انسانی حقوق

خیبرپختونخوا میں پولیو مہم کی کوریج سے متعلق صحافیوں کے خدشات

پولیو مہم کی کوریج پر کسی صحافی کو نشانہ نہیں بنایا گیا اس کے باوجود سوات کے صحافی خوفزدہ کیوں ؟

دہشت گردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں، دہشت گردی ہو یا انسداد پولیو مہم مختلف اوقات میں صحافیوں کو قتل کیا گیا اور انہیں دھمکایا گیا، دہشت گردی میں متعدد صحافیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے تو دئے ہیں لیکن انسداد پولیو مہم کی کوریج کرنے کی بنیاد پر کسی صحافی کو قتل یا زخمی  کئے جانے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں انفرادی طور پر صحافیوں کو پولیو مہم کو اجاگر کرنے سے روکا گیا۔

مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس قسم کے واقعات ذیادہ تر قبائلی اضلاع میں سامنے آئے ہیں جہاں پر دہشت گردوں ، مذہبی گروہوں یا کسی اور خاص طبقے کی جانب سے پولیو مہم کی رپورٹنگ کرنے سے روکا گیا۔

اس حوالے سے پشاور کے سینئر صحافی لحاظ علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی نسبت اب صورتحال کافی بدل چکی ہے، ایک وقت تھا جب پولیو مہم کے لئے پورے پشاور کو سیل کردیا جاتا تھا، ہر یونین کونسل کے داخلی و خارجی راستوں پر پولیس اہلکار تعینات کردئے جاتے تھے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام ہو سکیں۔’’ دہشت گردوں یا کسی اور مخصوص گروہ کی جانب سے صحافیوں کو پولیو مہم کی رپورٹنگ میں کبھی نہیں روکا گیا تاہم پولیو ورکرز اور ان کے سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، قبائلی اضلاع میں انفرادی طور پر صحافیوں کو مختلف طبقوں کی جانب سے دھمکیاں ضرور ملتی تھی ، شمالی وزیرستان میں پولیو مہم پر کافی عرصہ تک پابندی عائد تھی‘‘

پولیو مہم کے دوران صحافیوں کو نشانہ بنانے یا ان پر حملے کرنے کے حوالے لحاظ علی مزید کہتے ہیں کہ خطرہ صرف پولیو ورکرز کو نہیں تھا بلکہ ان کے ساتھ پورا معاشرہ ان خطرات سے دوچار تھا، پولیو ورکرز کو قطرے پلانے پر نشانہ بنایا جاتا اور صحافیوں کو سچ لکھنے پر، ’’ انفرادی طور پر میری نظر میں اس طرح کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جس میں صحافیوں کو اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہو کہ وہ پولیو مہم کی کوریج کرتے ہیں،قبائلی اضلاع میں اس طرح واقعات مختلف اوقات میں رونما ہوتے رہے ہیں‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ سرکاری انتظامیہ میں  مختلف اداروں میں پولیو مہم کے لئے ایک فوکل پرسن تعینات ہوتا ہے جو صحافیوں سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں لیکن ڈبلیو ایچ او یا یونیسف کا اس حوالے سے رویہ یکسر مختلف ہیں، ان اداروں سے معلومات لینا کافی مشکل ہوتا ہے ’’ کچھ صحافی ایسے ہیں جو اس چیز کے خلاف ہے باقی زیادہ تر صحافی پولیو مہم کی کوریج بھی کرتے ہیں، مہم کو اجاگر کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے بھی پلواتے ہیں۔‘‘

صوبہ بھر کی طرح وادی سوات بھی دہشت گردی کا شکار رہا اور یہاں پر بھی صحافیوں کو قتل کرنا انہیں دھمکیاں دینا ایک عام سی بات تھی، سوات پریس کلب کے چیئرمین سینئر صحافی محبوب علی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جو علاقے  دہشت گردی سے متاثرہ تھے وہاں پر پولیو مہم کی رپورٹنگ کرنا مشکل ہوتا تھا کیونکہ  پولیو کی ٹیموں کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور اس کی زد میں صحافی بھی آسکتے تھے، وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ تو رونما نہیں ہوا گزشتہ بارہ سالوں میں کہ پولیو مہم کی وجہ سے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو ہاں البتہ صحافیوں کو دھمکیاں ملتی تھی اور انہیں مسیجز بھی کئے جاتے تھے۔

’’دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں اب بھی پولیو ورکرز کو مشکلات ہیں کیونکہ ان پر حملوں کا خدشہ ہوتا ہے ، جو لوگ یہ حملے کرتے ہیں ان کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ یہ واقعات صحافیوں کے ذریعے دنیا کے سامنے آئے اور خوف کی ایک فضاء قائم ہوجائے‘‘

