ضلع ملاکنڈ کے کسی تھانے میں خاتون اہلکار تعینات نہیں
تین بچوں کی ماں نفیسہ (فرضی نام ) کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے جسے خاوند نے اس بناء پر طلاق دی تھی کہ وہ اسے نشہ کرنے کےلئے پیسے نہیں دے پا رہی تھی۔ ۔
نفیسہ کہتی ہیں کہ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں،جس کے عوض انہیں کھانا اور مہینے کے کچھ پیسے ملتے ہیں۔ کام کے عوض ملنے والی اجرت میرا شوہر زور زبر دستی مجھ سے لیتا تھا۔لیکن میں کس کے پاس جاتی؟ طلاق کے بعد تھانے گئی تووہاں موجود پولیس اہلکاروں نے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے تو ہم لوگ کیا کریں؟ نفیسہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مسئلہ میں کسی خاتون پولیس اہلکار کے پاس لیکر جاتی تو یقینا اس کا ردعمل مرد اہلکاروں کی نبسبت مختلف ہوتا۔ وہ کہتی ہیں کہ مردوں کی نسبت خواتین اہلکاروں کو بات سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ مرد اہلکار عورت کے مسائل کو نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ انہیں حل کرنے میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کئی لوگوں سے سفارشیں کرانے کے بعد بھی پولیس نے میری کسی قسم کی مدد نہیں کی۔
معلوما ت تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع ملاکنڈ میں سال 2014 سے 2019 تک 92 ایف آئی آرز خواتین سے متعلق درج کی گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد تھانہ درگئی کی ہے جہاں 30 ایف آئی آر درج ہوئیں۔
ملاکنڈ لیویز کے صوبیدار میجر امیرزمان کے مطابق اگر خواتین کیلئے الگ تھانہ یا تھانے ہوتے جس میں خصوصاَ خواتین اہلکار ہوتیں تو شاید ایف آئی آرز کی تعداد مردوں کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "یہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ نہ لیویز تھانوں میں کال کرسکتی ہیں نہ مرد اہلکاروں کے سامنے اپنا مسئلہ کھل کر بیان کرسکتی ہے”
صوبیدار میجر امیرزمان کے مطابق اس وقت ملاکنڈ لیویز میں خواتین اہلکاروں کی تعداد صرف پانچ ہیں جو بٹ خیلہ، درگئی کورٹ، درگئی چیک پوسٹ اور دو لیوی لائن پر صرف سرچنگ کی ڈیوٹی پر مامور ہیں، یعنی لیویز تھانوں میں پورے ضلع میں اس وقت کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع ملاکنڈ میں14 تھانے،6 چوکیاں جبکہ 20 چیک پوسٹیں ہیں جہاں کم ازکم 40 خواتین اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع ملاکنڈ میں سال 2014 سے 2019 تک خواتین سے متعلق 92 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق اگر ممکن ہو تو ضلع ملاکنڈ کی دونوں تحصیلوں یعنی درگئی اور بٹ خیلہ میں خواتین کیلئے الگ الگ تھانے بنائے جائیں تاکہ خواتین کھل کر اپنے مسائل مقامی انتظامیہ اور لیویز تک پہنچا سکیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کی کل آبادی 7 لاکھ 20 ہزار ہے جن میں 48 فیصد خواتین ہیں۔ پورے ضلع میں پولیس کے 14 تھانے اور 6 چوکیاں قائم ہیں۔ تاہم کسی بھی تھانے میں پولیس اہلکار تعینات نہیں ہے۔
