12سال گزر گئے غیرمسلم کمیونٹی کو کوٹے کے مطابق ملازمتیں نہ مل سکیں
" پاکستان کا سفید رنگ ہمارا مگر ۔۔۔کیا اچھی زندگی ہمارا حق نہیں"
وفاقی حکومت کی طرف سے غیر مسلموں کے لئے ملازمتوں میں مختص 5فیصدکوٹے کی منظوری کو 12سال گزر چکے ہیں ،اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی اس پر عمل درآمدنہیں ہو رہا بلکہ اس کوٹہ کو بڑی حد تک نظرانداز کیا گیا ہے اور ہزاروں غیر مسلم سرکاری دفاتر میں ملازمت سے محروم ہیں۔
مئی 2009 میں وفاقی کابینہ نے مرحوم وفاقی وزیر برائے اقلیتوں شہباز بھٹی کی تجویز کے بعد غیر مسلموں کے لئے ایک مقررہ نوکری کے کوٹے کی منظوری دی تھی۔تاہم اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کئی سال گزر جانے کے باوجود سرکاری محکموں اور وزارتوں میں غیر مسلم عملے کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔اور انہیں 5فیصد تو دور دو فیصد کے مطابق بھی نوکریاں نہیں دی جا تیں اس وقت دس ہزار کے قریب ملازمتیں موجود ہیں لیکن ان پر غیر مسلم کمیونٹی کی تعیناتی نہیں کی جا رہی ۔
اعداد و شمار کے مطابق نادرا کے ساتھ 29لاکھ غیر مسلم رجسٹرڈ ہیں لیکن غیر سرکاری اعدادوشمار 35 لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ غیر مسلم کمیونٹی کو ان کی تعلیم کے مطابق نوکری نہیں ملتی بلکہ انہیں گریڈ ایک سے 4تک محدود رکھا جا تا ہے بلکہ اگر کچھ خوش نصیب اپنی محنت کے بل بوتے پر گریڈ 9یا دس تک پہنچ بھی جا تے ہیں تو ان کی مزید پرموشن نہیں ہوتی اور 20یا 21گریڈ تو ان کے لئے خواب بن کر رہ جا تا ہے ۔ تقسیم برصغیر سے قبل غیر مسلم آبادی کی اکثریت صحت اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھی۔ تاہم1947 کے بعد ، غیر مسلموں کوصرف صفائی کے شعبے میں کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور آج شائد سینٹری ورکر کی نوکری صرف غیر مسلم کمیونٹی تک محدود کر دی گئی ہے ۔
حکومت کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑنے کے دعوئوں کے باوجود زمینی صورتحال ان وعدوں سے بالکل متصادم ہے۔ملازمتوں کے کوٹے پر عمل درآمد نہ ہو نے سے غیر مسلم کمیونٹیز کی معاشرتی ، قانونی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اقلیتوں کے ساتھ یہ رویہ صرف نوکریوں تک محدود نہیں بلکہ تعلیم اور دیگر شعبوں میں بھی صورتحال بہت ابتر ہے ۔ غیر مسلم پاکستانی فلاح و بہبود سے متعلق نامناسب قوانین اور پالیسیوں کی عدم دستیابی سے شدید متاثر ہیں۔
بلکہ اگر صرف مسیحی برادری کی بات کی جا ئے توصورتحال مزید ابتر نظر آتی ہے وفاقی وزارت شماریات کے حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کس طرح سے مسیحی برادری کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے قیام پاکستان کے چار سال بعد پہلی مردم شماری 1951میں ہو ئی جس کے سرکاری اعداد و شمار کچھ یوں ہیں مسلمان تین کروڑ نوائے ہزار تین سو بارہ ،کرسچئین چار لاکھ تیس ہزار سات سو چھ ،ہندوایک لاکھ ساٹھ ہزار چھ سو چونسٹھ۔۔اسی طرح دوسری مردم شماری جو عرصہ دس سال بعد 1961میں ہو ئی اس میں مسلمان تین کروڑ اٹھانوے لاکھ اٹھارہ ہزار نو سو اٹھاون ،کرسچئین پانچ لاکھ تراسی ہزار آٹھ سو چوراسی ،ہندو دولاکھ تین ہزار سات سو چورانوے ۔۔۔