معلومات تک رسائی

اسٹیک ہولڈرز کا بلوچستان آر ٹی آئی کمیشن کا مطالبہ

کوئٹہ: سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز (سی پی ڈی آئی) کے زیر اہتمام سیمینار کے دوران بلوچستان رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2021 کے نفاذ اور بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ سمینار میں انفارمیشن کمیشن، سول سوسائٹی آرگنائزیشن (سی ایس اوز)، میڈیا نمائندگان، ماہرین تعلیم اور سرکاری عہدیداروں نے آر ٹی آئی کی اہمیت اور حکومتی امور میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے میں اس کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔

سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے قیام کی اشد ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کمیشن کی عدم  موجودگی آر ٹی آئی ایکٹ کے موثر نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 120 دن کے اندر کمیشن قائم کرنے کے ایکٹ کے مینڈیٹ کے باوجود تین سال بغیر کسی پیش رفت کے گزر چکے ہیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر شعیب احمد صدیقی نے شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بلوچستان آر ٹی آئی ایکٹ 2021 کے نفاذ کا اعتراف کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ اس کی تاثیر کا دارومدار بلوچستان انفارمیشن کمیشن کی فوری تشکیل پر ہے۔

سندھ  انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر ڈاکٹر جاوید علی نے اپنے صوبے میں آر ٹی آئی کے نفاذ میں درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا اور سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں معلوممات تک رسائی کے قوانین کے حوالے سے آگاہی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ خیبر پختونخوا آر ٹی آئی کمیشن کی چیف انفارمیشن کمشنر محترمہ فرح حامد نے انتظامی رکاوٹوں اور سرکاری محکموں کے اندر معلومات  کو خفیہ رکھنے کی روایت پر بات کی۔

محکمہ اطلاعات بلوچستان کے سیکرٹری عمران خان نے بلوچستان انفارمیشن کمیشن کی تعیناتی میں تاخیر کی وجہ اہلکاروں کے تبادلوں کو قرار دیا۔ اس کے باوجود انہوں نے حاضرین کو یقین دلایا کہ بلوچستان آر ٹی آئی ایکٹ کے قواعد  بنا لئے گئے ہیں اور ایک ماہ کے اندر کمیشن کی تقرری کی توقع کرتے ہیں۔ انہوں نے شہریوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ قانون اور اس کی دفعات کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لئے ان قوانین کو استعمال کریں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے سابق ترجمان بابر یوسفزئی نے بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے قیام میں تاخیر کی وجہ سیاسی عدم استحکام  اور سیکیورٹی کی صورت حال  کو قرار دیا۔

پہلی خاتون ڈپٹی سیکرٹری اور سابق ایم پی اے محترمہ راحیلہ درانی نے صوبے میں کمیشن کے فوری قیام پر زور دیا۔  انہوں نے سرکاری محکموں اور شہریوں میں آگاہی  پھیلانے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ کا اردو میں ترجمہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کمشنر کے ساتھ بات چیت کو آسان بنانے میں سی پی ڈی آئی کی کوششوں کو بھی سراہا۔

سینئر صحافی  شہزادہ ذوالفقار نے بلوچستان میں آر ٹی آئی کے نفاذ میں میڈیا کے ناکافی کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان فریڈم آف انفارمیشن 2005 کو منسوخ کرنے کا سہرا سول سوسائٹی کو دیا۔

ایڈ بلوچستان کے ڈائریکٹر عادل نے شہریوں کی حمایت اور عوامی مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ پی سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین نے معلومات تک رسائی میں ذاتی چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ صنفی عدم مساوات کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ کیا۔ معروف آر ٹی آئی کارکن محترمہ فاطمہ ننگیال نے بلوچستان انفارمیشن کمیشن میں کم از کم ایک خاتون رکن کی تجویز پیش کرتے ہوئے صنفی شمولیت کی تجویز پیش کی، جس سے تنوع اور منصفانہ فیصلہ سازی کو فروغ ملے گا۔

سیمینار کا اختتام تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے بلوچستان آر ٹی آئی ایکٹ 2021 کے نفاذ اور بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے قیام کے لیے کام کرنے کے تجدید عزم کے ساتھ ہوا۔ یہ اقدامات صوبے میں شفافیت، احتساب اور گڈ گورننس کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔

Back to top button