ماحولیات

ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات میں گھِرا موہانہ قبیلہ ذریعہ معاش کی بقا کے لیے پریشان

دریائے چناب کی لہروں کے ساتھ کھیلتے پلنے بڑھنے والی موہانہ قبیلے کی 14 سالہ کلثوم نے آنکھ کھولنے کے بعد سے صرف پانی کو ہی زندگی اور دنیا سمجھاہے۔ دریا کنارے اُگنے والے سرکنڈوں سے بناخیمہ اس کا گھر ہے اور سارا دن دریاکے اندر آتےجاتے ،والدین کا ہاتھ بٹانا اور چھوٹےبہن بھائیوں کو سنبھالناہے اس کی زندگی ہے۔ اس کے والد نے اسے، اس کے بہن بھائیوں اور والدہ کو کبھی پانی سے دور جانے ہی نہیں دیا جبکہ مچھلی فروخت کرنے یا اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے شہر جانے کے دوران بھی نہ تو کبھی اسے کوئی کھلونا لے کر دیااور نہ ہی شہر کی زندگی کے بارے میں بتایاہے۔اس نے اپنے ساتھ کی بچیوں کے والد کی سنائی گئی کہانیوں کی حد تک ہی شہرکو جاناہے۔ اسے زندگی کی بنیادی آسائشوں کے ساتھ اسکول اور ہسپتال کے بارے میں بھی علم نہیں ہے ۔

دریائے چناب کی لہروں سے کھیلتی ،سر کے بالوں اور گالوں پر ریت کی واضح چمک لیے،پرانے اور اپنے قد سے بڑے کپڑوں میں،بناء جوتے کے بھی خوش و خرم، کلثوم نے سرائیکی زبان میں بتایا کہ اس کا والد دیگر رشتہ داروں اور ساتھیوں کے ساتھ سارا دن دریامیں کشتی چلاتاہے اورمچھلیاں پکڑتاہے،جب شکار کم ہوتاہے تواس کا والد گھرپر سارا دن حقہ پینے کے ساتھ اس کی ماں کو بھی برابھلا کہتارہتاہے۔اس کی ماں سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہےاور وہ ماں کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ 3 چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی سنبھالتی ہے۔ کلثوم کا کہناہے کہ اسے اسکول اور ہسپتال کے بارے میں تو علم نہیں لیکن اس نے شہر کے بارے میں اپنی ماں اور دوسری سہیلیوں سے سنا ہے۔جس پر اس نے بھی اپنے والد سے کئی بار ساتھ شہر جانے کی فرمائش کی لیکن ابا نے اس کی کبھی بات ہی نہیں سنی ہے۔سیلاب کے دنوں میں وہ دریا کے اندر موجود ٹیلوں پر رہتے ہیں یا پھر بند پر چلے جاتےہیں ،جہاں بڑی گاڑیوں میں شہر سے آنے والے لوگ انہیں کپڑے اور کھانے پینے کا سامان بھی دے جاتے ہیں۔ اُس کا کھیلنا کودناصرف دریا کی لہروں اور ریت کے ساتھ ہے ۔

موہانہ ایک مشہور اور قدیم قبیلہ ہےجو زندگی کا ایک رنگ اوربے مثال ثقافتی ورثہ رکھتاہے، جو پنجاب اور سندھ کے دریاؤں میں آباد ہے۔ موہانہ قبیلہ پاکستان کے دریائے چناب اور وسطی دریائے سندھ کے پرسکون پانیوں پر حکمرانی کرتا ہے، خاص طور پرپنجاب کے قدیم شہرمظفرگڑھ اور سندھ کے قدیم شہر سکھر کے قریب ان کی ذیادہ آبادی ہے۔ موہانہ قبیلہ اپنی قدیم روایات، منفرد طرز زندگی اور ماحولیاتی چیلنجز کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

ماہرینِ تاریخ اور بشریات کے مطابق، موہانہ قبیلے کے اجداد کا تعلق 5,000 سال پرانی تہذیب سے ہے، جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ موہانہ قبیلہ دراوڑ نسل کے قریب ہے، جن کے افراد کا رنگ گہرا، بال سیاہ گھنگریالے، اور ناک عقابی ہے۔ ان کا طرزِ زندگی ہمیشہ دریاؤں اور جھیلوں سے وابستہ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موہانہ لوگ آج بھی موہنجو دڑو کے قدیم باشندوں کے قریب ترین ہیں۔


