سوات: موسمیاتی تبدیلی کا حدف بھی خواتین
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سیلاب سے متاثرہ تحصیل بحرین کے پہاڑی علاقہ اتروڑ سے تعلق رکھنے والی مینہ گل (فرضی نام) کہتی ہیں کہ 2022 کے سیلاب کے وقت وہ حاملہ تھی اور کافی پیچیدگیوں کا بھی شکار تھیں جسکی وجہ سے انہوں نے اپنے بچے کو کھویا اور خود انکی زندگی بھی خطرے سے دوچار تھی مگر اللہ نے دوبارہ زندگی دی۔
وہ کہتی ہے کہ جب بھی ان کے علاقے میں کوئی کسی موزی مرض میں مبتلا ہوتا ہے ، حادثہ ہوتا ہے یا کسی خاتون کو زچگی میں بھی کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو پھر وہ اس مریض کو ضلع کے بڑے ہسپتال منگورہ سیدو شریف لے کر چلے جاتے ہے جو ہمارے گاؤں سے تقریبا 95 کلومیٹر دور شہر میں واقعہ ہے لیکن بدقسمتی سے سیلاب میں اتروڑ کے تمام زمینی راستے دیگر ضلع سے مکمل طور پر منقطع ہو گئے تھے اورانہیں بروقت ہسپتال نہ پہنچایا جا سکا جسکی وجہ سے ان کا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر گیا۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی شاد بیگم کہتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں یا دیگر حادثات میں خواتین زیادہ تر مشکلات کی شکار ہوتی ہے اس کی کئی وجوہات ہے جن میں خواتین کی گھروں کی ذمہ داری سنبھالنا، بچے اور دیگر کاموں کے ساتھ انکی مخصوص بیماریاں بھی ان کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے اور خواتین کو اتنی توجہ بھی نہیں دی جاتی جتنی انہیں درکار ہوتی ہے۔
سوات میں ایمرجنسی صورتحال سے فوری نمٹنے کے لئے ریسکیو 1122 کا ادارہ بھی موجود ہے اس حوالے سے جب ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افیسر ملک شیر دل خان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ 2022 کے سیلاب میں سب سے اہم کردار ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے ادا کیا اور ریسکیو 1122 نے سوات کے مختلف علاقوں سے 6 ہزار 194 افراد کو سیلاب سے زندہ ریسکیو کیا اور محفوظ مقامات اور ہسپتالوں کو منتقل کیا جس میں 8 افراد کی جسد خاکی بھی دریائے سوات سے نکالی گئی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کیوجہ سے خواتین زیادہ متاثر کیوں ہوتی ہیں؟
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کیوجہ سے مردوں کی نسبت خواتین ذیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ سوات میں پشتون روایات، غربت، معاشرتی رویوں اور صنفی اصولوں نے سوات میں خواتین کے لئے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔ کیونکہ پشتون معاشرے میں زیادہ تر مرد باہر کے کام اور نوکری کرتے ہیں اور خواتین گھروں میں محصور اور گھر کے کام کاج اور بچوں کا خیال رکھتی ہے۔
سوات کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف اینڈ ہیومن رائٹس کے دفتر سے حاصل کی گئیں معلومات کے مطابق سال 2022ء کے تباہ کن سیلاب میں ضلع سوات میں 39 افراد جاں بحق جبکہ سات افراد زخمی ہوئے تھے۔ ضلعی انتظامیہ کے معلومات کے مطابق سال 2022 کے سیلاب میں 74 گھر مکمل تباہ جبکہ 122 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا تھا اسی طرح 77 عشاریہ 32 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا جبکہ 51 ہوٹلز اور 32 رابطہ پل بھی سیلاب سے بہہ گئے تھیں۔