پولیو کے بارے میں رپورٹ کرنے کے حوالے سے جب ریڈیو سوات کے سٹیشن مینیجر رحیم اللہ شاہین سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف اوقات میں ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے پر یا پولیو ویکسین کے حق میں لکھنے پر صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں مخصوص مذہبی طبقہ ، بلکہ عوام اور کچھ نادیدہ قوتوں کی جانب سے بھی دھمکیاں ملتی ہیں۔

شاہین کا مزید کہنا تھا کہ یہاں دہشت گردی کے دوران تو کوئی پولیو ویکسین کا نام بھی نہیں لے سکتا تھا اور اعلی الاعلان مساجد اور دیگر مقامات پر پولیو ویکسین کی مخالفت میں تقاریر بھی کیے جاتے رہے ہیں، اس حوالے سے صحافی بھی انسدادپولیو مہم میں نہ کوریج کر سکتاتھا اورنہ اس کےحق میں لکھنے کی جرات کر سکتا تھا۔

’’ انتظامیہ بھی صحافیوں کو اس مہم کے کوریج سے بارہا منع کر چکی ہے ، کیونکہ ان کے بقول اس سے ورکرز اور صحافیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اور انتظامیہ نے خود کئی سال انسداد پولیو مہم خفیہ طور پر چلایا ، تاکہ ورکرز کی جان محفوظ رہے۔اور صحافیوں کو کوریج سے بھی باقاعدہ طور پر منع کرتے رہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی واقعہ رونما ہو‘‘

پشاور سے تعلق رکھنے والی صحت سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی فاطمہ نازش نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیو مہم کے دوران ہیلتھ ورکرز کے لئے سیکورٹی کے انتظامات تو ہوتے ہیں لیکن صحافیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں ہوتا، ڈر اور خوف ہمیشہ لگا رہتا ہے’’ انتظامیہ یا دیگر ادارے صحافیوں کے تحفظ کے لئے کسی خاص قسم کے قدامات نہیں اٹھاتے‘‘۔

وہ مزید کہتی ہے کہ میں نے پشاور میں تین چار سال پولیو مہم کی رپورٹنگ کی،مجھے ایسا  کبھی نہیں لگا کہ  مجھے کسی قسم کے  خطرات  ہو،آج تک کوئی ایسا صحافی نہیں دیکھا یا ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوئے جس میں ان کا قتل ہوا ہو یا دھمکیاں ملی ہو۔’’پولیو مہم میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہیں ، مقامی صحافی مثبت رپورٹنگ کرتے ہیں ، لوگوں میں پولیو کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاتی ہے اورلوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنے میں میڈیا اور مقامی صحافی مثبت پروجیکشن کر تے ہیں۔

صحافی عدنان باچا نے گفتگو کرتے ہوئے کہ سوات سمیت صوبہ بھر میں دہشت گردی کے دوران رپورٹنگ کرنا مشکل تو تا ہی لیکن جب بات پولیو مہم کی کوریج کی آتی تھی تو مشکلات پھر خطرات میں بدل جاتی تھی’’ ہم پولیو مہم کی کوریج کے لئے جانے سے ڈرتے  تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجائے، اسی ڈر کی وجہ سے ایسے بہت سے پولیو مہم کی کوریج ہم نے انہیں کی اور آج بھی جب کوریج کے لئے جاتے ہیں تو دل میں ایک خوف ہونے لگتا ہے‘‘

پولیو مہم میں ضلعی سطح پر انتظامیہ کے کردار کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کا کہنا ہے کہ سوات میں پولیس مہم کی نگرانی میں محکمہ صحت کے ساتھ ہمہ وقت رابطے  ہوتے ہیں، مہم  سے پہلے اور مہم کے دوران تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل کمشنرز مہم  کی کارروایوں کی نگرانی میں مصروف رہتے ہیں۔’’پولیو میں کام کرنے والے تمام ورکروں کو سیکورٹی فراہم کی جا تی ہے،پولیو کنٹرول روم کی طرف سے مکمل تفصیلات ڈی پی او آفس بھیجی جاتی ہیں جسکے مطابق تمام ورکروں  کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے‘‘

وہ مزید کہتے ہیں ’’ میرےخیال میں میڈیا کو غیر جانبدار رہ کرپورٹنگ کرنی چاہئے، ہمیں صحافیوں کے مشکلات کا اندازہ ہے اور ہماری طرف سے صحافیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جاتا ہے،ہمارے معاشرےمیں علما کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،پولیو کے بارے میں علماء کے بیان کو بہت غور سے سنا جاتا ہے اور اس پہ عمل بھی کیا جاتا ہے‘‘۔

خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کے لئے خصوصی سیکورٹی کی فراہمی بھی خوف کے وہ سائے ختم کرنے میں ناکام ہیں جو ہر وقت پولیو ورکرز اور صحافیوں پر منڈلاتے رہتے ہیں،صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات  وقت کی اشد ضرورت ہے۔

 

Back to top button