خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کی کارکردگی نوٹسز تک محدود
ملاکنڈ: ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دی گئی شکایت پر فیصلہ کرنے میں ناکام ہے۔
22 جولائی 2019 کو صحافی حمد نواز نے اینٹی کرپشن ڈائریکٹ پشاور سے گزشتہ دو سال کے دوران کی گئی کاروائیوں اور ان میں ہونے والی ریکوری کے حوالے سے معلومات طلب کی تھیں۔ معلومات تک رسائی (آر ٹی آئی ایکٹ 2013) میں مقررکردہ وقت 14 یوم میں محکمے کی جانب سے جواب موصول نہ ہونے کے پر انہوں نے خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کیا جنھوں نے چند یوم بعد اینٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے۔
اور پھر تب سے آج تک کمیشن کی جانب سے کاروائی صرف نوٹس جاری کرنے تک محدود ہے۔ کمیشن کی جانب سے متعدد نوٹس جاری کرنے کے باوجود اینٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔
انہوں نے 31 جنوری 2020 کو اینٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ ملاکنڈ سے بھی مذکورہ بالا سوالات پوچھے لیکن تاحال اس کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا آر ٹی ایکٹ 2013 کے مطابق خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن 60 یوم میں شکایات پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے تاہم شکایت نمبر 6061 اور 6583 طویل عرصے سے التواء کا شکار ہیں۔
صحافی شہزاد یوسف زئی کی جانب سے خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق کمیشن کو 2015 سے مارچ 2020 تک اینٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ کے خلاف کل 36 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 25 شکایات کو مقرر کردہ مدت یعنی 60 یوم میں نمٹایا گیا، 8 شکایات کو مقررہ مدت سے زائد عرصے میں نمٹایا گیا جبکہ صرف 3 شکایات زیرالتواء ہیں جن میں اس رپورٹر کی مذکورہ بالا دو شکایات بھی شامل ہیں۔
اس حوالے سے خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کا موقف جاننے کےلئے جب انفارمیشن کمیشن ریاض داودزئی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ شکایات کے سوالات دیکھے بغیر اس حوالے سے کوئی حتمی موقف نہیں دیا جاسکتا ممکن ہے کوئی ایسی معلومات مانگی گئی ہو جو ادارہ قانون کے تحت دینے کا پابند نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں شکایات پر قانون کے مطابق کاروائی ہورہی ہے جلد ہیں انہیں بھی نمٹا دیا جائے گا۔