ضلع ملاکنڈ میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سائرہ بانو کہتی ہیں کہ ضلع بھر کی خواتین میں قانون کی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں تک کہ تھانوں میں موجود اہلکاروں کو بھی معلوم نہیں کہ خواتین سے متعلق صوبے میں کونسے قوانین رائج ہیں اور خواتین پر کن دفعات کے تحت ایف آئی آرز درج کی جاسکتی ہیں۔
سائرہ بانو کہتی ہیں”یہ کیسے ممکن ہے کہ سات لاکھ آبادی والے ضلع میں خواتین پر تشدد کے واقعات سامنے نہ آئیں، تشدد ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے لیکن کیسزرپورٹ نہیں ہوتے، 99 فیصد خواتین کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں پر تھانہ کہاں واقع ہے اور تھانوں میں کیا "کچھ ہوسکتا ہے
سائرہ بانو کے مطابق سال 2017 میں یو این ڈی پی کے تعاون سے جب ماڈل تھانے بنائے جارہے تھے تو ملاکنڈ انتظامیہ سے اس بارے میں بات بھی ہوئی تھی کہ ان تھانوں میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بھرتی کیا جائیگا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک بھرتی کا عمل بھی شروع نہیں ہوا اور نہ ہی زیر غور ہے۔
ضلع ملاکنڈ میں خواتین کے بڑے مسائل خودکشی، گھر سے بھاگنے کے بعد لاپتہ ہونا، گھریلو تشدد اور کام کی جگہوں پر ہراسانی شامل ہیں۔
تھانوں میں موجود مرد اہلکاروں کی تربیت بارے ملاکنڈ لیویز کے تفتیشی انچارج صوبیدار میجر امیرزمان کہتے ہیں کہ یہاں پر خواتین کی تفتیش کے حوالے سے کوئی تربیت نہیں دی جاتی حالانکہ ضلع ملاکنڈ میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے
ملاکنڈ میں خواتین کو درپیش مسائل کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں ایڈووکیٹ آمنہ کہتی ہیں کہ خواتین کے متعلق بہت کیسز آتے ہیں، خواتین شعور کی کمی کی وجہ سے بغیر ایف آئی آر درج کرائے ہمارے پاس آجاتی ہیں۔ پھر انہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ قانون میں ان کیلئے کہاں کہاں تحفظ موجود ہے۔
ضلع ملاکنڈ میں14 تھانے،6 چوکیاں جبکہ 20 چیک پوسٹیں ہیں جہاں کم ازکم 40 خواتین اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے۔حکام
لیویز کے پاس خواتین کے زیادہ تر کیسز کریمنل نوعیت کے ہوتے ہیں، تھانوں میں خاتون اہلکار نہ ہونے کی وجہ سے جنسی ہراسگی اور ریپ کے کیسز میں بھی مرد اہلکار ہی تفتیش کریں گے۔
ایڈووکیٹ آمنہ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے پاس خواتین سے متعلق کوئی کیس نہیں آیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوات ماڈل تھانہ میں جس طرح خواتین کیلئے الگ جگہ اور خاتون اہلکار موجود ہے، اسی طرح اگر ملاکنڈ میں بھی بنا دیئے جائیں تو خواتین سے متعلق کیسز کی نوعیت بدل جائیگی۔
نفسیاتی طور پر ایک خاتون اپنے متعلق کیسز کو کس طرح بیان کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں نفسیات کے استاد توصیف خان کہتے ہیں کہ جس طرح مردوں کی ضروریات ہوتی ہیں، ہمارے معاشرے میں مرد عدالت، ہسپتال اور پولیس سٹیشن جاسکتا ہے مگر خواتین نہیں جا سکتیں۔ اسی ذہنیت کے ساتھ ہم نے بچوں کی بھی تربیت کی ہوئی ہے کہ معاشرے میں خواتین کیلئے کچھ پابندیاں ہیں۔
