Blogمعلومات تک رسائی

بارانی انسٹیٹیوٹ تعلیمی ادارہ ہے یا پرائیویٹ کمپنی؟

اگر آپ بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم ہے یا آپ کا بھائی، بہن، بیٹا یا بیٹی بارانی انسٹویٹ آف ٹیکنالوجی میں زیرتعلیم ہیں یا آپ مذکورہ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے کا سوچ رہے ہیں تو درج ذیل سوالات کے جوابات جاننے نہ صرف آپ کا حق ہے بلکہ بہتر مستقبل کے لئے ضروری بھی ہے۔

واضح رہے کہ میں ان سوالات کی جوابات جاننے کےلئے پیرمہر علی شاہ بارانی زرعی یونیورسٹی کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت چند سوالات بھیجے تھے ان سوالات کے جوابات کے حصول کے لئے آج بارانی یونیورسٹی کے پبلک انفارمیشن آفیسر کے پاس بھی حاضر ہوا۔ انہوں نے درکار دستاویزات تو فراہم کردیں لیکن ان دستاویزات کو پڑھنے کے بعد پیدا ہونے والے سوالات نے مزید سوالات اور متعلقہ افسران کے جوابات نے مزید تشویش کو جنم دیا ہے۔ اسی لئے سوچا کہ ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی اور بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے جنم لینے والے سوالات آپ کے سامنے بھی رکھوں۔ اور اگر آپ کو کوئی عزیز بھی بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں زیرتعلیم ہے تو ان سوالات کے جوابات جاننے انتہائی ضروری ہے۔

ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی سے پوچھا گیا کہ بارانی انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کی کاپی فراہم کی جائے۔ اس سوال کے جواب میں یونیورسٹی نے 22 اگست 2022 کو ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی اور ریسورس آرگنائزر اینڈ سافٹ وئیر انجیئرنگ کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کی کاپی فراہم کی۔ جب سوال پوچھا گیا کہ یہ معاہدہ تو کسی نجی کمپنی اور ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے درمیان ہے۔ اس میں تو بارانی انسٹویٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی فریق ہی نہیں ہے تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ بارانی انسٹویٹ اس معاہدے کے تحت چل رہی ہے۔ جس کے جواب میں یونیورسٹی کے آفیسر نے تحریری طور پر لکھ کر دیا کہ اس کے علاوہ کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یعنی بارانی انسٹویٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے درمیان کوئی تحریری معاہدہ موجود ہی نہیں ہے؟

 

میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا بارانی انسٹیٹیوٹ بطور تعلیمی ادارہ کہیں کسی بھی ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہے یا نہیں تو اس کے جواب میں یونیورسٹی کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب کا مورخہ 22 مئی 2017 کو جاری ہونے والا ایک رجسٹریشن سرٹیفکیٹ فراہم کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ کے مطابق بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی پرائیویٹ لمیٹڈ ( جو کہ ایس ای سی پی کے پاس ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے ) کو بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کو عبوری بنیادوں پر سال 2016-17 اور سال 2017-18 کے لئے بی ایس (سی ایس)، سی ایس (آئی ٹی)، ایم ایس سی، ایم آئی ٹی اور ایم ایس (سی ایس) کی کلاسز پڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ سرٹیفکیٹ اپریل 2018 تک موثر رہے گا۔

یونیورسٹی کے عملے کے مطابق مذکورہ سرٹیفکیٹ کے علاوہ کوئی یونیورسٹی کے پاس کوئی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ موجود نہیں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ مئی 2017 میں جاری ہوا وہ بھی صرف دو سال کے لئے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ کے جاری ہونے سے پہلے بارانی انسٹویٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیثیت کیا تھی؟  مذکورہ سرٹیفکیٹ اپریل 2018 تک موثر تھا اس کے بعد اب بارانی انسٹیٹیوٹ کی حیثیت کیا ہے؟  کیا ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب کسی بھی یونیورسٹی سطح کے پروگرام کے لئے انسٹیویٹ کی رجسٹریشن کا متعلقہ ادارہ بھی یا نہیں؟

یہاں ایک اور سوال بھی جنم لیا ہے وہ یہ کہ بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی پرائیویٹ لمیٹڈ بطور پرائیویٹ کمپنی 2016 میں ایس ای سی پی کے پاس رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کس حیثیت سے کام کرتا رہا ہے۔

بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی پرائیویٹ لمیٹڈ اور ریسورس آرگنائزر اینڈ سافٹ وئیر انجیئرنگ دو الگ نجی کمپنیاں ہیں۔ جبکہ ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کا معاہدہ ریسورس آرگنائزر اینڈ سافٹ وئیر انجیئرنگ کے ساتھ ہے۔

بارانی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی بطور تعلیمی ادارہ کہاں رجسٹر ہے؟ اس سوال کا واضح جواب ابھی تک نہیں مل سکا۔

ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی نے کس قانون کے تحت ایک نجی کمپنی سے معاہدہ کیا۔ دو الگ پرائیویٹ کمپنی کے مالکان میں کون کون شامل ہیں۔ ایک سرکاری یونیورسٹی کیا کسی نجی کمپنی کے ساتھ شراکت کی مجاز ہے؟ کیا ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب نے کس بنیاد پر بارانی انسٹیٹیوٹ کو عبوری رجسٹریشن سرٹفکیٹ جاری کیا تھا؟ ایچ ای سی کے پاس کمپنی کے نام پر وجود پانے  والے بارانی انسٹیٹیوٹ کی حیثیت کیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایریڈ ایگریکلچر یونورسٹی کا نجی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا بارانی انسٹیٹیوٹ کی تعلیمی ادارے کی حیثیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے؟ کیا ایک سرکاری یونیورسٹی کسی پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ پارنرشپ کرسکتی ہیں؟

اپنی تحقیق کا دائرہ کار مزید بڑھانے اور ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کےلئے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور دیگر اداروں کو سوالات بھیج دیئے گئے ہیں۔ تاہم اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات موجود ہوں تو نیچے دیئے گئے ای میل پر مجھ ضرور بتائے گا۔ لیکن اگر نہیں آپ کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہے تو پھر یہ آپ کا حق اور ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ بھی قانون کے مطابق تحریری طور پر ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی اور بارانی انسٹیٹیویٹ سے ان سوالات کے جوابات ضرور طلب کریں۔

وضاحت: بارانی انسٹیٹیویٹ سمیت دیگر اداروں سے متعلق حقائق سامنے لانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا تاہم یہاں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چند روز قبل شائع کی گئی سٹوری میں ہم نے بارانی انسٹیٹیویٹ میں ہونے والے داخلوں میں مقررہ حد سے ذائد داخلوں کا ذکر کیا تھا۔ تاہم آج یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات میں اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ چند روز قبل فراہم کی گئی معلومات مجموعی طور پر زیر تعلیم طلبا کی تھی۔ آج ہر سمسٹر میں ریرتعلیم طلبا کی تعداد کے حوالے سے مزید تفصیلی اعداد و شمار فراہم کئے گئے ہیں جن کے مطابق بارانی یونیورسٹی میں مقررہ حد ( 400 طلبا) سے زائد داخلے نہیں کئے گئے ہیں۔

ندیم تنولی

ندیم تنولی گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اردو اور انگریزی اخبارات کے لئے بطور رپورٹر اور بیورو چیف خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مفاد عامہ کے لئے معلومات تک رسائی کے بہترین استعمال کرے پر انہیں آر ٹی آئی چیمپئین ایورڈ دیا گیا ہے۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ nadeemumer6@gmail.com
Back to top button