سوات : پانچ سالوں میں 70 سے زائد افراد غیرت کے نام پر قتل
سوات کے تھانے سیدوشریف میں درج ایک مقدمے کی ابتدائی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق اپریل 2021 کو سیدو شریف پولیس تھانہ کی حدود میں واقع پولیس چوکی کوکڑئی میں سمندر خان (فرضی نام) ساکن بٹورہ سیدو شریف پستول سمیت گھبراتا ہوا داخل ہوا اورچوکی میں موجود پولیس والوں کو بتایا کہ مَیں نے اپنی بیوی کو گھر میں غیر مرد کے ساتھ پاکر قتل کر دیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے پولیس کو بتایا کہ رات کو میں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ کمرے میں موجود تھا کہ میری پہلی بیوی 23 سالہ مسماۃ (ح) کے کمرے سے مردانہ آواز سنائی دی۔ سمندر خان کے بقول، مَیں باہر نکلا اور پہلی بیوی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی، لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ شور سن کر اہلِ خانہ اُٹھ گئے۔ دروازہ توڑنے کی کوشش کی، تو میری پہلی بیوی نے جب دروازہ کھولا۔ اندر کیا دیکھتا ہوں کہ 29سالہ مرد موجود تھا جو بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا، ہم نے اسے پکڑ کر چارپائی سے باندھ لیا، پھر مَیں نے پستول سے فائرنگ کرکے پہلے اس مرد کو اور اس کے بعد اپنی پہلی اہلیہ کو قتل کردیا۔
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی کوئی خبر ٹیلی وژن یا اخبارات کی زینت نہ بنتی ہوکہ اب تو ہم اتنے بے حِس ہو چُکے ہیں کہ عزّت، غیرت ، شرم، حمیّت کے نام پر ہونے والی اس درندگی یا غیر انسانی رویّوں پر کان بھی نہیں دھرتے۔
سوات میں پچھلے پانچ سالوں میں غیرت کے نام پر 70 تک قتل ہوئے
آر ٹی ائی کے تحت محکمہ پولیس سے لی گئی معلومات کے مطابق سال 2017 میں غیرت کے نام پر قتل کے12 مقدمات درج ہوئے جن میں سے 4 مرد اور 11 عورتیں قتل ہوئیں۔ سال 2018 میں 11 مقدمات درج ہوئے جن میں 6 مرد اور 10 عورتیں قتل ہوئیں۔ 2019 میں 12 مقدمات درج ہوئے جن میں 3 مرد اور 12 عورتیں غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔سال 2020 میں 8 مقدمات درج ہوئے جن میں 4 مرد اور 7 عورتیں صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ سال 2021 میں 11 مقدمات درج ہوئے جن میں 5 مرد اور 8 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئی۔
پولیس رپورٹس کے مطابق یہ تمام کیسز سوات میں واقعہ ہوئے اور ان میں زیادہ تر خواتین کو مارا گیا ہے جنھیں کسی غیر مردوں کیساتھ تعلقات کی بناء پر قتل ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ 11 سالوں میں غیرت کے نام پرکتنے قتل ہوئے
خیبر پختونخوا میں بھی غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے خلاف جرائم کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ کئی کیسز تک پولیس کی رسائی نہیں ہے اور ایسے کیسز کا مقامی جرگے میں فیصلہ ہو جاتا ہے جن کا دستاویزی شکل میں اندراج نہیں ہوتا، عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 11 سالوں میں خیبر پختونخوا میں 4504 خواتین پر تشدد کیا گیا، ان میں کچھ واقعات غیرت پر قتل کے بھی شامل تھے۔ اگست 2020 میں سوات میں چھ خواتین کو اپنے ہی گھر کے افراد نے غیرت کے نام پر یا گھریلو ناچاقیوں کی بنا ء پر قتل کیا۔ جن میں سے کچھ جھوٹے مقدمات بھی درج ہوئے جیسے ایک مقامی شخص نے گاؤں ناوگے میں اپنی بیوی کو قتل کیا مگر تھانے میں مقدمہ درج کروایا کہ اس کی بیوی پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے اسے قتل کیاہے ، جسکے بعد اسے دوبارہ پکڑا گیا۔ نجانے ایسے اور کتنے جھوٹے کیس ہونگے۔