موہانہ قبیلہ بنیادی طور پر ماہی گیری اور آبی پرندوں کے شکار پر انحصار کرتا ہے۔ ان کے شکار کا طریقہ منفرد اور شاعرانہ ہے، جس میں شکاری اپنے سر پر ایک مردہ پرندے کی کھال رکھ کر پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور آبی پرندوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ پرندے شکاری کو اپنا ساتھی سمجھ کر قریب آتے ہیں، اور شکاری انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

ان کے گاؤں تیرتے ہوئے مکانات پر مشتمل ہیں، جو دریائےچناب، سندھ اور منچھر جھیل کے پانیوں پر آباد ہیں۔ دریائے چناب، جو کبھی ایک ماہی گیروں کے لیے جنت سا مقام تھا، اب پانی کم ہونے کے ساتھ صنعتی و سیوریج کے فضلے کی آلودگی سے زہر آلود ہو چکا ہے۔ ماہی گیری کی پیداوار میں زبردست کمی آ چکی ہے، اور دریاکی حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے۔

شعبہ جنگلات، فشریز اور ماہی گیری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹرمحمد الطاف کا اپنی ریسرچ میں کہنا ہے کہ دریائے چناب پنجاب، پاکستان کا ایک اہم آبی ذخیرہ ہے جو ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم، انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا پانی آلودہ ہو رہا ہے، جن میں صنعتی فضلہ، شہری ترقی، زرعی شدت اور عالمی حدت شامل ہیں۔ ان کی اس تحقیق کا بنیادی مقصد دریائے چناب کی مچھلیوں کی انواع اور ان کی تقسیم کو سمجھنا تھا۔ تحقیق کو دریائے چناب کے تین اہم مقامات پر مرکوز کیا گیا: ہیڈ مرالہ (ضلع سیالکوٹ)، ہیڈ خانکی (ضلع گجرات)، اور ہیڈ قادرآباد (ضلع گوجرانوالہ)۔

مچھلیوں کی انواع کا جائزہ مقامی ماہی گیروں کی مدد سے لیا گیا اور تمام موسموں میں ڈیٹا جمع کیا گیا۔ تحقیق کے لیے براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقے استعمال کیے گئے تاکہ علاقے کی مچھلیوں کی تنوع کا پتہ لگایا جا سکے۔ ڈیٹا کا تجزیہ ایک شماریاتی سافٹ ویئر کے ذریعے کیاگیا۔ جس کے تحت نمونہ جمع کرنے کے دوران دریائے چناب سے 34 مچھلیوں کی اقسام ریکارڈ کی گئیں۔ تنوع کے اشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ ہیڈ قادرآباد پر مچھلیوں کی تنوع ہیڈ خانکی اور ہیڈ مرالہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں قدرتی اور انسانی ساختہ تالابوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ سیلاب کے دوران ان تالابوں سے مچھلیاں دریا میں منتقل ہو جاتی ہیں، اور پرندوں یا ماہی گیروں کے ذریعے انڈے اور کم عمر مچھلیاں دریا تک پہنچتی ہیں۔

ڈائریکٹر فشریز جاوید احمدکا کہناہے کہ دریائے چناب کوآلودگی سےبچانے کےلئے خاطرخواہ اقدامات کئے گئے ہیں ۔ جس میں صنعتی فضلہ کی روک تھام کے لئے انڈسٹریل زون کی مانیٹرنگ کی جاتی اور متعلقہ محکموں کی جانب سے خلاف ورزی پر کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس طرح سیوریج کے آلودہ پانی کو روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی لگائے گئےہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کو سہولیات پہنچانے کےلئے ان سے مسلسل رابطہ بھی رکھا جاتا ہے اور مچھلیاں پکڑنے کےلئے باقاعدہ لائسنس جاری کئے جاتے ہیں ،تاکہ مچھلیوں اور بالخصوص نایاب مچھلیوں کی نسل کی بقاء یقینی بنائی جاسکے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی موہانہ قبیلے کی زندگی پر تباہ کن اثر ڈال رہی ہیں۔ سموگ اور دریا میں زہریلے فضلے کے باعث درجنوں اقسام کی مچھلیاں اور پرندے ختم ہو چکے ہیں۔ پرندے ہجرت کرکے اس جانب آنا چھوڑ چکے ہیں اور ماہی گیری کے وسائل کم ہونے کی وجہ سے قبیلے کے افراد کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور ان کی صحت مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ مزید برآں، دریائی پانی کے خشک ہونے اور شدید سیلابوں کی وجہ سے انہیں اپنی روایتی کشتیوں اور گھروں کو چھوڑ کر کنارے پر آباد ہونا پڑا ہے، جہاں وہ مٹی اور سرکنڈوں کے عارضی گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔


