باجوڑ: کرونا وباء کے دوران قابل ستائش خدمات، سینٹی ورکرز کو ایوارڈ ز دینے کی تجویز
انتظامیہ ، سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے نظرانداز کئے جانے پر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ ورکرز نالاں
شاہ خالد
خیبر پختونخوا ہ کے ضلع باجوڑ کے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والاپچپن سالہ جمشید آکاش پچھلے بتیس برس سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار میں بحیثیت ہیڈ سویپر کام کررہا ہے۔ انہوں نے اپنے ڈیوٹی کے دوران کئی طرح کے مشکل حالات کا سامنا کیا لیکن کرونا وباء کے پہلی لہر سے لیکر تیسری لہر تک ان کی ڈیوٹی کے لمحات وہ اپنی زندگی کے نہ بھولنے والے لمحات قرار دیتے ہیں۔ جمشید آکاش بتاتے ہیں کہ کرونا وباء کے دوران ان کی ڈیوٹی ائسو لیشن وارڈ اور مردہ خانے میں تھی جہاں ڈاکٹر و دیگر طبی عملے کے ساتھ پوری رات ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ اس دوران وہ کرونا سےجاںبحق افراد کے کفن اور تابوت کے انتظامات بھی کرتے رہے جو ان کے ڈیوٹی کے نا قابل فراموش واقعات ہیں۔ کیونکہ پورے ملک کی طرح باجوڑ میں بھی کرونا وباء کے وجہ سے ایک خوف کی فضاء طاری تھی اور لوگ ایک دوسرے کے پاس جانے سے بھی کتراتے تھے۔ لیکن جمشید آکاش کہتے ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی خوف کے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی کیونکہ وہ اسے مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق کہ جب ہم پوری رات ڈیوٹی کے بعد صبح گھر جاتے تھے۔ تو اپنے اپ کو سینٹائز کرتے تھے اور بعد میں وہ اپنے بچوں اور خاندان کے افراد سے ملتے تھے ، ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود مجھے لوگوں کی فکر رہتی تھی اور واپس ڈیوٹی پر آجاتا تھا ۔
آکاش کرونا وباء کے دوران کرونا سے بچاؤ کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ کرونا ائسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے عملے کی خصوصی ٹریننگ کی گئی تھی اور انہیں یہ سیکھایا گیا تھا کہ کیسے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار کے کروناائسو لیشن وارڈ کے انجارچ ڈاکٹر فضل الرحمن نے کہا کہ جب ہم نے باجوڑ میں کرونا ائسولیشن وارڈ قائم کیا تو سب سے پہلے میں نے مسیحی برادری کے ہیلتھ ورکرزکو بلایا اور ان کو تربیت دی کہ کرونا ایک نئی بیماری ہے اس سے ڈرنا نہیں ہے اور اس سے متاثرہ مریضوں کی خدمت احتیاطی تدابیر کے تحت کرینگے۔ تو اس پر تمام مسیحی برادری کے لوگوں نے بھرپور طریقے سے عمل کیا اور کسی قسم کی شکایت کا موقع ہمیں نہیں دیا۔
ان کے چند لوگ خود بھی ڈیوٹی کے دوران کرونا کا شکار ہوئے لیکن صحتیاب ہونے کے بعد دوبارہ نئے جذبے کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر ہوئے اور کبھی ڈیوٹی میں سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔تو میں مسیحی برادری کے ہیلتھ ورکرز کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے مشکل گھڑی میں خوشی سے ڈیوٹیاں ادا کیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمن کے مطابق کرونا کی وباء کے دوران خدمات سرانجام دینے والے ہیلتھ ورکرز کے نام ایوارڈز کے لئے ہسپتال کے اعلی حکام کو ارسال کئے اور ان کو ایوارڈز دینے کی سفارش کی ہے اور اگر ائیندہ اسی طرح کا موقع آیا تو بھی ان کے لئے ایوارڈز اور انعامات دینے کی سفارش کرونگا۔
