قبائلی علاقے ایک صدی سے قوانین کا تجربہ گاہ
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 118 سال سے نافذ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی قانون رائج فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کو آخر کار بیچیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرکے ان علاقوں میں بسنے والوں کو باقی پاکستانیوں کے برابر حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن ابھی تک ہونے والے اقدامات ان ضم علاقوں میں بسنے والے انتہائی مایوس کن قرار دے رہے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں رائج فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) 1901 جو کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف سمجھا جاتا تھا پاکستان کے بیچیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ ایک سو آٹھارہ سال بعد مقامی آبادی کے حمایت اور مخالفت کے باوجود اس قانون سے چٹکار پانے میں ایک موقع ملا لیکن ماضی اور حال میں یہ علاقہ نہ صرف پاکستان بنے کے بعد بلکہ انگریز دور میں غیر انسانی قوانین کو رائج کرنے کے لئے ایک تجربہ گاہ طورپر استعمال کیا جاتا رہا۔
مئی 2018میں باقاعد ہ سات قبائلی ایجنسی اور چھ ایف آر ز کے علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ قرار دیکر اس میں ضم کردیا گیا جس کا مطالب یہ تھا کہ ان علاقوں میں پاکستان کے آئین سمیت تمام اداروں کے توسیع اور علاقے میں پائیدار ترقی کے لئے دس سالہ خصوصی ترقیاتی فنڈ اور ٹیکس میں چوٹ دینے کے وعدیں کیں گئے لیکن تقریب دو سال کے مدت پورا ہونے کو لیکن وہاں پر عوام کے معیاری زندگی کے بہتر ی کے لئے ہونے والے اقدمات سے مقامی آبادی نالا نظر آتے ہیں اور ہر ایک فیصلے پر مقامی آبادی دو حصو ں میں تقسیم کے رویات تبدیل نہیں ہوچکا ہے۔
تنازعات کے حل اور ماورائے عدالت کے فیصلوں کے روک تھام کے لئے باجوڑ سے جنوبی وزیر ستان تک میں عدالتوں نے کام شروع کردئیے اور ضلعی عدالتوں میں قبائلی اضلاع کے زیر التوء تین ہزار سے کیسزکو ان عدالتوں میں منتقل کردئیے گئے۔سیشن ججز نے پرانے اور نئے مقدمات نمٹانے کا عمل تو شرو ع کردیا لیکن اس عمل کو آگے بڑھنا آسان نہیں کیونکہ وہاں پر تمام تنازعات کو جرگوں سے حال کیا جاتا تھا۔
شاید عدالتوں کو فیصلوں میں مشکلات کے بناء پر صوبائی حکومت نے وہاں پر تنازعات کے حل کے لئے ایک نوٹیفیکیشن جاری کردیا جس کو متبادل تنازعات کے حل کے لئے مصالحت(اے ڈی آر ایکٹ 2019) کے نام سے ہر سب ڈوژن کی سطح پر ہر قبیلے سے چالیس افراد کی کونسل یا جرگہ بنا یا جائیگا جس میں دس ممبران کے انتخاب کا اختیار مقامی انتظامیہ کو دیا گیا ہے۔
فاٹالائر فورم کے سابق جنرل سیکرٹری اور ہائی کورٹ کے وکیل رشید مہمند نے اے ڈی آر ایکٹ 2019 کو ایف سی آر کا نیا شکل قرار دیکر کہاکہ ایک دفعہ پھر انتظامی، قانونی اورعدلیہ کے اختیاریات ڈپٹی اور اسٹنٹ کمشنر کے حوالے کیاگیا ہے جس سے انصاف کے تقاضے پوراہونے کی کوئی توقع نہیں۔اُنہوں نے ایکٹ میں کہاگیا ہے کہ جرگے کے فیصلہ منظور یا مسترد کرنا، ترامیم اورایک تنازعے کے حل کے لئے ایک کے بجائے دوسرے جرگے کے تشکیل جیسے ناجائز اختیاریات ضلعی آفسرن کو دیاگیا ہے۔اُن کے بقول ایکٹ کے سکیشن 30میں فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دوسرے عدالت نہیں کیا جاسکتا البتہ طرف طریقہ کار پر کا اثر نو جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
اے ڈی آر نوٹیفیکیشن کے مطابق ضلع خیبر کے تحصیل جمرود او ر سب تحصیل ملاگوری سمیت ضلع مہمند میں جرگہ ممبران سے خلف لیاچکا ہے تاہم زیادہ علاقوں میں فاٹا انضمام کے خامیوں، سیاسی رہنماؤ، وکیلاء اور اُن عمائدین کے جانب سے جن کو ان کمیٹیوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے سخت مخالفت کے بناء پر اس عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ممبر ان کے خلف برداری اور چناؤ کے عمل میں سست روی پر بعض ضلعی آفسران سے چیف سیکرٹری نے جواب طلب کیا گیا ہے۔
