جنوبی پنجاب کے اقلیتی لوک فنکار اپنے فن کی بقا کے لیے مشکلات سے دوچار
دنیا بھر کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی 31 اکتوبر 2024ءکو ہندو برادری کے مذہبی تہوار دیوالی کی تیاریاں عروج پر رہیں اور لوک فنکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگانے کے لئے اپنے آلات کو صاف ستھرا کرنے کے ساتھ اِن کی تاریں بھی کس لِیں۔ ہندو برادری کے اِن لوک فنکاروں کی طرح اِن کے آلات موسیقی ، طبلہ، ڈھول، بانسری، ٹلی، یکترو، رانتی کی حالت زار بھی بجانے والوں کے چہروں سے ٹپکتی شکستگی کی طرح صاف عیاں ہے۔ تاہم اپنے ثقافتی فن سے وابستگی اورمذہبی تہوار پر سُننے والوں کی بڑی تعداد نے اِن کی خوشی دوچند کررکھی ہے اور کسی معاوضے کی امید تک نہ ہونے کےباوجود یہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
شاندار ثقافتی ورثے کے باوجود، جنوبی پنجاب میں اقلیتی برادریوں کے گلوکارغربت، پسماندگی اور سماجی کشمکش کے درمیان روایتی موسیقی کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔پاکستان کے جنوبی پنجاب کے زرخیز میدانوں میں ثقافتی تنوع کا خزانہ موجود ہے۔ مختلف اقلیتی برادریوں کا گھر، یہ خطہ موسیقی کا بھرپور ورثہ رکھتا ہے۔ تاہم، متحرک تال اور دھنوں کے نیچے ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے۔اقلیتی ثقافتی گلوکاروں کواپنے اِس فن کو زندہ رکھنے کیلئے بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے۔
رحیم یار خان کے قریب چولستانی ہواؤں سے گرد آلود دیہات میں، 45سالہ دیتو لال، ایک ہندو گلوکار، اپنے آبائی پیشہ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ”میں 10 سال کی عمر سے گا رہا ہوں،“ دیتو لال کی آواز پرانی یادوں سے بھری ہوئی تھی۔ ”لیکن یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اب ہماری روایتی موسیقی کو اہمیت نہیں دیتے۔ میں نے اپنے فن کو پذیرائی نہ ملنے کے باوجود ایک اکیڈمی بھی کھولی ہے، جس میں کچھ نوجوان کبھی کبھار سیکھنے کے لئے آتے ہیں لیکن وہ ذیادہ عرصہ تک سیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں اور جلد فن کے میدان میں قدم رکھ دینا چاہتے ہیں۔اس لئے پرانے ثقافتی آلات موسیقی کے ساتھ یہ فن بھی اپنی نسل کے ساتھ دفن ہوتا دیکھ رہا ہوں“۔
دیتو لال کے خدشات کی بازگشت ملتان سے تعلق رکھنے والی50 سالہ ہندو گلوکارہ شکنتلادیوی نے بھی سنائی۔ "ہم سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ ہماری موسیقی کو ‘پرانے زمانے’ یا ‘پسماندہ’ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔” حالانکہ جنوبی پنجاب کی اقلیتی برادریوں کی روایتی موسیقی صوفی، لوک اور کلاسیکی اثرات کا انوکھا امتزاج ہے۔ تاہم، ہر گزرنے والی نسل کے ساتھ، یہ ثقافتی میراث دھندلا جاتا ہے۔ نوجوان نسلیں زیادہ منافع بخش، مرکزی دھارے کی موسیقی کی صنعتوں کی طرف راغب ہو رہی ہیں، جس سے روایتی گلوکار اپنے انجام کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اورمختلف کم درجہ کے پیشوں سے وابستہ ہیں۔
دیتولال کہتے ہیں کہ اقلیتی گلوکاروں کو نہ صرف معاشی مشکلات بلکہ معاشرتی رویّوں کی صورت میں بھی ظلم و ستم کا سامنا ہے۔”ہمیں انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ وہ ہماری موسیقی کو ‘غیر اسلامی’ سمجھتے ہیں“۔ ان چیلنجز کے باوجود، اقلیتی گلوکار جذبے اور عزم کی وجہ سے گانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "ہماری موسیقی ہی ہماری پہچان ہے، ہم گاتے رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو“۔