آکاش کرونا وباء کے دوران ڈیوٹی دیتے وقت آکاش اور ان کی بیوی بھی کرونا سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کے مطابق انہوں نے خود کو گھر پر قرنطینہ کیا تھا۔ اپنے کرونا کے تکلیف کے بارے میں آکاش نے کہا کہ ان کوکئی دنوں سے تیز بخار تھی جس کے ساتھ ساتھ اس کو سر میں مسلسل درد اور گلے میں تکلیف کے وجہ سے سانس لینے میں بھی دوشواری محسوس ہورہی تھی۔
بیس دن اُنہوں نے قرنظینہ میں گزارے اور ڈاکٹروں کے ہدایت کے مطابق دوائیاں استعمال کئے اوبیس دن بعد اس کا ٹیسٹ منفی آیا اور اب وہ مکمل صحتیاب ہے ۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار باجوڑ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ(ایم ایس) ڈاکٹر وزیر خان صافی نے شعبہ صحت باجوڑ سے وابستہ مسیحی برادری کے ورکرز کے کرونا وباء کے دوران ڈیوٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسیحی برادری کے لوگوں نے جس ہمت اور بہادری کے ساتھ کرونا وباء کے دوران ڈیوٹی دی ہے اور اب بھی دے رہے ہیں اس پر میں ان کو داد دیتا ہوں۔ کیونکہ بغیر کسی ہچکچاہت کے ان کے میل اور فیمل سٹاف نے اپنے ڈیوٹیاں سرانجام دی جس سے نہ صرف میں بلکہ پوری ہسپتال کے سٹاف مطمئن ہیں۔انہوں نے نہ چھٹی کی ہے اور نہ کبھی ڈیوٹی پر دیر سے آئے ہیں بلکہ جس جگہ پر بھی میں نے ان کی ڈیوٹیاں لگائی تو انہوں نے پورا تعاون کیا ہے اور ڈیوٹیاں ادا کئے۔
مسیحی برادری باجوڑ کے شعبہ صحت سے وابستہ افراد کو ایورڈز اور تعارفی اسناد نہ ملنے کے بات پر ڈاکٹر وزیر خان نے کہا کہ کرونا وباء میں ڈیوٹیاں دینے والے تمام فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کے حوصلہ افزائی کے لئے جو تقریبات منعقد ہوئے ان میں مسیحی برادری کے نمائندوں کوبھی ایورڈز اور کیش ملے ہیں۔
لیکن ہسپتال کے طرف سے ابھی تک ہم نے ایسا کوئی ایورڈز کی تقریب کا انعقاد نہیں کیا لیکن جلد ہم ایک تقریب کا انعقاد کرینگے جس میں ان سب کو مدعو کرینگے اور ان کو ہم ایوارڈز اور تعارفی اسناد بھی دینگے۔
ضلع باجوڑ میں مسیحی برادری کے آبادی کے اعداد وشمار کے بارے میں آل پاکستان مینارٹیز الائنس ضلع باجوڑ کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق باجوڑ میں 327مسیحی برادری کے رجسٹرڈ خاندان چار عشروں سے آباد ہیں۔
جن میں سے 48افراد ہیلتھ کے شعبہ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں 12بارہ خواتین اور 36 مرد شامل ہیں۔ ان میں سے کرونا وباء کے دوران دو خواتین اور چار مرد کرونا کا شکار ہوئے تھے جو اب صحت یاب ہو چکے ہیں اور اپنے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔
مسیحی برادری کے ان ہیلتھ ورکر زمیں آل پاکستان مینارٹیز الائنس ضلع باجوڑ کے صدر 60ساٹھ سالہ پرویز مسیح بھی ہے جو پچھلے 35 پینتیس سالوں سے باجوڑ میں رہائش پذیر ہے۔ پرویز مسیح ڈسٹرکت ہیڈ کوارٹرہسپتال خار میں صفائی ستھرائی کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔
پرویز مسیح کے لئے کرونا کے دوران ڈیوٹی دینا اعزاز سے کم نہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مشکل وقت میں لوگوں کی خدمت کرنا بہترین عبادت ہے۔
فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر کے حیثیت سے کام کرنا ہمیشہ ایک رسک ہوتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ پرویز مسیح بھی کرونا کا شکار ہوا تھا اور زیادہ عمر کے وجہ سے ان کو شدید تکلیف سے گزرنا پڑا کیونکہ کرونا ایک خطرناک بیماری ہے جس کے وجہ سے پورا بدن میں درد ہوتا ہے مسلسل تیز بخار اورسانس کا روکنا ان کے بڑے علامات ہے جس کا اس نے سامنا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں انہوں نے ایسا محسوس کیا کہ اب وہ مرنے والا ہے لیکن پھر بھی ان کا ضمیر مطمئن تھا کہ اس نے لوگوں کی بے لوث خد مت کی ہے۔ پرویز مسیح نے بتایا کی انہوں نے کرونا وباء کے دوران نہ صرف اپنی ڈیوٹی کو اچھی طریقے سے سرانجام دی بلکہ ہسپتال آنے والے مریضوں اور دوسرے لوگوں کی حوصلہ بھی بڑھایا کہ کرونا ایک بیماری ہے اور اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بس صرف احتیاط کریں۔
پرویز مسیح نے بھی جمشید آکا ش کی طرح بتایاکہ ان کے خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت کے ساتھ ساتھ باجوڑ کے سیاسی پارٹیوں کے طرف سے بھی ان کے حوصلہ افزائی کے لئے انہیں نہ کوئی ایوارڈز دیا اور نہ سرٹیفیکیٹس جبکہ باقی دوسرے لوگوں کو ملے ہیں۔
پرویز مسیح اور دوسرے مسیحی برادری کے شعبہ صحت سے وابستہ افراد کے کرونا کے دوران خدمات اور ان کے سیاسی پارٹیوں کے طرف سے حوصلہ افزائی نہ کرنے کے بارے میں جماعت اسلامی ضلع باجوڑ کے نائب امیر قاری عبدالمجید نے بتایا کہ جس طرح تمام شعبوں سے وابستہ افراد نے کرونا وباء کے دوران خدمات سر انجام دی ہے اسی طرح مسیحی برادری کے خدمات بھی قابل تحسین ہے۔ کیونکہ انہوں نے فرنٹ لائن ورکرز کا کردار ادا کیا ہے۔ جس طرح ڈاکٹروں کے خدمات کا اعتراف ہوا ہے اور ان کو تعریفی و توصیفی اسناد اور ایوارڈز ملے ہیں تو اس میں لوئر سٹاف جس میں مسیحی برادری کے لوگوں شامل ہے کو بھی ملنے چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مرکزی اور صوبائی حکومت کی ذمہ اری ہے کہ وہ ان کے لئے ایوارڈز اور انعامات کی تقریب کا اہتمام کریں کیونکہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہے اور ان کا بھی حق بنتا ہے کہ ان کے خدمات کا اعتراف کیا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو جائے۔
ٹرائبل یوتھ فورم و یوتھ آف باجوڑکے چیئرمین اورممبر سالار خیبر پختون خواہ پروگرام ممتاز سوشل ورکر انجینئر ریحان زیب خان سے جب معلوم کیا کہ کیوں انہوں نے باجوڑ کے شعبہ صحت سے وابستہ مسیحی برادری کے افراد کوایوارڈز شو میں مدعو نہیں کیا تھا تو انہوں نے کہ وہ تقریب نہ صرف ہیلتھ کے شعبہ کے افراد کے لئے تھا بلکہ وہ ان تمام ڈیپارٹمنٹس،میڈیا کے نمائندوں اور فلاحی اداروں کے لئے تھا جس نے کرونا وباء کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہر کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے ہر ڈیپارٹمنٹ سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا تھا اور شعبہ ہیلتھ سے ایک ڈاکٹر کوایوارڈ دیا تھا۔ لیکن میں مسیحی برادی کے ہیلتھ کے شعبہ میں کردار کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے بہت اچھی طریقے سے خدمات سرانجام دی اور اب بھی دے رہے ہیں۔
ضلعی حکومت کی طرف سے کرونا وباء کے روک تھام اور اس میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والے افراد کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے تھے لیکن جمشید اکاش اس میں اپنے کمیونٹی کو نظر انداز کرنے کا گلہ کررہا ہے۔ اس لئے ضلعی انتظامیہ کے طرف سے کرونا کیلئے فوکل پرسن اور
