انسانی حقوق

مسیحی بچوں کیلئے تعلیم کے مواقع خطرناک حد تک کم

6فیصد پاکستانی عیسائی بنیادی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں ،جبکہ 4فیصد کے قریب پاکستانی عیسائی ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ،1فیصد کے قریب کالج کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور صرف 0.5 پاکستانی عیسائی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں

ایک فلسفی سے کسی نے پوچھا کہ مجھے مشورہ دو کہ میں کو نسی فصل کاشت کروں جس سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرسکوں ،فلسفی نے کہا اگر تم ہر سال بعد منافع حاصل کر نا چاہتے ہوتو گندم کی فصل کاشت کرو ،اور اگر چاہتے ہو کہ تمہیں دس سال بعد منافع حاصل ہو تو پھر لمبے درخت اگانے کا اہتمام کرو ،اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری آنے والی نسلیں ترقی کریں تو پھر نئی نسل کی بہتر انداز میں تعلیم و تربیت کرو کیوں کہ اس سے بہتر فصل کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔بظاہر یہ ایک چھوٹی سی کہاوت ہے لیکن اگر اس پرغور کیا جائے تو یہ ایک ایسا پیغام ہے جس سے قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔یقیناً تعلیم زندگی میں کامیابی کی کنجی ہے۔ یہ ترقی کے بہت سے دروازے کھول دیتا ہے اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں ہوسکتی اور اس سے محروم افراد کا مستقبل تاریک ہو جا تا ہے ۔پاکستان ثقافت اور مذہب سے مالا مال ملک ہے،بے شک پاکستان میں اسلام ایک بڑا مذہب ہے لیکن اس کے ساتھ اقلیتی مذاہب رکھنے والے بھی اسی ملک کے شہری ہیں جیسے عیسائیت ، ہندو مت اور سکھ۔ عیسائی پاکستان کی سب سے بڑی اقلیتی برادری ہیں۔ اور جس طرح پاکستان کی ترقی کیلئے مسلم آبادی کی تعلیم ضروری ہے اسی طرح اقلیتی برادری کیلئے بھی تعلیم استنی ہی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی ترقی ان تمام لوگوں پر منحصر ہے جتنی آبادی پڑھی لکھی اور ہنر مند ہو گی اتنا ہی پاکستان ترقی کی منازل طے کرے گا ،لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی اقلیتی آبادی تعلیم سے محروم ہے ،پاکستان کی مسیحی برادری میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد انتہائی کم ہے اور ان کے بچوں کامستقبل دائو پر لگا ہے ،تازہ ترین حقا ئق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف 6فیصد پاکستانی عیسائی بنیادی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں ،جبکہ 4فیصد کے قریب پاکستانی عیسائی ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ،1فیصد کے قریب کالج کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور صرف 0.5 پاکستانی عیسائی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں ۔

پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ،تو پھر وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے پاکستان کے عیسائی بچوں کو تعلیم سے دور کر رکھا ہے ،حالانکہ عیسائی بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع تو موجود ہیں ایک طرف سرکاری سکول ہیں تو ان میں ہر پاکستانی بچے کیلئے نرسری سے میٹرک تک تعلیم مفت ہے ،بنا کسی مذہب اور فرقے کی تقسیم کے ،تو دوسری طرف عیسائیوں کے اپنے مشنری سکولز ہیں ۔

آزادی سے پہلے عیسائی تعلیمی ادارے چرچ چلاتے تھے۔ لیکن 1972 میں بھٹو حکومت نے انہیں زبردستی قبضہ میں لے لیا اور قومی شکل دے دی۔ بھٹو حکومت کے بعد ، ان میں سے بہت سے اداروں کو ان کے مالکان کو واپس دے دیا گیا۔ یہ ادارے عیسائیوں کے لیے سیکھنے ، سماجی اور ثقافتی اجتماعات اور روحانی ترقی کے بنیادی مراکز تھے۔ایسے میں وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے عیسائی بچوں کو تعلیم سے دور کر رکھا ہے ،پاکستان کے سرکاری سکولو ں میں عیسائی بچوں کی کسی دور میں تعداد زیادہ ہو تی تھی مگر اب وہ کم ہو چکی ہے اس کی وجوہات جاننے کیلئے ہم نے مذل کلاس عیسائی کمیونٹی کے کچھ لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ 80ء کی دہائی کے بعد سے ایک نامعلوم سی دوری آنا شروع ہو ئی ،مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کے عمل میں تیزی آئی ۔سرکاری سکول جو سب بچوں کے لئے ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے کے ادارے ہو ا کرتے تھے وہاں کے کچھ اساتذہ نے غیر مسلم بچوں کو یہ احساس دلانا شروع کیا کہ وہ مسلم بچوںسے کم تر ہیں ،مسلم اساتذہ نے غیر مسلم بچوں کو اپنے کلاس اور کپ کو ہاتھ نہ لگانے دینا ،اور دوسرے بچوں سے کم تر در جہ دینے کے رویے نے بچوں کے آپسی فاصلے بھی بڑھا دئیے ،بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات ذورپکڑتی گئی کہ غیر مسلم ان سے مختلف ہیں اور ان سے دوستی نہیں ہو سکتی اس رویے سے عیسائی بچے دلبرداشتہ ہو ئے اور تعلیمی اداروں سے ان کی دوری بڑھنے لگی ،پھر والدین بھی اپنے بچوں کی طرف سے عدم تحفظ کا شکار ہو ئے اور انہوں نے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنا کم کر دیا ،اور وقت کیساتھ ساتھ اس عدم تحفظ کے ماحول میں اضافہ ہو اہے ۔،