غیرت کے نام پر قتل کرنے کے کیا وجوہات ہے؟
اسسٹنٹ ڈاریکٹر (ایم اینڈ ار) ڈاریکٹوریٹ جنرل لاء اینڈ ہیومن رائٹس خیبر پختونخوا شاہ عثمان نے خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بتایا کہ یہ صرف سوات کا نہیں پورے خیبر پختونخوا کا مسلہ ہے جس میں بہت سارے چیزیں اتی ہے جیسے تعلیم کی کمی ، جائیداد کے مسائل، پسند کی شادی کرنا،ذاتی دشمنی اور موبائل فون کا استعمال ان سب کو بہانا بنا کر قتل کرنے کے بعد غیرت کا نام دیکر مرد و خواتین کو مارا جاتا ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والی ہائی کورٹ کی وکیل مہناز نے غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے کے وجوہات یہ ہے کہ پاکستان میں قوانین کی شدید کمی پائی جاتی ہے اور جو قوانین پہلے سے موجود ہیں وہ غیر موثر ہیں ان قوانین کو سہی ایمپلیمنٹ نہیں کیا جاتا اسی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔
مہناز نے مزید کہا کہ آئین پاکستان میں خواتین اور مردوں کے تمام حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اسی وجہ سے معاشرے میں ایک بگاڑ کی کفیت موجود ہے۔
مہناز کے مطابق ہمارے ملک میں تعلیم کی شدید کمی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں علم نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ملک کے کونے کونے تک معیاری تعلیم کی روشنی نہیں پہنچی ہوگی اس وقت تک خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کم نہیں ہوسکتے۔
غیرت کے نام پر قتل کرنے کے وجوہات کے حوالے سے جب ڈی ایس پی سوات پولیس سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجوہات تعلیم کی کمی،قدامت پسند سوچ، یا خواتین کی ان کے مرضی کے خلاف رشتہ کروانا اور اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات نہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کہی بھی ہمیں کسی کیس یا قتل کے بارے میں اطلاع ملتی ہیں تو ہم فورا جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں وہاں جا کر ہم قتل شدہ باڈی کو اپنے کسٹڈی میں لے لیتے ہیں۔ ان کے نمایاں تشدد شدہ جسم کے لیے نقشہ ضرر بنواتے ہیں اس کے بعد قتل شدہ باڈی کو متعلقہ ہسپتال پہنچا دیتے ہیں تو متعلقہ ڈاکٹر ہمیں پوسٹ مارٹم رپورٹ مہیہ کر دیتا ہیں کہ قتل کیسے کن وجوہات کیوجہ سے ہوئی اس کے بعد انویسٹیگیٹیو افیسر کے زیر نگرانی انکوائری شروع کرتے ہے قاتل کو پکڑتے ہیں اور بعد میں وہ تمام ثبوتوں کیساتھ دفعہ 302 اور 311 کے تحت خود بیان حلفی دیتے ہیں کہ ہم نے ان کو کیسے اور کیوں مارا۔
خیبر پختونخوا میں غیرت کی نام پر زیادہ کس کو قتل کیا جاتا ہے؟
اسسٹنٹ ڈاریکٹر ہیومن رائٹس خیبر پختونخوا شاہ عشمان کے مطابق مرد و خواتین دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے مگر زیادہ خواتین اس لئے نشانے پر ہیں کیونکہ ان کو کمزور سمجھا جاتا ہےاور اس کو سزا دینا یا قتل کرنا مردوں کے مقابلے میں اسان ہوتا ہے، مگر روٹین میں جب کوئی بدلہ لیتا ہے تو وہ صرف خاتون کو نشانہ بنانے کا نہیں سوچتا مگر دونوں کو قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔
عثمان کے مطابق خواتین کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی زریعہ نہیں ہوتا اس لئے وہ اسان نشانہ ہے اوراسانی سے قتل کر دیئے جاتے ہیں۔
عثمان کے مطابق غیرت کے نام پر خواتین قتل کرنا تب ہی کم یا ختم ہو سکتا ہے جب تمام ادارے ایک پیج پر کھڑے ہو جائے اور پولیس بھی اس میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