میرے خیال میں برا وقت سب پر آتا ہے اور وقت جنس کو نہیں دیکھتا، جب کسی خاتون پر برا وقت آتا ہے تو کیا مرد و خواتین کی تربیت ایک جیسی ہوتی ہے؟ توصیف خان کے مطابق ان کے پاس کونسلنگ کیلئے بے شمار لوگ آتے ہیں لیکن کسی خاتون نے کبھی بھی اپنا مسئلہ100فیصد بیان نہیں کیا۔
اسلئے مجبوراً انہیں کسی خاتون نفسیاتی ماہر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ایسا ممکن ہی نہیں کہ موجودہ معاشرتی تربیت کے بعد ایک خاتون اپنے حق کیلئے پولیس سٹیشن جائے۔ اگر کسی پولیس سٹیشن میں کوئی خاتون اہلکار ہی نہیں تو ایک خاتون مرد اہلکار کے سامنے مسئلہ کیسے بیان کرے گی، یہی وجہ ہے کہ خواتین یہاں پر پولیس سٹیشن جانے سے گریز کرتی ہیں۔
حکام کے مطابق 2017 میں یو این ڈی پی کے تعاون سے پورے صوبے میں 62 ماڈل تھانے تعمیر کیے گئے جن میں بہترین خدمات اور سہولیات کے ساتھ ساتھ عمارت، تزئین و آرائش اور تربیت یافتہ عملے کے علاوہ خواتین کیلئے خصوصی ڈسٹرکٹ یا لیڈیز رپورٹنگ سنٹر کا قیام شامل تھا لیکن ضلع ملاکنڈ میں چار ماڈل تھانوں میں خواتین کیلئے ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔
خواتین لیویز تھانوں میں کال کرسکتی ہیں نہ مرد اہلکاروں کے سامنے اپنا مسئلہ کھل کر بیان کرسکتی ہے۔ ایک خاتون مرد اہلکار کے سامنے اپنا مسئلہ کیسے من و عن بیان کرے گی؟
سابقہ ایم پی اے نگینہ خان جس کا تعلق ضلع ملاکنڈ ہے اور سال 2013 سے 2018 تک پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایم پی اے رہی یے وہ کہتی ہیں کہ سال 2013 میں صوبائی حکومت کی جانب سے جو کمیٹی بنی تھی اس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ خواتین اہلکاروں کو فوراً تھانوں میں تعینات کیا جائے۔اگر ہر تھانے میں 8 نہیں تو کم از کم چھ چھ خواتین اہکار تعینات کی جائیں۔کیونکہ خواتین کے ایسے بہت سی مسائل ہیں جو مرد اہلکاروں کو بتا نہیں سکتیں۔اب مسئلہ بتانے کے لائق ہے ہی نہیں تو کس طرح ان کو مرد اہلکار حل کرینگے؟اب بھی موقع ملے گا تو ہر فورم پر بات کرونگی کہ ملاکنڈ کے تھانوں میں خواتین اہلکاروں کو تعینات کی جائے
جب ایم این اے جنید اکبر سے خواتین اہلکار کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرف تو میرا کبھی خیال ہی نہیں گیا۔ کچھ دن پہلے کمانڈنٹ لیوی نے ڈیمانڈ ڈرافٹ تیار کیا تھا کہ اس وقت ضلع ملاکنڈ میں 550 لیوی اہلکاروں کی ضرورت ییں۔وہ ہم نے وزیر اعلیٰ کے پاس بھیجنا ہیں۔اگر وہ فائنل نہ ہوا ہو تو ہم اس میں خواتین اہلکاروں کی ڈیمانڈ ضرور ڈالیں گے۔ایم این اے جنید اکبر کا مذید کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہر تھانے میں خواتین کی تعیناتی سے بہتر ہے کہ خواتین کیلئے الگ تھانے ہوں۔کم سے کم دو یا اگر دو بھی نہ ہوں تو ایک تو لازماً ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ضلع ملاکنڈ میں خواتین کی تعلیم کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور اس لئے خواتین چاہتی ہے کہ اپنے مسائل حل کرنے کیلئے اداروں کے پاس جائے اور خواتین کیلئے جاب کے مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے اس لئے اگر لیوی میں خواتیں اہلکار کو بھرتی کی جائے تو بہت سی خواتین کو روزگار مل سکتا ہے