سرکاری سکولوں میں عیسائی بچوں کی کم تعداد ہونے کی وجوہات جاننے کے بعد دوسرا آپشن عیاسئی بچوں کے پاس بچتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں بھیجیں لیکن مشنری سکولوں میں بھی بچے کیوں کم تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،س حوالے سے ہم نے عیسائی کمیونٹی کے مختلف طبقہ فکر کی رائے لی ،ایک عیسائی خاتون جرنلسٹ سے ہم نے اس حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ مشنری سکولوں میں اس وقت اپنے بچوں کو بجھوائیں جب وہاں داخلہ ملے ، مشنری سکولوں میں بھی عیسائی بچوں کو داخلے کیلئے پاپڑ بھیلنا پڑتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ مشنری سکولوں کا مقصد عیسائی کمینٹی کے بچوں کی تعلیم اور ان کو اپنی روایات سے واقف کرنا ہو نا چاہیے مگر وہ  عام پرائیویٹ سکولوں کی طرح صرف فیسیں بٹورنے میں مصروف عمل ہیں ،اور عیسائی بچوں کی نسبت مسلم بچوں کو ان مشنری سکولوں میں فوقیت دینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ عیسائی کمیونٹی کی نسبت ان کیلئے فیسیں ادا کرنا آسان ہے ۔ڈیوسیسن بورڈ آف ایجوکیشن (D.B.E.)  کیتھولک کرسچن سکولوں کے انتظام کے لیے مرکزی تنظیم ہے ، جس کا دائرہ کار پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پھیلا ہوا ہے ،ڈی بی ای کے تحت کل 45 سکول چل رہے ہیں۔ یہ سکول بالائی پنجاب میں واقع ہیں جن میں راولپنڈی ، سرگودھا ، جہلم ، گجرات شامل ہیں۔ کاسی طرح ھگٹر ، خوشاب۔ وفاقی دارالحکومت اور صوبہ خیبر پختونخوا میںواقع ان سکولوں میں کل24ہزار 9سو 30طلبا زیر تعلیم ہیں۔ان میں مسلم طلبا ء کی تعداد 15ہزار جبکہ غیر مسلم طلباء کی تعداد 9ہزار 9سو 20ہے ۔ڈی بی ای کی اپنی ویب سائیٹ پر درج ہے کہ ڈی بی ای منافع کمانے والی تنظیم نہیں ہے۔اور زیادہ تر سکول سبسڈی والے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو ، چند کمانے والے اسکولوں سے ملنے والی امداد سبسڈی والے سکولوں پر خرچ کی جاتی ہے۔

یہ صرف عیسائیوں کے ایک فرقے کی سکولوں کی بات ہو رہی ہے ،عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مشنری سکولوں کو اب اپنا نا تبدیل کر کے پرائیویٹ سکول  کے طور پر چلنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی کمیونتی کے لوگوں کو اول تو داخلہ نہیں دیتے اور اگر داخلہ مل جا ئے تو بھی فیس میں کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں کی جا تی ،حالانکہ ان سکولوں میں کرسچین کمیونٹی کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر داخلہ ملنا چاہیے ۔اور فیس بھی دوسرے بچوں کی نسبت کم ہو نی چاہیے ۔

بات مسلم بچوں کی ہو یا غیر مسلم کی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ریاست کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے ،اس حوالے سے سرکاری سکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کو ٹریننگ دی جا ئے رویوں کی بہتری پر زور دیا جا ئے اور یہ چیک اینڈ بیلنس رکھا جا ئے کہ کتنے غیرمسلم بچوں نے سرکاری سکولوں میں ایڈمشن لیا اور اگر سکول چھوڑا تو اسکی وجوہات کیا تھیں ۔اسی طرح مشنری سکولوں کو اپنی کمیونٹی کو اپ لفٹ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مسیحی بچوں کو ترجیح بنیادوں پر داخلہ دیا جا ئے تاکہ یہ بچے پڑھ کر کر معاشرے کے فعال شہری بن سکیں ۔

Back to top button