سوات میں موسمیاتی تبدیلیوں کیوجہ سے آنے والے آفات کے حوالے سے ایک غیر سرکاری تنظیم سی آر اے- نارتھ 2022 کے سیلاب کے بعد تباہ ہونے والے انفراسٹکچر کی بہالی اور کمیونیٹی کو آفات سے بچاؤ کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ کواڈینٹر حسیب جان نے کہا کہ سی آر اے- نارتھ نے سوات میں سیلاب آنے کے بعد تین اہم کام کیے جس میں انفراسٹرکچر کی بحالی کا تھا جو سیلاب سے متاثر ہو گئے تھے، دوسرا کمیونیٹی بیسڈ ڈزاسٹر ریسک مینیجمنٹ ورکشاپ اور تیسرا میڈیا پروگرام کا تھا جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کیوجہ سے آنے والے آفات، خطرات اور کمیونیٹی کو ان آفات سے بچانے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لئے تھیں۔
حسیب کے مطابق انفراسٹرکچر کی بحالی کے پراجیکٹ میں اب تک 6 سائٹس پر کام ہو رہا ہے جس میں 2 مکمل ہو گئے ہیں اور 4 پر ابھی کام جاری ہیں، جس میں واٹر چینلز، ایریگیشن چینلز، پروٹیشن والز وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کمیونیٹی ورکشاپ میں ہم نے اب تک 51 تک ورکشاپ منعقد کیں ہے جس میں 200 تک مقامی افراد کو ڈزاسٹر رسک ریڈکشن کے حوالے سے ٹریننگ سیشنز دیئے گئے ہے جس میں 100 تک کی تعداد مقامی خواتین کی بھی ہیں۔
سی آر اے کے مطابق تربیتی نشستوں میں بالخصوص خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کسی حادثے، سیلابی صورتحال اور دیگر قدرتی افات میں اپنے اپکو محفوظ کرسکیں۔
حسیب کے مطابق تیسرے مرحلے میں ہم نے میڈیا کے زریعے کمیونیٹی کو موسمیاتی تبدیلیوں کیوجہ سے آنے والے آفات خاص کر سیلاب کے حوالے سے آگاہی دی کہ سیلاب یا لینڈ سلائڈنگ کے دوران کونسے احتیاطی تدابیر اپنانے چاہیئے اور ایمرجنسی صورتحال میں کون سے سرکاری متعلقہ اداروں کے ساتھ فوری رابطہ کریں۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کہتے ہے کہ خیبرپختونخوا کے خواتین میں صلاحیت ہے وہ ہر قسم حالت کا مقابلہ کر سکتی ہے اگر ان کو سمجھایا جائے اور تھوڑا ماحول اور موقع دیا جائے۔
ماہرین کے مطابق ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلہ میں سات ہزار کے لگ بھگ بڑے گلیشئرز موجود ہیں جبکہ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے بے شمار گلیشئرز بھی ہیں، ایک اندازے کے مطابق سوات کے بالائی پہاڑی سلسلوں میں گلیئشرز کے تعداد 700 کے قریب بتائی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں اور گرمی کی شدت سے یہ گلیشئرز پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں سیلاب کے آنے اور برفانی تودوں کے گرنے اور لینڈ سلائڈنگ کے واقعات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان ميں محکمہ موسمیات کے ایک ریٹائرڈ چیف مٹرولوجسٹ ریاض خان کہتے ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان انتہائی موسمی تبدیلیوں کے زیر اثر ہے،ان کا کہنا تھا موسمی تبدیلی ایک مسلسل جاری عمل ہے جب تک اس کے روک تھام کے لئے کوئی بڑے اقدامات نہ اٹھائے جائے۔
انہوں نے کہا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر موسمی بارشوں کا ہونا، اور سیلاب بھی آتے ہے جو کہ ہر قسم جانی و مالی نقصان کے سبب بنتے ہے۔
ان کے مطابق لوگوں نے بھی ایسے علاقے گھیر لئے ہے جو کہ پانی کے قدرتی نالے ہے اور وہاں سے پانی کا گزر ہوتا تھا تو ایک طرف موسمیاتی تبدیلی اور دوسری طرف لوگوں کی لاپرواہی بھی مالی و جانی نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