ماہر ماحولیات ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی وہ اہم عنصر ہے جو عالمی نباتاتی ڈھانچے، پیداواریت، اور حیوانی و نباتاتی انواع کی تشکیل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ماحولیاتی نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں معاشی اور سماجی نظام پر مہلک اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت سے پودے مخصوص درجہ حرارت اور بارش کی مقدار کے اندر ہی افزائش اور بڑھوتری کر سکتے ہیں۔ یہی معاملہ جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کا بھی ہے، جو اپنی خوراک کی موجودگی پر منحصر ہیں۔لہٰذا، ماحولیاتی تبدیلی کئی طریقوں سے ماحولیاتی نظاموں اور ان کے اندر موجود حیاتیاتی تنوع کو متاثر کر سکتی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں زمینی اور آبی ماحولیاتی نظاموں میں مشاہدہ کیے گئے تغیرات میں کئی مثالیں شامل ہیں، جیسے سمندری کچھوؤں کی تقسیم، نمکین جھیلوں کے ماحولیاتی نظام، اور دریاؤں کے ماحولیاتی نظام۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے، لیکن حیاتیاتی تنوع کا موزوں انتظام ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحولیاتی وسائل کی حفاظت کریں اور ان کی پائیداری کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

کلثوم کی والدہ نسیم بی بی بتاتی ہیں کہ ان کی کم عمری میں شادی ہو گئی اور ساری زندگی دریا کے پانی کے ساتھ گزر گئی لیکن اب ماحول تبدیل ہوتاجا رہاہے ،دریاؤں میں ملنے والی جڑی بوٹیاں اور نایاب درخت جن کے پھل اور پھولوں کے اندر سے نکلنے والے گودے کو وہ پکا کر کھانے کےلئے استعمال کرتے تھے،اب کم ہی میسر ہوتے ہیں۔موسم کی شدت بھی بہت ذیادہ بڑھ جانے کے باعث اب ان کے لئے یہاں رہنا ہی محال ہو گیا،گرمی اور سردی اس شدت سے پڑتی ہےجس کے لئے وہ پہلے کبھی تیار ہی نہیں تھے اور نہ ہی ایسا موسم کبھی دیکھاتھاجبکہ سیلاب بھی ذیادہ آنے کی وجہ سے ان کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے۔

کلثوم کے والد رفیق کاکہنا ہے کہ ان کا موہانہ قبیلہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد ثقافتی ورثے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ان کے رسوم و رواج، شکار کے طریقے، اور زندگی گزارنے کا انداز دنیا کی قدیم تہذیبوں کی جھلک پیش کرتے ہیں، لیکن اب ان کے لئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں،شکار میں لائسنس اور ٹھیکیداری نظام کے ساتھ ماحولیاتی مسائل سے کم ہوتے شکار نے ان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کر دی ہیں،لیکن ان کا جینا مرنا پانی کے ساتھ ہے اور وہ شہروں میں جا کر نہ تو کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس طرح کی تیز رفتار زندگی گزار سکتے ہیں ۔ اس لئے، ان کے وجود کو لاحق خطرات کی روشنی میں ضروری ہے کہ حکومت اور مقامی ادارے ان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں۔

موہانہ قبیلہ ایک معدوم ہوتی تہذیب کی کہانی ہے،موہانہ قبیلہ جنوبی پاکستان کے مقامی باشندے ہیں جو صدیوں سے دریاؤں، جھیلوں اور آبی حیات کے ساتھ ہم آہنگ زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ زیادہ تر موہانہ سنی مسلمان ہیں، لیکن ان کی ثقافت میں قدیم رسومات کا بھی عمل دخل ہے، جو شکار اور مچھلی پکڑنے سے جڑی ہوئی ہیں۔موہانہ قبیلے کے پجاری پانی کی پریوں کو راضی کرنے کے لیے بطخ کی قربانی کا خون پیش کرتے ہیں۔ ان کے عقائد کے مطابق دریاؤں، جھیلوں، مچھلیوں اور آبی پرندوں کے محافظ دیوتاؤں کو خوراک فراہم کرنا فطرت کے نازک توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ماحولیاتی بحران اور موہانہ کی بقاء کے لئے ماہرین کی رائے کے مطابق جنوبی پاکستان میں خشک سالی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے موہانہ کے رہائشی علاقوں کا ماحولیاتی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، اور قدرتی وسائل کی کمی اس قدیم طرزِ زندگی کو شدید خطرے میں ڈال رہی ہے۔

Back to top button