تیسری مردم شماری جو عرصہ گیارہ سال بعد 1972میں ہوئی اس میں چانک سے کرسچئین پانچ لاکھ سے کم ہو کر تین لاکھ پر آ گئے ،اس کے بعد چوتھی مردم شماری جو نو سال بعد 1981میں ہو تی ہے اس میں کرسچئین کی تعداد چار لاکھ تک پہنچتی ہے تو ہندو دو لاکھ سے بڑھ کر نو لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں ،مرم شماری میں اقلیتیوں کے ساتھ یہ رویہ ان کی تعلیم اور نوکریوں پر بھی اثرا نداز ہوا اور ان کے حقوق پر بھی ۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق پتا چلا کہ 5 فیصد کوٹے پر ہونے کے باوجودبورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے آفس میں 4500کے قریب سٹاف میں صرف دو خواتین سمیت 20غیر مسلم کام کرتے ہیں ان میں دو لوگ کمیپیوٹر سیکشن میں جبکہ باقی سینٹری ورکرز ہیں ۔اسی طرح اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان میں صرف آٹھ غیر مسلم ملازم ہیں،اسی طرح پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ میں 2011 سے کسی بھی غیر مسلم کی تقرری نہیں کی گئی ہے۔اسی طرح سروے آف پاکستان کے ادارے میں4700کے قریب سٹاف میں 25کے قریب غیر مسلم ہیں جن میں زیادہ تر سینٹری ورکرز ہیں ۔دستیاب دستاویزات اس طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود متعدد غیر مسلم علما کے عہدوں کے لئے منتخب نہیں ہوتے ہیں اور ان کی بجائے سینیٹری عملہ کے عہدے پر تعینات ہیں۔
مئی 2021میں ہولی فیملی ہسپتال میں مڈوائفری ٹریننگ کے ایڈمیشن ہوئیدستیاب سدتاویزات کے مطابق پہلے جارہی ہونے والے ایڈمیشن لسٹ کے مطابق 22خواتین میں سے ایک کرسچئین خاتون کی سلیکشن ہوئی ،انیسویں نمبر پر نیہا خالد مسیح کی سلیکشن ڈاکومنٹس سے ظاہر ہے لیکن دو دن بعد نوٹیفکیشن میں تبدیلی کرکے اس کرسچئین خاتون کی جگہ مسلم خاتون کو سلیکٹ کر لیا گیا ۔اور وجہ بتانا بھی گوارا نہ کی گئی ،اس قسم کے رویوں سے غیر مسلموں میں عدم تحفظ کا حساس بڑھ رہا ہے ۔حکومتوں کی طرف سے ایسے رویوں پر صرف خاموشی پائی جاتی ہے حالانکہ عدلیہ کا کردار اس حوالے سے کسی حد تک قابل ستائش رہا کہ انہوں نے غیر مسلموں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی بات بھی کی ہے ۔
2013 میں پشاور میں ایک چرچ پر خودکش حملے کے بعدسپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی ازخود نوٹس لیا تھا۔جس کے تحت 2014 میں ، سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے نفاذ سے متعلق اہم فیصلہ سنایا تھا ۔لیکن 6سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ، یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمی کو اپنے حکم پر عملدرآمد کے لئے ایک کمیشن قاکرنا پڑا تھا ۔ تین رکنی بینچ نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لئے ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جس میں ڈاکٹر سڈل کے علاوہ ثاقب جیلانی ، ڈاکٹر رومیش کمار اور ایک اضافی اٹارنی جنرل اس کے ممبرتھے۔ جسٹس جیلانی کی سربراہی میں بنچ نے اس معاملے میں 16 سماعتوں کے بعد اقلیتوں کے حقوق سے متعلق فیصلہ منظور کیا تھا۔اس آرڈر میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذہبی رواداری سے متعلق حکمت عملی تیار کرنے ، رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے کے نصاب میں نظر ثانی ، وفاقی اور صوبائی خدمات میں اقلیتوں کے لئے خصوصی کوٹہ ، نفرت انگیز تقریر کے خلاف کارروائی اور اقلیتوں کے لئے ایک قومی کونسل اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے ایک خصوصی فورس کی تشکیل دی جا ئے ۔