ملک صلاح الدین آفریدی کا تعلق ضلع خیبر کے تحصیل جمرود سے ہے اور اُنہوں نے اے ڈی آر ایکٹ 2019 کے تحت علاقے کے دوسرے عمائدین کے سے کئی دن پہلے خلف اُٹھا چکے ہیں۔ اُنہوں نے تنازعات کے حل کے لئے قائم اس نئے نظام کی مکمل حمایت کی اور موقف اپنایا کہ 2013سے لیکر آج تک انضمام مخالفین کا ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ مسائل کے حل کے لئے صدیو ں سے راویاتی جرگوں کا رائج نظام برقرار رکھا جائے کیونکہ بہت سے ایسے تنازعات موجود ہے جو اس کے بغیر اُن کاحل نہیں کیاجاسکتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ انضما م کے بعد جب عدالتوں نے کام شروع کردیا تو نہ صرف مقامی قبائل کو بلکہ ججز کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اے ڈی آڑ کے خلاف سب زیادہ پریس کانفر س ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ میں ہوچکے ہیں جن میں سیاسی جماعتوں نے مکمل طورپر اس نظام کو مکمل مسترد کردیا ہے جبکہ مقامی عمائدین کا ممبران کے چناؤ پر شدید تحفظات موجود ہے۔عالم گل آفریدی کا تعلق آ فریدی کے ذیلی شاخ ملک دین خیل ہے اور اُ ن کوجرگے کے نظام کے بحالی پر کوئی اعترض نہیں البتہ اُن کاکہنا ہے مقامی انتظامیہ نے ایسے لوگوں کو اے ڈی آرکے لئے منتخب کردیا ہے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتاہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم کارکن ڈاکٹر گل مند آفریدی کا کہنا ہے کہ انضما م کے ساتھ حکومت نے یہاں کے عوام کو نہ صر ف مقامی سطح پر انصاف تک رسائی کا وعدہ کیا تھا بلکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بند دوروزے آئین مطابق کھولنے کے وعدیں کیں گئے تھے لیکن حکومتی سطح پر ایسے اقدمات اُٹھا ئے جارہے ہیں جس باسانی یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ترقی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے قبائلی عوام کو مزید اندھیر وں میں دکھیلا جارہاہے۔
ملک صلاح الدین آفریدی نے کہاکہ تنازعات کے حل کے عدالتی نظام طویل، انتہائی مہنگا اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے قبائل عوام کے لئے جرگوں سے اور کوئی نظام موجود نہیں۔ اُنہوں نے اُس تاثر کو ردکیا کہ مقامی انتظامیہ نے اے ڈی آر میں من پسند اور عوام کے مسترد شدہ عمائدین کو ان میں شامل کیا گیا ہے۔
رشید مہمند کا مانا ہے کہ جائیداد کے تنازعوں میں عدالتوں کو سماعتوں میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہاتھا لیکن اُن کے بقول قبائلی علاقوں میں باقاعدہ طورپر زمینوں کا کوئی ریکاڈ موجود نہیں لیکن وہاں پر ایک انچ زمین ایسانہیں کہ جیسے مالک پتہ نہ ہو، تو اس صورت میں ایک بندے زمین کے ملکیت کے حوالے تین چار مقامی بندے عدالت میں پیش ہوکر گواہی کریں تو ججز فیصلہ دی سکتاہے۔ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام وکیلا ء صوبائی حکومت کے اے ڈی آر ایکٹ 2019کے خلاف سپریم کورٹ دائر کریگا۔
مئی 2018میں قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد حکومت پاکستان کے پوری آئین اور قانون کے بحالی کے آئی جی آر کے نام سے ایک نظام رائج کرنے کے فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف قبائلی وکیلاء نے اعلی عدلیہ کا روخ کیا اوراس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ایک صدی سے قوانین کے لئے قبائلی علاقے تجربہ گاہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزدور اس سے لیکر آج تک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں ایسے قوانین کو نافذ کردیاگیا ہے جو بنیادی انسانی حقوق خلاف تھے۔1867ء میں انگریزحکمرانوں نے ہندوستان میں اپنے گرفت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے مرڈآوٹریجز ریگولیشن نافذ کیا گیا۔شدید عوامی ردعمل سامنے کے بعدمزکورہ قانون میں 1877 نہ صرف ترمیم کرکیا گیا بلکہ اس کے دائر اختیار کو صر ف پشتون اکثریتی علاقوں تک محد د کرکے غازی ایکٹ کے نام سے نیا قانون نافذ ہوا۔
بعض پشتون علاقوں میں انگریز حکمران نے بغاوت کچلنے کے لئے غازی ایکٹ میں مزید سخت شقوں کو شامل کرکے 1901میں ایف سی آر قانون بنایا گیا جوکہ ریاست کو اپنے امور حد سے زیادہ اختیارت دیکر لوگوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کا مضبوط نظام متعارف کریا گیا۔ایف سی آر کو اُس زمانے میں بلوچستان، موجودہ خیبر پختونخوا اور افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں نافذ العمل قرار دیاگیا۔