چولستان کےصحراؤں میں رات کی پرسکون خاموشی اور تاروں سے بھرے آسماں تلے مارواڑی زبان میں رانتی (ثقافتی آلہ موسیقی) پر آواز کا جادو بکھیرنے والے ازاری لال بھیل کے پانچ بچے ہیں۔ زیادہ تر ایّامِ زندگی لوگوں کی فصلیں کاٹ کر یا مزدوری کرکے کٹتے ہیں۔ اُن کے اصل چہرے اور چال ڈھال میں مشقت اور معاشی تنگدستی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ البتہ عورت کا رُوپ دھارنے کے بعد اپنی چال ڈھال اور ادا کو اِس قدر مہارت سے بدلتے ہیں کہ دیکھنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ حُسن کے نقاب اوڑھنے والی کی حقیقی زندگی تلخیوں سے بھری ہے۔
رانتی اور مارواڑی رقص کے فنکار بہاولپور ڈویژن کے دیہاتوں میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں تو پاکستان بھر میں لوک فنکاروں کے معاشی حالات قابلِ ذکر نہیں لیکن ہندو لوک فنکاروں کو سماجی تنگ نظری کا اضافی بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔ اُن کی موسیقی اور گیت ہندو ثقافت اور داستانوں پر مبنی ہیں۔
دیتو لال بتاتے ہیں کہ رانتی کی دُھن پر کرشن کنہیا، رام لکشمن کی کہانیاں گاتے ہیں۔ شادی اور مرگ کے گیت ہوتے ہیں اور اگر کسی کو جن بُھوت ہو جائیں تو بھی ہے گیت کام آتے ہیں۔ یہ ہمارے مذہب کا طریقہ علاج بھی ہے ۔ وہ ارمان بھرے لہجے میں اُن وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب ملک کے مختلف بڑے شہروں کی ثقافتی محفلوں میں اُنہیں مدعو کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے ایک لوہے کے پرانے صندق میں اُن محافل میں شرکت کی اسناد اور تصاویر سنبھال رکھی ہیں۔ان تقریبات سے ملنے والی ویلوں (نچھاور کئےجانے والے پیسوں )کی آمدن سے بچوں کا سر چُھپانے کے لیے کچے مکان بنا لیے لیکن انہیں سرکاری طور پر معاوضے ادا نہیں کئے گئے یا کم دئیے گئے کیونکہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور اُن سے کاغذات پر انگوٹھے لگوا لئے جاتے تھے۔
چولستان کے نامور گلوکار آڈو بھگت 2 سال قبل چک 177 چولستان میں انتقال کر گئے۔ آنجہانی آڈو بھگت نے ریڈیو پاکستان بہاولپور، ملتان اور پی ٹی وی لاہور پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کی عمر 65 سال تھی، وہ عرصہِ دراز سے دمہ کے مرض میں مبتلا تھے، حکومت سے درخواستوں کے باوجود اُن کے علاج پر توجہ نہ دی گئی۔ جنوری 2020 میں فالج کا حملہ اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ آنجہانی آڈو بھگت کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹا کوڑا بھگت موسیقی کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ آڈو بھگت کے ذاتی کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1955ء میں عالم رام کے گھر ٹوبہ تال والا موضع نواں کوٹ چولستان میں پیدا ہوئے ۔ بچپن سے موسیقی کی طرف راغب تھے اور سندھ کے عالمی شہرت یافتہ لوک فنکار کنور بھگت کو اپنا روحانی استاد کہتے تھے۔ وہ کافی، بھجن اور گیت چولستان اور مارواڑی انگ میں گانے پر مہارت رکھتے تھے۔
قلعہ دراوڑ چولستان میں رہنے والے اتم بھگت موسیقی سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ سرد و گرم راتوں میں گاتے ہوئے اکثر اپنی آواز صرف خود سنتے رہتے ہیں۔ اتم بھگت کا کہنا ہے کہ یہاں کی خوب کیف اور ٹھنڈی راتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آنے والے اُن کے فن کی خوب داد دیتے ہیں لیکناُن کے اِس فن کو کامیابی سے جاری رکھنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ فنکاروں کے لئے شروع کئے گئے امدادی پروگراموں کی آگاہی تو دور کی بات، اُن کو بھنک بھی نہیں پڑتی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں راجہ جہانگیر انور سیکرٹری اطلاعات بنے تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام شروع کیا، جس سے صوبے کے ہزاروں آرٹسٹس کو ریلیف ملا ، یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ملک میں ساؤنڈ ایکٹ کے بعد فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے تھے اور نوبت فاقہ کشی سے خود کشیوں کی طرف جا پہنچی تھی، اس دوران بہت سے فنکار کسمپرسی اور فاقہ کشی کی حالت میں فوت ہوئے۔ سپورٹ پروگرام سے ان کو ریلیف ملا مگربدقسمتی سے یہ ریلیف بھی بڑے شہروں کے پڑھے لکھے فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں تک محدود رہا اور اس فنڈ کے بارے میں اقلیتی لوک فنکار آج تک آگاہ نہیں ہیں۔تاہم تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد صوبے کی وزارت اطلاعات و ثقافت کا قلمدان فیاض الحسن چوہان کے پاس آیا تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام ختم کر دیا ، جس سے فن سے وابستہ افراد کو جو تھوڑا بہت ریلیف ملتا تھا وہ بھی بند ہو گیا۔
ملتان کے امر سونو اور رحیم یارخان کی نوری بھی دلوں پر سحرطاری کرنے والی آواز رکھنے کے باوجود اپنے رہائشی علاقوں تک میں شناخت نہیں رکھتے ہیں کہ وہاں کے ہمسائے اُن کے فن کے معترف ہونا تو درکنار بلکہ ان کا نام تک نہیں جانتے ہیں اور صفائی کے لحاظ سے بولے جانے والے ایک معیوب لفظ سے ان کی شناخت بتاتے ہوئے زیرلب مسکراتے ہیں جو ایک حساس فنکار کے لئے بھیانک لمحہ ہوتا ہے۔
چیئرمین وزیراعلیٰ ٹاسک کمیٹی و ایم پی اے سلمان نعیم کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے آرٹسٹ خدمت کارڈ متعارف کرایا گیا اور اب اس کارڈ پر گرانٹ بڑھانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ فنکاروں کے لئے امدادی گرانٹ میں اضافہ کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب نے فنکار کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لئے جامع پالیسی بھی طلب کر لی ہے۔اس کے علاوہ فنکاروں کو امداد کی فوری فراہمی کے لئے انڈومنٹ فنڈ بورڈ کا اختیاروزیراطلاعات کو دینے کا بھی اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
خود کو صرف انسان سمجھنے کی خواہش رکھنے والے اقلیتی فنکاروں کے نزدیک ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ عمل شفاف ہو اور اس کا دائرہ پورے صوبے تک پھیلایا جائے ، خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں کے اقلیتی فنکارکو کسی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہئیے ۔ آرٹسٹوں کی فلاح و بہبود کیلئےسال 2017ء تک کے سابقہ ادوار کی طرح موجودہ دور میں بھی اقدامات کئے جائیں ۔ تاکہ صوبے کے ہزاروں آرٹسٹوں اور بالخصوص اقلیتی فنکاروں کو ریلیف مل سکے۔آرٹسٹ خدمت کارڈ سے فنکاروں میں امتیازی سلوک ختم ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہاہے۔
جنوبی پنجاب کے اقلیتی ثقافتی ورثے کو دستاویزی شکل دینے اور اس کے تحفظ کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ فوک ہیریٹیج انسٹی ٹیوٹ اور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس جیسی تنظیمیں روایتی موسیقی کو فروغ دینے کے لیے انتھک محنت کرتی ہیں۔جیسا کہ دریائے سندھ جنوبی پنجاب سے گزرتا ہے، یہ ایک بھرپور ثقافتی ماضی کی بازگشت رکھتا ہے۔ اقلیتی گلوکار، غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود، گانا جاری رکھتے ہیں، ان کی آوازیں لچک اور امید کا ثبوت ہیں۔ کیا ان کی میراث زندہ رہے گی، یا یہ وقت اور چولستان کی ریت میں مٹ جائیں گی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