اگرچہ نصاب میں نظرثانی کے لئے ایک دو صوبائی حکومتوں نے اقدامات اٹھائے ہیں ، لیکن عدالتی حکم کو نافذ کرنے کے لئے اور کچھ نہیں کیا گیا ۔ حکومت سندھ نے اس کو پرائمری سطح پر نظر ثانی کی ہے جبکہ وسط اور میٹرک سطح کے نصاب کی اصلاح ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔ پنجاب نے صرف ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور خیبر پختونخوا نے بھی اس کی تشکیل نہیں کی ہیاسی فیصلے میں عدالت نے کوٹہ کے ریزرویشن کا حکم بھی دیا لیکن وفاقی یا صوبائی سطح پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے، آبادی میں اضافے کے لئے ایڈجسٹ کرنے کے لئے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں میں اضافہ ہوا ، لیکن غیر مسلموں کے لئے نشستیں جوں کے توں رہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ غیر مسلموں کو ٹکٹوں کی الاٹمنٹ کا طریقہ کار بھی غیر مسلوں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتا ۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتی نمائندوں کو ان کی برادریوں کے ذریعہ براہ راست منتخب نہیں کیا جاتا ، اور اس طرح ان مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرنے والے مذہبی برادریوںکی نمائندگی کرنے کی بجائے صرف اپنی پانی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنے لئے مزید اقتدار کی راہ ہمرا کرتے ہیں انہیں اپنی کمیونٹی کے مسائل سے زیادہ صرف اپنی سیٹ کی فکر لاحق رہتی ہے ۔ بیشتر مذہبی اقلیتی برادریوں کا نہ تو ان نمائندوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انھیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر اعتماد ہے۔2016 میں ، پنجاب کی حکومت نے صرف غیر مسلموں کو صفائی کی نوکریوں کے لئے بھرتی کرنے کی پالیسی کو ختم کردیا تھا۔ اس کے باوجود ، سرکاری اشتہارات میں صرف عیسائیوں کے لئے ایسی ملازمتیں صاف دکھائی جاتی ہیں،صرف پالیسی بنانے کی بجائے اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جا ئے تو صورتحال بہتری کی طرف جا سکتی ہے ۔
یہ تمام مسائل اپنی جگہ تاہم ، یہ بتانا ضروری ہے کہ مذہبی حقوق کو آگے بڑھانے میں کچھ مثبت پیشرفت ہوئی ہیں جو پورے پاکستانی معاشرے میں ترقی پذیر ہیں۔ جن معاملات کو پہلے متنازعہ سمجھا جاتا تھا اس پر بحث و مباحثہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر پارلیمنٹ اور معاشرے میں موجود خلا آہستہ آہستہ کھل رہی ہے۔ مختلف سرکاری اور نجی ادارے کچھ بڑے معاملات اٹھا رہے ہیں جن کی وجہ سے برادریوں میں مذہبی تنازعات پیدا ہوئے ہیں ، جیسے عام عوام کو متاثر کرنے کے لئے لاڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز ادب اور تقریروں پر پابندی لگائی گئی ۔
اسی طرحاگر اقلیتوں کے حقوق کے لئے قومی کونسل کے قیامعمل میں آجاتا ہے اور ملک بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں مناسب اور مذہبی لحاظ سے غیر متعصب نصاب تیار ہوتا ہے ،جاب میں کوٹہ سسٹم کی پابندی کیلئے حکومت فوری اقدامات اٹھاتی ہے اور جاب میں پراپر کوٹے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا تا ہے تو ناصرف مذہبی رواداری کو فروغ ملے گا بلکہاقلیتوں کو بھی ایک اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے کا موقع ملے گا اور وہ ملکی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کر سکیں گے ۔ ۔
سرکاری ادارون میں ہمیں پاکستانی نہیں بلکہ اقلیت گردانا جا تا ہے اور غیر مساوی سلوک روا رکھا جا تا ہے، بشپ عاد ل گل