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر باجوڑ زمین خان مہمند کے سامنے جب جمشید آکاش کا گلہ رکھا تو انہوں نے ہیلتھ سے وابستہ مسیحی برادری کے کرونا وباء کے دوران خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے ایسے وقت میں فرنٹ لائن پر کردار ادا کیا جب کرونا مریضوں سے ان کے خاندان والے بھی قریب جانے سے کتراتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ ان کو ابھی تک ایوارڈ زکیوں نہیں ملے تو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر زمین خان نے کہا کہ اس کو کرونا لاک ڈاؤن کے دوران وقتا فوقتا فودز پیکجز ملے ہیں اور اس کے علاوہ کرونا کے دوران ان لوگوں کے لئے سلامی پیش کرنے کا جو تقریب منعقد ہوا تھا تو اس میں ان کے کمیونٹی کے لوگوں کو بھی سلامی پیش کی گئی تھی اور آج بھی ہم ان کوسلامی پیش کرتے ہیں اس کے علاوہ ان میں چند کو ایوارڈز بھی ملے تھے لیکن یہ بات درست ہے کہ ہر ایک کو نہیں ملے تو ان کے لئے ایک الگ تقریب کا انعقاد کرینگے اور ا ہیلتھ کے دوسرے سٹاف کے ساتھ ان کے تمام افراد کو بھی ایوارڈز دینگے۔
اس کے علاوہ پچھلے دنوں صوبائی اسملی کے اقلیتی ممبر ویلسن وزیر نے باجوڑ کا دورہ کیا تھا تو اس میں ان کے ساتھ ان کے فلاح و بہبود کے کئی منصوبوں پر تفصلی بات ہوئی جن میں ان کے لئے قبرستان کے لئے جگہ کا تعین کرنا، ان کے لئے رہائشی فلیٹس تعمیر کرنا، نوکریوں میں کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کرنے پر عملد رامد کرنا۔ جبکہ باجوڑ میں ان کے لئے چرچ کے تعمیر پر کام جاری ہے جو آخری مراحل میں ہے تو ان کے ان تمام امور پر بات ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ ان کا ہر ڈیپارٹمنٹ میں اپنا مخصوص کوٹہ ہے۔ اس لئے مسیحی برادری کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم کے حصول پر توجہ مرکوز رکھیں تاکہ ان کو اچھی نوکریاں مل سکیں۔ حکومت مسیحی برادری کے فلاح بہبود کے لئے سنجیدگی سے کام کررہی ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرہ کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر ہمارا معاشرہ نامکمل ہیں۔
عموما ایمر جنسی کے صورتحال کے دوران ڈیوٹیوں پر مامور افراد لوگوں کے مختلف قسم کے باتوں کا سامنا کرتے ہیں۔
ڈیوٹی کے دوران ڈاکٹروں اور دوسرے لوگوں کے روئیے کے بارے میں آکاش نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا رویہ اچھا تھا اور ہے لیکن کبھی کبھی مریضوں کے رشتہ دارکم علمی کے وجہ سے صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور ایس او پیز پر بھی صحیح عمل نہیں کرتے تھے جس کے وجہ سے ان کو ڈیوٹی میں مشکلات پیش آتی تھی لیکن جب ہم ان کو سمجھاتے تھے تو پھر اس کو پشیمانی ہوتی تھی اور پورا تعاون کرتے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو اسلام بھی ہمیں رواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔مسیحی برادری کے خدمات کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر سے باجوڑ کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحلیم نے کہا کہ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔ جہاں تک ضلع باجوڑ کے مسیحی برادی کے شعبہ ہیلتھ سے وابستہ افراد کی کرونا وباء کی دوران کردار کی بات ہے تو وہ قابل ستائش ہیں کیونکہ میں نے سنا تھا کہ کرونا وباء سے جاںبحق افراد کی کفن دفن کا سارا انتظام مسیحی برادری کے افرادنے سرانجام دیا تھا۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسیحی برادری کی خدمات کی بھر پور داد دی جائے خواہ وہ نقد انعام کے شکل میں ہوں یا ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹس کے شکل میں ہوں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ اسلام ہمیں غیرمسلموں کے ساتھ اچھی سلوک کا درس دیتا ہے اور مذہب کے بنیاد پر کسی کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتاہے۔