رواں سال سوات میں غیرت کے نام پر 31 خواتین قتل، وجوہات کیا ہیں؟
خیبرپختونخوا کے علاقہ ضلع سوات میں رواں سال غیرت کے نام پر 31 خواتین کو قتل کیا جا چکا ہے، جبکہ پولیس کے مطابق ان کے پاس غیرت کے نام پر قتل کے 8 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم دی اویکننگ کے مطابق غیرت کے نام پر صرف خواتین کو قتل کیا جاتا ہے، ریاست کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
غیرت کے نام پر خواتین کے قتل
سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دی اویکننگ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 2023 میں 31 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
تنظیم کے سربراہ عرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دس سال سے سوات میں خواتین کے حقوق اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے کام کر رہے ہے اور ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔
بابک کے مطابق ان کے اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2018 سے 2022 تک غیرت کے نام پر 123 خواتین کو قتل کیا گیا جبکہ ان واقعات میں تین مردوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کی سب سے بڑی وجہ مقدمات میں لوگوں کو سزائیں نہ ملنا ہے۔
بابک نے الزام لگایا کہ غیرت کے نام پر قتل میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ان واقعات کو چھپاتے ہیں، اگر کسی خاتون کو قتل کیا جاتا ہے تو اس کے اہل خانہ یا رشتہ دار دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نے خودکشی کی ہے۔ اور ان کے مطابق دوسرا مسئلہ پولیس رپورٹ کا ہے جس میں صرف قتل کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور مقدمے میں غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ شامل نہیں کیا جاتا، کیونکہ ان کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے مقدمے میں استغاثہ کوئی ضمانت نہیں اس لئے پولیس خود کو کیس سے نکال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات میں جرگہ کرکے لڑکی کے خاندان کو راضی کیا جاتا ہے، کیس اور تمام واقعہ کو خاموشی سے ختم کر دیا جاتا ہے۔
پولیس کا موقف
سوات پولیس کے شعبہ تفتیش کے سربراہ ایس پی بادشاہ حضرت کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس غیرت کے نام پر قتل کے آٹھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان کے بقول وہ نہیں جانتے کہ غیرسرکاری تنظیم کس بنیاد پر ان ہلاکتوں کو غیرت کے نام پر قتل قرار دیتی ہے۔
پولیس افسر کے مطابق رواں سال 8 وارداتوں میں 13 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور صرف ایک مفرور ہے۔ پولیس مقدمہ درج کرتے وقت غیرت کے نام کی جرم کی دفعات کو شامل کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، پولیس اپنی تحقیقات اور مدعا علیہ کے الزامات کی بنیاد پر مقدمہ درج کر رہی ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کے وجوہات
غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سوات میں خواتین کی کونسل (جرگہ) کی سربراہ تبسم عدنان کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے کئی ایک وجوہات ہیں۔
تبسم عدنان کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی ایک وجہ لڑکیوں کی کم عمری میں اور نا پسندیدگی کی شادی ہے جو کہ بعد میں گھریلو جھگڑوں اور ناچاقی کی سبب بنتی ہے اور اخر کار عورت کی قتل پر تمام ہو جاتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ خواتین کے شوہر برسوں سے ملک سے باہر ہوتے ہیں سعودی عرب اور دیگر ممالک میں، عورت سے ان کے خواہشات یا حقوق کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا اس لئے خواتین کو ان کے تمام حقوق ملنے چاہیئے تاکہ اس قسم کے ناخوشگوار واقعے یا قتل کا سبب نہ بنے۔
ان کے مطابق سوات میں خواتین کے قتل کے کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں جان بوجھ کر خاتون کو کسی مقدمے میں پھنسایا گیا، اس کے گھر والوں نے اسے کسی دوسرے مرد کے ساتھ مل کر دشمنی یا کسی اور مقصد کے لیے قتل کیا اور الزام کسی اور پر لگایا، اور پھر اسی واقعے کو بنیاد بنا کر اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں کسی خاتون یا لڑکی کے موت کو خودکشی کا نام دیا جاتا ہے لیکن اگر بعد میں کوئی پولیس کو اطلاع دیتا ہے اور پھر لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے نکالتا ہے تو اس پر تشدد کے نشانات پائےجاتے ہیں۔ دراصل وہ خودکشی کا واقعہ نہیں ہوتا بلکہ قتل کرکے خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوات میں غیرت کے نام پر قتل کا یہ سلسلہ جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ خاندان والے اس طرح کے واقعات میں خود شامل ہوتے ہے اور بنائے گئے کلچر کے نام پر معاشرتی اقدار کیوجہ سے عام لوگ بھی اس مسلے کے اوپر اواز نہیں اٹھاتے۔
کارکنوں کے مطابق ان واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔اگر اس قسم کے واقعات میں پولیس کیجانب سے میرٹ پر تحقیقات ہوں اور ملزمان کو سزائیں ہوں تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہیں۔
دوسری جانب پولیس کے مطابق وہ قتل کے مقدمات کی تفتیش صحیح طریقے سے کر رہی ہے لیکن اکثر لوگ ایسے مقدمات کو ان سے چھپاتے ہیں، ایسے واقعات کو مختلف نام دیتے ہیں اور پھر گھریلو جرگوں میں ان معاملات کو حل کرتے ہیں اور پیسوں کے عوض خون معاف کر دیتے ہیں، اگر پولیس کو حقیقت معلوم ہو جائے تو وہ قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