بشپ عادل گل نے ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم پر بات کرتے ہو ئے کہا کہ مرحوم شہباز بھٹی کی کوششوں سے پیپلز پارٹی کے دور میں یہ کوٹہ سسٹم کی منظور ہو ئی اور 5فیصد کوٹہ ملازمتوں میں غیر مسلموں کے لئے مختص کیا گیا ،ہمارے لوگ نوکریوں کے لئے اپلائی کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ مساوی سلوک روا نہیں رکھا جا تا ،انہیں اقلیت سمجھ کر دیوار سے لگایا جا تا ہے ۔سرکاری اداروں اور وزارتوں میں بیٹھا سٹاف یہ نہیں چاہتا کہ غیر مسلم ان کی برابری کریں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر نوکری کریں اسلیے ان ملازمتوں پریا تو تعیناتی ہی نہیں ہوتی یا پھر غیر مسلم کمیونٹی کیلئے مختص ان نوکریوں پر مسلمانوں کو تعینات کر لیا جا تا ہے ۔ہمارے ہاں ایک مجموعی رویہ دیکھنے میں آ رہا کہ ہم غیر مسلم کو سینٹری ورکر یا نچلی نوکریوں پر تو برداشت کرتے ہیں لیکن بطور افسر اسے برداشت کرنے کو تیا نہیں ۔بشپ عادل گل نے کہا کہ ہماری کمیونٹی کے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں ،سرکاری اداروں میں سے ہر دارے میں ایک ایک دو دو غیر مسلم تعینات کئے جا تے ہیں اور انہیں اقلیت سمجھ کر ان سے ناروا سلوک بھی روا رکھا جا تا ہے ۔انہوں نے سرکاری ادارے اور ملازم کا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ عیسائی کمینٹی کا ایک فرد ایک سرکاری ادارے میں بطور اکائونٹنٹ کام کر رہا ہے اور اس سے اکائونٹس کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے کام بھی لئے جا تے ہیں اور ڈیوٹی کے بعد بھی اس سے کام کرایا جا تا ہے اور انکار کی صورت میں اسے باقاعدہ دھمکایا جا تا ہے ایسے میں اس کے پاس کوئی آپشن نہیں کہ وہ خاموشی سے سب کی بات مانیں ۔ایسے رویے ہر جگہ نہیں پاکستان ہمارا ملک ہے ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں لیکن کیا ہمیں پاکستانی سمجھا جا تا ہے یا پھر ہمیں صرف اقلیت گردانا کر ہم نے امتیازی سلوک روا رکھاجا تا ہے ۔بشپ عاد ل گل نے مزید کہا کہ پہلے تو سرکاری اداروں میں جاب نہیں ملتیں اور جنہیں مل جا تی ہیں انہیں باور کرایا جاتاہے کہ وہ کیسے اس ادرے میں آگیا ۔اسکے علاوہ انہوں نے کہا کہ جاب تو بعد کی بات ہمارے بچوں کے پاس تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔سرکاری سکولوں میں اگر داخلہ مل بھی جا ئے تو اساتذہ اور بچوں کا رویہ مناسب نہیں ہو تا ،اس کے ساتھ ہمارے اپنے مشنری سکول ہمارے بچوں کو اسلئے داخلہ نہیں دیتے کہ یہ فیس کہاں سے دیں گے تو ایسے میں ہم اپنے بچوں کو کیسے تعلیم دلوائیں ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں گے تو آگے نوکریوں کی بات آئے گی ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر اقلیتی سیٹوں پر منتخب نمائندے ہماری نمائندگی نہیں کرتے بلکہ صرف اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں عام کرسچئین کمیونٹی کے مسائل سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ۔
پارٹیوں کے منتخب نمائندے غیر مسلم کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتے ،نائلہ جے دیا ل (چئیر پرسن کرسچئین پروگریسو موومنٹ )
پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں بطور پاکستانی ووٹ کا حق نہیں ،بلکہ پارٹیوں کے منتخب نمائندے اقلیتی سیٹوں پر بٹھا دئیے جا تے ہیں جو اپنی پانی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں ہمارے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں وہ کیسے ہمارے مسائل کو ایوان اقتدار تک پہنچائیں گے ،اگر ہمارے اصل اور منتخب نمائندے ووٹ کے ذریعے اسمبلی تک پہنچیں تو وہ ہمارے مسائل کا حل بھی سوچیں ،صرف کوٹہ مختص ہو جا نا ہمارے مسائل کا حل نہیں ،ہمیں اقلیت کہہ کہہ کر اقلیت بنا دیا گیا ہے ہمارے بچون کے پاس نہ تو پڑھائی کے مواقع ہیں نہ ہمارے نوجوانوں کے لئے نوکریاں ۔ہم اپنے مسائل کی شنوائی کہاں سے کرائیں ،ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے خود کوشاں رہتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہماری جدوجہد رنگ لائے گی اور ہمیں ہمارے حقوق ملیں گے ۔