انسانی حقوق

مسیحی برادری کا زریعہِ معاش خطرے میں: زرخیز زمینوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات

وجیہہ اسلم

یہ کہانی ایک ایسے خاندان کی ہے جن کے روزی روٹی قیام پاکستان سے قبل زمینداری کے شعبے سے وابستہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اس خاندان نے ضلع ملتان کے علاقے قاسم بیلہ میں سکونت اختیار کی۔ مذہبی لحاظ سے اِن کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ حکومت سے زمین الاٹمنٹ کروا کے یہ کاشتکاری کے زریعے اپنا سلسلہ روزگار چلاتے آ رہے ہیں۔

منور شہزاد کے خاندان کا شُمار قیام پاکستان سے قبل ضلع لودھراں کے علاقے جلال پور کےزمیندار گھرانوں میں ہوتا تھا۔ ان کا گھرانہ کئی نسلوں سے زمینداری سے ہی منسلک رہا اور انہوں نے اپنی زندگی کھیتی باڑی میں گزاری ہے۔

حکومت نے اُس وقت بہت سے لوگوں کو زمین دی تاکہ وہ کاشتکاری کر سکیں۔ منور شہزاد کے خاندان نے بھی حکومت سے زمین حاصل کی اور ملتان کے علاقے، دنیاپور چک نمبر 26 میں آباد ہو گئے۔منور شہزاد کے مطابق دنیا پور میں 100 مربع زمین مسیحی برادری کے لیے مختص کی گئی ہے۔ یہ زمین حکومت نے مسیحی برادری کو دی تھی تاکہ وہ کاشتکاری کر سکیں ۔انہوں نے بتایا کہ مسیحی برادری نے اس زمین پر گندم اور کپاس کی کاشت شروع کی اور بہت محنت سے کام کیا۔ برادری سے وابستہ افراد نے اپنی زندگیوں میں کئی مشکلات کا سامنا کیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اوراپنے کام میں مگن رہے۔

منور شہزاد کہتے ہیں کہ ”موسمیاتی تبدیلیوں کا کسانوں کے زریعہ معاش پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ دنیا پور میں 400 کے قریب گھرانے کھیتی باڑی پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ تبدیلیاں بہت مشکل کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھ لیں کہ پنجاب میں بارش کے بغیر ہی سردی شروع ہو گئی ہے اور موسم غیرمعمولی طور پر سرد یا گرم نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلیوں کی واضح علامت ہے۔ موسم میں اس طرح کی غیرمعمولی تبدیلیاں فصلوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہیں‘‘۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے انازہ ہوتا ئے کہ دنیا پور میں بہت سے معاملات میں، مسیحی برادری کے پاس اختیارات محدود ہیں۔اگرچہ اکثریتی مسیحی برادری زمینداری کے کام سے ہی وابستہ ہے لیکن جن کے پاس خود کی زمین نہیں ہوتی تو وہ ٹھیکے پر زمین لے کر گزر بسر کا بندوبست کرتا ہے۔

جاوید اقبال بھی مسیحی برداری سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا پور کے رہائشی ہیں ۔انکے خاندان کی دوسری نسل ہے جو کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔جاوید اقبال کے4 بچے ہیں جن میں 3بیٹیاں اور 1بیٹا ہے۔ فیملی کے تمام افراد کھیتوں میں اپنے والد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ جاوید نے اپنے علاقے کے بڑے زمیندار سے 2لاکھ25ہزار فی ایکٹر سالہ زمیں ٹھیکے پر لی تھی۔ زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر اس نے موسم سرما کی سبزیاں ،کدو،بیگن کی کاشت کی مگر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے نہ پودے پر پھول بنے اور جن پر پھول بنے وہ پھل پک نہ سکا۔ اقبال کا کہنا ہے یہ اس کے ساتھ پہلی بار ہوا ہے۔ ”میں قرضے کے بوجھ تلے آ گیا ہوں۔ میرا خاندان سالوں سے انہی زمینوں ہر کھیتی باڑی کرتا رہا ہے،مگر کبھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی تھی‘‘۔

ایشیا پیسیفک کلائمٹ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث آئندہ برسوں میں پاکستان کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان کو 2070 تک جی ڈی پی میں 21 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اور سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے میں ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو 2070 تک چاول، مکئی کی پیداوار میں تقریبا 40 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔سویا بین کی پیداوار میں 20 فیصد اور گندم کی پیداوار 45 فیصد کم ہوسکتی ہے۔ مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد کو 20 فیصد پیداوار میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں درختوں کی پیداوار میں 10فیصد تک کمی کا امکان ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2024 میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191ممالک میں سے 10ویں نمبر پر ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔

