Blogمعلومات تک رسائی

تحریک انصاف کے سینیٹرز معلومات تک رسائی کے قانون کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟

بھرتیوں ، تقرریوں اور ترقیوں سے متعلق سوالات نے نیشنل اسمبلی سیکرٹریٹ کو سینٹ کی صف میں لا کھڑا کیا

ایوان بالا یعنی سینٹ میں معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کے لئے تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال اور دیگر کی جانب سے بل پیش کیا گیا ہے، اس بل کو بحث کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھیجا گیا ہے، یوں تو تحریک انصاف کی جانب سے سسٹم کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوی ٰ کئے جاتے ہیں اور ماضی میں خیبر پختونخوا میں عمران خان خود اس قانون کی آگاہی اور اس پر عمل درآمد میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے ہیں تو پھر آخر اب ایسا کیا ہوگیا کہ تحریک انصاف کے سینیٹر ہی اس قانون کے پیچھے پڑگئے ۔

 

یہ کہانی شروع ہوتی ہے 2019 سے جب سابق انفارمیشن کمشنر مختار احمد علی نے سینٹ کو ایک سوالانامہ بھیجا اور سینٹ کی کل اسامیاں، خالی اسامیوں کی تعداد جیسی بنیادی معلومات مانگی تھیں لیکن سینٹ سیکرٹریٹ کو یہ بات اپنی شان کے خلاف لگی اور یوں اس قانون اور سینٹ سیکرٹریٹ کے درمیان تنازعے نے جنم لیا، سینٹ نے یہ معلومات نہ دینے کے لئے تمام سرکاری حربے استعمال کئے، سینٹ سیکرٹریٹ کے عملے  نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سینٹ سیکرٹریٹ کا خیال ہے کہ اگر یوں ہم معلومات فراہم کرنے لگ گئے تو ہر شہری پھر ہر معاملے پر سوال اٹھائے گا۔

سینٹ سیکرٹریٹ نے مختار احمد علی کی اپیل میں چیئرمین سینٹ سے ایک خط بھی لکھوا لیا جس میں چیئرمین سینٹ نے سینٹ کے تمام ریکارڈ کو کلاسیفائیڈ قرار دیتے ہیں اسے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت فراہمی سے مستثنی قرار دے دیا تھا۔ لیکن اس سے بات نہیں بنی اور پاکستان انفارمیشن کمیشن وقفے وقفے سے سینٹ کو جواب دینے کے لئے نوٹسز جاری کرتا ہے۔

گزشتہ سال مارچ میں صحافی ندیم عمر نے سینٹ سے سال 2018 کے بعد سے ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ مانگ لیا ، حسب روایت اس کا بھی جواب نہیں ملا تو ندیم نے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کیا جس پر کمیشن نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے سینٹ کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی، اس معاملے کو بھی اب سال ہونے کو ہے لیکن سینٹ جواب نہ دینے کے لئے مختلف سرکاری حربے استعمال کررہا ہے، ندیم سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ٹائم پاس کرنے کے لئے سینٹ سیکرٹریٹ نے سادے کاغذ پر کچھ معلومات لکھ کردے دیں ، ان کاغذات پر نہ تو کسی کے سائن ہیں اور نہ سینٹ کا لیٹر پیڈ استعمال ہوا، ان کاغذات کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، جبکہ باقی معلومات کے لئے سینٹ تاخیری حربے استعمال کررہا ہے۔

اب تک یہ لڑائی صرف سینٹ لڑ رہا تھا لیکن گزشتہ سال جون میں جب یہ خبر سامنے اآئی کہ سابق اسپیکر اسد قیصر نے اپنے سالے کو مبینہ طور پر ڈیپوٹیشن پر نیشنل اسمبلی میں تعینات کرایا اور پھر اسے قوائد کے خلاف ترقی بھی دی تو میں نے نیشنل اسمبلی سے 2018 کے بعد نیشنل اسمبلی میں ڈیپوٹیشن پر ہونے والی تقرریوں اور ان کی ترقی کی تفصیلات طلب کیں۔ نیشنل اسمبلی نے یہ معلومات فراہم نہیں کی جس پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے نیشنل اسمبلی کے خلاف بھی فیصلہ جاری کرتے ہوئے معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی، اسی طرح میں نے ایک اور اپیل میں نیشنل اسمبلی سے ممبران کی جانب سے جمع کرائی گئیں تحریک استحقاق کی تفصیل بھی طلب کی تھیں جس کا جواب بھی اآج تک نہیں مل سکا، میری ان اپیل کا جواب دینا ہے کہ نہیں یہ معاملے نیشنل اسمبلی نے قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کو بھیج دیا ہے،

یعنی گزشتہ سال نیشنل اسمبلی سے پوچھے گئے ان سوالات نے نیشنل اسمبلی سیکرٹریٹ کو سینٹ کی صف میں لا کھڑا کیا اور یوں اراکین پارلیمان نے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون سے خود آزاد کرنے کےلئے معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے،

اراکین اسمبلی بھی خود کو مقدس گائے ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ قانون باقی سب سرکاری اداروں پر لاگو ہو لیکن ان سے کوئ بھی شہری اس قانون کے تحت کوئی سوال نہ پوچھ سکے۔

مذکورہ ترمیم کے خلاف سماجی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے جبکہ پنجاب انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ نے بھی اس ترمیم کو غداری قرار دیتے ہوئے صدر پاکستان کو 4 صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا ہے جس میں اس ترمیمی بل کو مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

 

 

Back to top button