1947ء میں متحدہ ہندوستان کے تقسیم کے بعد یہی اُمید تھی کے تمام علاقوں سے غیر انسانی قانون کا خاتمہ ہوجائیگا لیکن دس سال بعد پختونخوا سے جبکہ 1973میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد بلوچستان اور ملاکنڈ (پاٹا) سے ایف اسی آر کا خاتمہ کرکے آئین پاکستان کی توسیع کردی گئی لیکن قبائلی علاقوں میں مزکورہ قانون نافذ العمل رہا۔
پاکستان بنے کے 52سال بعد قبائلی عوام کو اُس وقت کے نگران حکومت نے 1997کے عام انتخابات میں بلاغ رائے دہی کے استعمال کا حق دیاتھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں قبائلی علاقوں میں اصلاحاتی پیکچ لانے کے فیصلہ کرلیا اورسابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زداری نے ان 2011میں خصوصی اختیاریات کا استعمال کرتے ہوئے محدود پیمانے پر ایف سی آر میں ترمیم کے ساتھ قبائلی علاقوں تک پولٹیکل ایکٹ 2002کو توسیع دی گئی اور ان علاقوں میں تاریخ میں پہلی 2013کے عام انتخابات سیاسی جماعتوں نے پارٹی کے انتخابی نشان اورمنشور کے ساتھ حصہ لیا۔اس قدم کو کافی سہراہا گیا لیکن ایف سی آر سے کئی گنا خطرناک آرڈیننس ایکشن اینڈ ایڈسول پاور نافذ کردیا گیا جس میں سیکورٹی اداروں ماورائے عدالت اختیاریات دئیے گئے جن میں شک کے بنیاد پر لوگوں کے گرفتاری اور عدالت کو پیش کے بغیر لمبے عرصے تک حبس بجا رکھنے جیسے شقیں شامل کیں گئے تھے۔اس میں قانون میں سیکورٹی اداروں کے خفیہ تحقیقاتی مراکز کو بھی قانونی تحفظ دیا گیا۔
قبائلی علاقوں کے انضما م کے بعد حکومت نے پوری صوبے خیبر پختونخوا میں ایکشن اینڈ ایڈسول پاور آرڈیننس کو توسیع دینے فیصلہ کرلیا لیکن ہائی کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن کے نتیجے میں 17اکتوبر2019کو کالعدم قرار دیکر تمام خفیہ مراکز کے اختیاریات پولیس کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت اوروزات دفاع نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اب یہ مسئلہ زیر سماعت ہے۔۔
مئی 2018کو پچیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ قبائلی علاقوں کا انضما م تو ہوگیا لیکن وہاں پر دوبارہ نظام کو آئی جی آر(انٹرگورنس ریگولیشن) جیسے غیر انسانی قانون کے تحت نظام چلانے فیصلہ ہوالیکن جلد اعلی عدلیہ نے اس کو کالعدم قرار دیا۔انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں نظام چلانے کے لئے رواج ایکٹ نفاذ کر نے کی تجاویز بھی زیر رہا۔ مزکورہ ریگولیشن ان علاقوں میں انگریز دور میں مختصر مدت کے لئے نفاذ کر دیا گیا تھا۔
صوبے کے دوسرے خصوں سے تقریبا ایک سال بعد 20جولائی 2019کو سولہ جنرل پانچ مخصوص نشستوں پر انتخابی عمل مکمل ہوا۔
انضما م کے خامی سیاسی اور غیر سیاسی لوگ شدید تنقید اور مایوسی کاسامنا کرنا پڑا رہا ہے کیونکہ حکومت نے کے جانب سے جو وعدیں ہوئے اُس عمل دارآمد میں کافی مسائل کا سامنا کرناپڑرہا ہے جن میں این ایف سی ایوراڈ میں دس سال کے تین فیصد حصہ اور سال 2019 کے اوخر میں تنازعات کے حل کے لئے اے ڈی آر کا نیانظام متعارف کرنا شامل ہیں۔
معدنیا ت کے لئے نئے قانون، ٹیکس اور بجلی کے بلوں کے حصول کے لئے حکومتی ادارے کافی سرگرم ہے جوکہ بعض لوگ انضمام کے ثمرات کے بجائے اس کو ایک بڑے گٹھے کا سواد ہ تصور کرتے ہیں۔
قبائلی علاقوں کے حوالے سے26وین آئینی ترامیم شمالی وزیر ستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن ڈاوڑ نے 10مئی2019 کو پیش کردیا جس کو اسمبلی نے 13مئی کو متفقہ طورپر منطور کرلیا تاہم سینٹ سے منظوری تعطل کا شکا رہے۔مزکورہ آئینی ترمیم میں صوبائی اسمبلی جنرل نشستیں 16سے 24جبکہ مخصوص نشستیں 5سے چھ کرنے اور قومی اسمبلی کے بارہ نشستیں آنے والے مردم شماری تک برقراررکھنے کی نقطہ شامل تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے حکومت بڑی تعداد میں پشتونوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی ہے لیکن پوری پشتون قوم کو بے غزت کرانے کے لئے ایک بندہ بھی کافی تھا۔