ڈاریکٹوریٹ جنرل لاء اینڈ ہیومن رائٹس خیبر پختونخوا کیا کام ہے؟
اسسٹنٹ ڈاریکٹر عثمان کے مطابق ہمارا ادارہ خیبر پختونخوا پروموشن پروٹیکشن اینڈ اینفورسمنٹ ایکٹ 2014 کے انڈر بنا ہے، یہ ہیومن رائٹس پروموشن، پروٹیکشن اور اینفورسمنٹ کے لئے کام کرتا ہے۔
پروموشن میں یہ ہے کہ ہم میڈیا،سمینار،ورکشاپس اور دیگر مختلف طریقوں سےعوام میں شعور اجاگر کریں اور یہ اس وقت ضروری بھی اس لئے ہے کیونکہ ہمارا تجارت بھی ہیومن رائٹس سے جوڑا ہوا ہے، جس طرح یورپی یونین کہتا ہے کہ ہم اپ کو جی ایس پی پلس سٹیٹس تب دینگے جب اپ ہیومن رائٹس کا لیول ہائی ہو گا پاکستان میں اور ان کو تحفظ حاصل ہو۔اس میں ہم ہیومن رائٹس کے حوالے سے تمام ڈیٹا اکٹا کرکے فیڈرل کو بھجواتے ہیں۔
اس کے بعد پروٹیکشن یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہیومن رائٹس کے حوالے سے جتنے بھی قوانین ہیں ان میں ہیومن رائٹس کے بنیادی حقوق ارٹیکل 8 سے 28 اور پھر 29 سے 40 تک ہیومن رائٹس کی پالیسی کلیر کرتے ہیں۔ اس لئے یہ محکمہ جو ہیومن رائٹس کے حوالے سے آئین کا کسٹوڈین ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جتنے بھی ٹریٹی، ایگریمنٹس جتنے بھی سائن کیے ہیں اس صوبے میں ہم اس کے کسٹوڈین ہیں۔
اس محکمہ میں خواتین،بچوں اور تمام ہیومن رائٹس کے حوالے سے جیسے رایٹ ٹو انفارمیشن، رایٹ ٹو ایجوکیشن، رایٹ ٹو ہیلتھ، رایٹ ٹو پراپرٹی اور اس کے علاوہ جتنے بھی رائٹس ہے اس کو پروٹیکٹ کرنا اس ادارے کی زمہ داریاں ہیں۔
اس کے علاوہ پھر اینفورسمنٹ یا ایپلیمنٹیشن کیسے کیا جاتا ہے؟ اس میں اینفورس کرتے ہے جیسے ہمارے ساتھ ایک سیکشن ہے 12 (1) اس میں ہمارے ساتھ یہ اختیار ہے کہ ہم اے ڈی ار کرسکتے ہے۔اے ڈی ار عدالت کا الٹرنیٹیو ہے اگر کوئی عدالت سے مقدمہ نہ چلوانا چاہتا ہواور باہمی صلاح مشورے سے ہمارے ساتھ اپنا کیس درج کروا سکتے ہیں اور اس کے بعد ہم ایکشن لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں اور یہ فیصلہ پھر ہائی کورٹ میں بھی چیلنج ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ انکوائری اور انویسٹیگیشن اور جھیل میں بھی جتنے قیدی ہیں ان کے حقوق اور پھر پولیس کیساتھ جو لاک اف میں ہیں ان کے حقوق کے حوالے سے بھی ہم سب دیکھتے ہیں کہ کہی ان کیساتھ کوئی تشدد یا بے انصافی تو نہیں ہو رہی۔
غیرت پر قتل کے حوالے سےعلماء کرام کی رائے
اس حوالے سے سوات سے تعلق رکھنے والے مولوی عباس سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ عورت کو اسلام میں وراثتی، سماجی اور معاشرتی حقوق دیئے گئے ہیں۔ جتنی آزادی اور برابری اسلام میں عورت کو ملی ہے شاید ہی وہ کسی اور مذہب کو حاصل ہو۔ اسلام قتل جیسے قبیح فعل کو سختی سے منع کرتا ہے۔ اس معاشرتی برائی کی دین میں کوئی گنجائش نہیں۔
2016 میں سنی اتحاد کونسل کا اجتماعی فتویٰ بھی آچکا ہے۔ 40 علمائے کرام نے اپنے اجتماعی فتوے میں غیرت کے نام پر قتل کو غیر اسلامی فعل اور بدترین گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھنا کفر ہے۔ خواتین کو زندہ جلانا کفر ہے، کیونکہ آگ میں جلانے کی سزا انسان کیلئے جائز نہیں۔ اسلامی ریاستوں کو چاہیے ایسے قتلوں کی روک تھام کیلئے کڑی قانون سازی کریں۔ انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ: ’’ اے عورت کے خاندان والو ، عورتوں کو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے منع نہ کرو جبکہ وہ دونوں شادی کرنے پر راضی ہیں‘‘ (سورہ البقرہ: 232)