طالبات اپنی فریاد کسے سنائیں۔۔۔؟
شہزاد یوسف زئی
بچن سے ہمیں والدین کی جانب سے ہمیشہ یہی سیکھایا جاتا تھا کہ اساتذہ بھی والدین کی طرح ہی قابل احترام ہیں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد یعض اساتذہ کا مکروہ چہرہ دیکھ کر مجھے حقیقت بالکل اس کے برعکس لگی۔ یہ کہانی ہے راولپنڈی کی ایک نامور یونیورسٹی میں زیرتعلیم حنا علی (فرضی نام) کی جسے دوستی کرنے کے لئے اس کے اپنے استاد کی جانب سے دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ حنا کہتی ہیں کہ ان کا استاد انہیں رات گئے میسجز اور فون کالز کرتا تھا حتاکہ کہ استاد نے اسے ڈگری مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی میں ملازمت کی بھی پیشکش کی۔ لیکن ان کی جانب سے مسلسل نظر انداز کرنے اور پیشکش مسترد کرنے پر اسے امتحان میں ڈی گریڈ دیکر یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نے استاد کی خواہش پوری نہ کی تو اسے آئندہ سمسٹر میں بھی ڈی گریڈ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسا صرف حنا کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ بہت سی طالبات کو اساتذہ کی جانب سے اس قسم کے رویئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ سماج میں بدنامی یا کیئرئیر میں ناکامی کے خوف سے شکایت نہیں کرتیں۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں حراسانی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
سرکاری یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ فائزہ علی کہتی ہیں ککہ یونیورسٹیوں میں انسداد حراسانی کے لئے قائم کمیٹیاں صرف ایک رسمی کاروائی ہے۔ یہ کمیٹی اسی ادارے کے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہیں جو کسی بھی شکایت کی صورت میں طلباء کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے اپنے ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے نظام میں اساتذہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ طلباء کا استحصال کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی طالبہ کسی استاد کے برے اعمال کا ذکر کسی دوسرے استاد یا یونیورسٹی انتظامیہ سے کرتی ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیکر چپ کرادیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی صورت میں لڑکی کو ہی قصور وار ٹھرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے طالبات شکایت کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم دختر فاونڈیشن کی جانب سے اپریل 2018 میں کام کرنے والی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور متاثرہ خواتین کی مدد کرنے کے لئے ٹیلی فون ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا تھا۔
مذکورہ تنظیم کی جانب سے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق انہیں 20ہزار 741 سے زائد شکایات موصول ہوئیں ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان میں 16 ہزار 981 شکایات جو کل شکایات کا 82 فیصد ہیں انہیں مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات کی جانب سے موصول ہوئیں جہاں انہیں اساتذہ یا یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی شکایات تھیں۔
دختر فاونڈیشن کی صدر حمیرا سید کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں طالبات کو حراساں کئے جانے کے واقعات کی شرح سرکاری یونیورسٹیوں میں ذیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض واقعات میں تو یونیورسٹی کی جانب سے قائم کردہ انسداد ہراسانی کمیٹی کے اراکین بھی طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے طالبات ان کمیٹیوں کے پاس اپنی شکایات لیکر جانے سے گریز کرتی ہیں۔
حمیرا سید نے بتایا کہ دختر فاونڈیشن کی ٹیم صحافیوں، وکلاء، سماجی کارکنوں اور ماہر نفسیات پر مشتمل ہے، اور ہم اپنی ہیلپ لائن پر رابطہ کرنے والی طالبات کو رازداری کا یقین دلاتے ہیں۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کو کل 1140 شکایات موصول ہوئیں جن میں 1063 کو نمٹا لیا گیا ہے۔ ہراسانی سے متعلق شکایات میں پنجاب 500 سے زائد شکایات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اس فہرست میں 391 شکایات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ سندھ سے ہراسانی کی 132 ، خیبرپختونخوا سے 80 اور بلوچستان سے 32 شکایات موصول ہوئیں ہیں۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے اہلکار نے بتایا کہ باقاعدگی سے ہراسانی سے متعلق آگاہی مہم کی بدولت سال 2019 میں شکایات کی تعداد 2018 کی نسبت دوگنی ہیں۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے متعلق بھی ہے۔
وفاقی محستب برائے انسداد ہراسانی کی سربراہ کشمالہ طارق نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ہراسانی کی بڑی وجہ سمسٹر سسٹم ہے جو اساتذہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیاں غییر فعال ہیں۔ اس مسلے پر قابو اسی صورت میں پایا جاسکتا ہے کہ ہم طالبات میں حوصلہ پیدا کریں کہ اس قسم کی صورتحال میں اپنی سہیلیوں سے بات شیئر کرے تاکہ بوقت ضرورت وہ گواہی دے سکے جس سے ان کا کیس ذیادہ مضبوط ہوگا۔
ہراسانی بمقام کار ایکٹ 2010 کے تحت ہر ادارے نے اس قانون کے بننے کے بعد تیس یوم میں اس ایکٹ کے تحت موصول ہونے والی شکایات کو سننے کےلئے انکوائری کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ مذکورہ انکوائری کمیٹی کے باس جرمانے یا ملازمت سے نکالنے کی سفارش کرنے کا اختیار ہوگا۔
فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمینہ امین قادر کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات عموما استاد اور طالبہ کے درمیان مخص غلط فہمی ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کو دو مرحلوں میں تقیسم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ہراسمنٹ مانیٹرنگ آفیسر واقعہ کی تحقیقات کرتا ہے اور عموما مسلہ یہی پر حل ہوجاتا ہے لیکن اگر پھر بھی طالبہ کے تحفظات دور نہ ہوں تو اسے انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران صرف ایک کیس انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس گیا ہے اور اس کیس میں بھی استاد بے قصور پایا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ثمینہ کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیزن پورٹل اس قسم کی شکایات کے لئے طاالبات کے پاس بہترین ذریعہ ہے۔
دعووں کے برعکس جب مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ان کے ادارے میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو بیشر نے اس حواالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایسی کوئی کمیٹی ہے بھی یا نہیں اگر ہے تو اس کے ممبران کون کون ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے شوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد زمان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہراسانی صرف تعلیمی اداروں کا مسلہ نہیں ہے مجموعی طور پر معاشری اقتدار گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور پھر اساتذہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس مقدس پیشے سے وابستہ بعض کالی بھڑیں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات طالبات بھی اس مسلے کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ذیادہ نمبر لینے کےلئے استاد کو بلیک میل کرتی ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ڈاکتر زمان کا کہنا تھا کہ یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی صرف ایک رسمی کاروائی ہے اور کمیٹی کے ممبران کسی بھی شکایت کی صورت میں اپنے ہم کار دوستوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
اس حوالے سے جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تمام یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں اور انہوں نے اس قسم کے مسلے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق خود حل کرنے ہوتے ہیں۔ اگر شکایت کنندہ یونیورسٹی کی کمیٹی کے فیصلے سے مطمئین نہیں تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ مذکورہ قانون کے مطابق وفاقی محستب میں شکایت کرسکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیوں کی نگرانی ایچ ای سی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