہے اور ماہانہ معائنے کے لئے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے لیکن نئے رشتے کے لئے ضرور خود اور اُن کے والدین کافی پریشان ہیں۔
پچیس سالہ سمرین خان پشاور کے ایک گھریلوی خاتون ہے کئی سال پہلے اُن کوچھاتی کے دائیں طرف گیلٹی محسوس ہوئی وہ جلد ڈاکٹر کے پاس گئی معمولی آپریشن کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن باقاعدگی سے معائنے کے لئے ڈاکٹرکے پاس جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے تو عجیب قسم کے سوالات پوچھتے ہیں اورمیں نہیں چاہتی کہ میرے جسم کے حوالے سے بات کریں اس وجہ سے میں نے کسی کوبلکل نہیں بتایا۔
دوسری خواتین کی طرح شہناز چھاتی کینسر کی شکایت پر خاموش نہیں رہی۔ اُنہوں نے کہاکہ اس میں کوئی برُائی نہیں کہ آگر اپ کو کوئی مرض ہے اور آپ اپنے خاندان والوں کو بتائیں تاکہ آپ کا بروقت علاج ہوسکے اس وجہ سے میں کہتی ہوں کیوں اپنی جان لیوء بیماری کو چھپاؤں۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک ر پورٹ کے مطابق پاکستان ایشاء کے اُن ممالک میں شامل ہیں جہاں پر چھاتی کے سرطان سے زیادہ تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ادارے کے مطابق مزکورہ بیماری سے ہر سال 17ہزار افراد جان سے ہاتھ دوبیٹھتے ہیں لیکن محکمہ صحت پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یومیہ 110 خواتین اس موذی مرض سے جاں بحق ہونے لگتی ہیں اور یہ تعداد سالانہ 40 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ دنیا میں کینسر(سرطان) کی علاج پرسالانہ 900 ارب ڈالر خرچ کئے جاتی ہیں جبکہ انسداد سرطان پرسالانہ ایک ارب 80 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
شہناز کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مرض جب انسان کو لاحق ہوجاتا ہے تو اُس کو چھپانانہیں چاہئے اور خاندا ن میں قریب لوگوں کے ساتھ ضرور بات کریں کیونکہ وہ آپ کے علاج اور حوصلہ بڑھانے میں آپ کی مد د کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد علی کاکہنا ہے کہ پاکستان میں بروقت معالج کے پاس جاکر روجوع نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں 95 فیصد خواتین چھاتی کینسرکی وجہ سے پانچ سال میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں لیکن بیرونی دنیا میں دورانیہ کافی زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ اس بیماری کے بارے میں آگاہی و شعور کی کمی ہے۔
حکومت کی جانب سے بڑے شہروں میں کچھ حد تک چھاتی کینسر کے تشخص اور علاج کے لئے سہولت تو موجود ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ صورتحال انتہائی خراب ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے برائے صحت ڈاکٹر ظفر میرزابھی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ملک بھر میں چھاتی کینسر کے تشخص اور علاج کے لئے دی جانے والی سہولیات ناکافی ہیں جس کی وجہ سے مزکورہ بیماری سے ہر سال اموت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پورے ملک میں سرکاری اور نجی سطح پر 68مراکز موجود ہیں جہاں پر خواتین کو چھاتی سرطان کے حوالے سے سہولیات مہیاکررہے ہیں اور مستقبل میں ان کو مزید فعال بنانا اور سہولیات مہیاکرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں کافی اقدامات کی ضرورت ہے جو لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دوسرے طبی عملے کی ایسی تربیت کی ضرورت ہے جولوگوں کے گھر وں میں جاکر وہاں خواتین کے ساتھ باآسانی کے ساتھ چھاتی کینسر کے حوالے سے بات کرسکے۔
ڈاکٹر امجد علی کاکہنا ہے کہ جنوری 2019میں بریسٹ کینسر سرجری کی تربیت تمام سرکاری ہسپتالوں میں شروع کرنے کی باقاعدہ نوٹفیکشین تو جاری ہوئی لیکن اب تک اُس پر کوئی عملی کام شروع نہ ہوسکاجس کی وجہ سے علاج کے لئے طبی مراکزآنے والے مریضوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اُن کی زندگی خطر ے سے بھی دو چار ہوتی ہے۔
چھاتی کیسنر کی وجوہات
ڈاکٹر امجدعلی کے مطابق چھاتی کنسر کی مختلف وجوہات ہیں جن میں موروثی،بچوں کو ددوھ نہ پلانا، زیادہ عمر، غیرمتوازن خوارک کا استعمال، ٹائٹ بریزر کا استعمال، غیرنامناسب خاندانی منصوبہ بندی، زیادہ مسائل اور پریشان زندگی گزارنا اور جسم میں وٹامن ڈی کی کمی سے مذکورہ بیماری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں بیس سے آسی سال کی عمر تک خواتین علاج کے لئے آتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ مرض ہر عمر میں ایک خطرہ ہے۔
علامات
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق خواتین کو ہر ماہ صرف پانچ منٹ اپنے جسم کے معائنے کے لئے دینا چاہئے جس میں وہ پورا بدن اور خصوصاً چھاتی پر ہاتھ پھیرنے چاہئے اور آگر اُن کو کہیں پر کوئی گلیٹی محسوس ہو تو اُس کو جلدی معالج کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے۔اُن کہنا ہے کہ چھاتی کا چمڑا زیاد سرخ،سخت، یا اندار کی طرف کھنچی ہوئی ہو،چھوٹے دانے نکل آنا، نپیل یا دوسرے حصے سے رطوبت اخراج وغیر ہ ایسی علامات ہیں جو چھاتی کینسر کے مرض کی طرف اشارہ کرتے ہیں
روک تھام
ڈاکٹر امجد علی کاکہنا ہے کہ سرکاری طبی مراکز میں عملے کی اس حوالے سے تربیت ہونی چاہئے تاکہ وہ بروقت اور صحیح معلومات کی بنیادپر مریضوں کی مدد کرسکے اور مرض کو مزید پھیلنے سے روک سکے۔ اُنہوں نے کہاکہ پشتون معاشرے ثقافتی روایات اور کچھ دوسرے مسائل کی بناء پر خواتین بہت سے مسائل پر خاموش رہتی ہیں جو کہ بعض اوقات جان لیوء بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ایک سال تک بچے کو دودھ کو پلانے سے چھاتی کے کینسر کے خطرات چالیس فیصد کم ہو جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ اس بیماری کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے اقدمات کی ضرورت ہے جس میں پہلی فرصت میں سکول کے نصاب میں بچیوں کو اس بیماری کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا انتظام سرکاری سطح پر ہونا چاہیے۔اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ماہ صرف پانچ منٹ اپنی زندگی کو دیکر اپنے آپ کو خطرناک بیماری سے بچائیں۔