رواں سال ویسے ہی پنجاب کا کسان بہت پریشان ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ گندم کی کاشتکاری ہوتی ہے مگر اس سال گندم کے ریٹس کے اُتار چڑھاؤ نے کسانوں کو بہت متاثر کیا ہے جس میں بعض کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ گندم کی کاشتکاری نہیں کریں گے۔منور شہزاد کے زریعہ معاش کو بھی یہی خطرہ درپیش ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ”اس سال گندم کے ریٹس کی وجہ سے یہاں کے تمام زمینداروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ فصل تو بہت اچھی ہوئی مگر حکومت نے گندم کی خرید کا ریٹ بہت کم دیا۔اس سے جہاں بڑے زمینداروں کو نقصان ہوا وہاں جو لوگ ہمارے کھیتوں میں کام کرتے ہیں گندم کی کٹائی سے لے کر گوداموں تک پہنچانا، انہیں سب سے زیادہ نقصان ہوا“۔منور شہزاد کہتے ہیں کہ ان کی فصلوں پہ زیادہ تر مسیحی لوگ ہی کام کرتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی مزدوری تو لیتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ کھیتوں سے گندم اکٹھی کر کے فروخت کرتے ہیں ۔گندم کی کم قمیت سے انہیں بھی نقصان ہوا ہے۔ زرعی پالیسیوں کا براہ راست اثر کسانوں اور مزدوروں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشی مسائل صرف ایک طبقے کو نہیں بلکہ پوری معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔

نومبر 2024 اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کے زیر انتظام آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کانفرنس آف پارٹیز ’’ کوپ 29 ‘‘ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے شرکت کی۔اس کوپ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقامی حل تلاش کر کے اس پر عمل درآمد کے لیے علاقائی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں شامل تھے۔موسمیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کلائمٹ فنانسنگ ناگزیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جو کہ زیادہ تر کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں، انہیں ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹ سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وعدے عملی طور پر پورے نہیں ہو رہے۔

دنیا پور سے ہی تعلق رکھنے والی آسیہ کا خاندان بھی کئی سالوں سے کاشتکاری سے وابستہ ہے۔مگر ان کا شمارچھوٹے کاشتکاروں میں ہوتا ہے۔آسیہ بتاتی ہیں کہ وہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر موسمی سبزیوں کی کاشتکاری کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ان کے مطابق موسمی سبزیاں کاشت کرنےکا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جب فصل تیار ہو تو منڈی میں روز کےروز دام میں وہ فروخت ہو جاتی ہے ۔”ہمارے پاس نہ تو بڑے گھر ہیں اور نہ ہی گودام جو ہم گندم اور کپاس جیسی بڑی فصلوں کی کاشتکاری کر سکیں“۔

اصل میں آسیہ پریشان کیوں ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا خاندان چونکہ موسمی سبزیوں کی کاشتکاری سے وابستہ ہے تو اب موسمی تبدیلیوں کے باعث ہم پریشان بھی ہیں۔ہم نے ستمبر کے آخری میں ٹماٹر، کھیرے، گوبھی اور پالک، اگائی تھیں۔جن سبزیوں کو بیچ موسم ِسرما کے حساب سے یہ پودے لگائے تھے وہی موسم گرم ہونے کی وجہ زیادہ پیدواری کا سبب نہ بن سکے۔فصل تیار ہونے کےبعد وزن کے حساب سے فروخت ہوتی ہے مگر موسمی تبدیلی کی وجہ سے ایک تو فصل زیادہ نہیں ہوئی دوسرا سبزیوں کے وزن پر بھی اثر پڑا ہے۔راجہ جہانگیرسیکرٹری موحولیات پنجاب کا کہنا ہے کہ ”اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب کا کسان اس وقت موسمی تبدیلی کی وجہ بہت پریشان ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی آگاہی دیں تاکہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ کاشتکاری کے طریقوں میں جدت لاسکیں۔موسیمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت کو اب کسانوں کو آگاہی کے لئے ہر فصل کی بیجوائی سے پہلے امدادی کمیپوں میں آگاہی فراہم کرنی چاہیے‘‘۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک خطرات کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اِن کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ اِس پیشے سے وابستہ افرادی قوت ،موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہوسکے۔

Back to top button