معلومات تک رسائی، اب قبائلی اضلاع کے عوام کا بھی حق ہے۔
آئین پاکستان میں 25ویں ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا ہے جس کے بعد سے خیبرپختونخوا میں نافد تمام قوانین کا اطلاق ان قبائلی اضلاع پر بھی ہوتا ہے۔
ان قوانین میں سے ایک قانون معلومات تک رسائی کا بھی ہے جس کے اب قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے معلومات یا دستاویزات حاصل کرسکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی شہزاد یوسف زئی نے اس حوالے سے بتایا کہ پہلے سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول یا سوالات پوچھنے کا حق صرف منتخب اراکین اسمبلی کو حاصل تھا۔ معلومات تک رسائی کے قانون سال 2013ء کے بعد سرکاری اداروں سے ان کی کارکردگی، اخراجات و دیگر معلومات اور دستاویزات کا حصول شہری کا حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ قانون کے تحت کسی بھی سرکاری ادارے سے معلومات کا حصول انتہائی آسان ہے۔ شہری سادہ کاغذ پر درکار معلومات کی تفصیل لکھ کر ادارے کے سربراہ کو جمع کرایں۔ قانون کے تحت سرکاری ادارے شہریوں کو 14 یوم میں معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔
لیکن اگر سرکاری اداروں کی جانب سے جواب موصول نہ ہوتو شہری خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کے پاس شکایت درج کراسکتے ہیں۔ انفارمیشن کمیشن 60 یوم میں شہریوں کی شکایات نمٹانے کا پابند ہے۔
یوسف زئی کے مطابق مذکورہ قانون کے تحت کسی بھی شہری کو نہ کسی سفارش کی ضرورت ہے اور نہ ہی معلومات کے حصول کی وجہ بتانے کے پابند ہیں۔
قبائلی اضلاع میں معلومات تک رسائی کا قانون نافد ہوچکا ہے تاہم عام شہری اس قانون کے اہمیت اور اس کے استعمال کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہیں۔
خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کے ترجمان سعید زادہ جہاں کہتے ہیں کہ شہری سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول کے لئے درخواست ای میل، فیکس، پوسٹ یا خود دفتر جاکر دے سکتے ہیں۔ سرکاری ادارے ذیادہ سے ذیادہ 20 یوم میں جواب دینے کے پابند ہیں۔ مقررہ مدت میں جواب نہ ملنے کی صورت میں شہری انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی کا قانون سرکاری اداروں میں شفافیت کے فروغ اور کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری بالخصوص قبائلی اضلاع کے عوام ان قوانین کو موثر طریقے سے استعمال کریں۔