قانون سازی کے باوجود سرکاری اداروں سے معلومات کا حصول ایک چیلنج ہے، ندیم تنولی
آئین پاکستان کا آرٹیکل ۱۹ اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے سے معلومات حاصل کرلیتا ہے، شہریوں کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئےوفاق اور صوبوں نے قانون سازی بھی کی ہے۔ ان قوانین پر عمل درآمد کےلئے خیبرپختونخوا ، پنجاب، سندھ اور اسلام آباد میں انفارمیشن کمیشن بھی قائم کئے گئے، ان کمیشنز کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کو معلومات کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن اس سب کے باوجود شہریوں کےلئےسرکاری محکموں سے معلومات کا حصول کوئی طویل صبر،کمیشن سے مسلسل رابطہ اور قانون کی سمجھ بوجھ چاہئے۔
ایسا کہنا ہےحال ہی میں آر ٹی آئی چیمین کا ایوارڈ حاصل کرنے والے ندیم تنولی کا جنھیں 45 سے زائد سماجی اداروں کی تنظیم سی آر ٹی آئی کی جانب سے سماجی مسائل اجاگر کرنے کےلئے معلومات تک رسائی کے قوانین کے بہترین استعمال پرمعلومات تک رسائی کے عالمی دن 28 ستمبر کوکراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں ایوارڈ سے نواز ا ہے۔
معلومات تک رسائی کے قوانین پر کس حد تک عمل درآمد ہورہا ہے اس حوالے سے ندیم تنولی نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد بھی ایسا ہی ہے جتنا باقی قوانین پر عمل ہوتا ہے، پاکستان میں مجموعی طور پر قوانین پر عمل درآمدایک سنگین مسلہ ہے اور یہی حال ان قوانین کا بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے ادارے معلومات تک رسائی کے قوانین سے ہی لاعلم ہوتے ہیں جب انہیں معلومات تک رسائی کی درخواست دی جاتی ہےتو انہیں بتانا بھی پڑتا ہے کہ قانون کے تحت معلومات کے رسائی ہر شہری کا حق ہے، لیکن اس کے باوجود بھی سرکاری ادارے جواب نہیں دیتے ، اگر کسی سرکاری محکمے کا کبھی کسی انفارمیشن کمیشن سے واسطہ پڑا ہوتو وہ جواب میں لکھ کر بھیج دیتا ہے کہ طلب کی گئی معلومات ان قوانین (یعنی معلومات تک رسائی کے قوانین) سے مستثنی ہیں۔میرے خیال میں 90 فیصدشہریوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے، اس لئے وہ ہمت ہار جاتے ہیں،یوں سرکاری محکموں کا یہ فارمولہ کارآمد ثابت ہورہا ہے۔
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کےلئے انہوں نے بتایا کہ تقریبا دو سال قبل میں نے محکمہ اینٹی کرپشن راولپنڈی سےپوچھا کہ سرکاری محکموں کے افسران کےخلاف درج ہونے والے مقدمات، ان سے کی گئی ریکوری اور کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والے سرکاری افسران کی فہرست فراہم کریں، حسب معلومات محکمے کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے پنجاب انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کرادی، کئی ماہ تک کمیشن میں شکایت زیرالتوا رہی، لیکن مسلسل رابطہ کرنے پربالاآخر کمیشن نے فیصلہ جاری کیا کہ محکمہ اینٹی کرپشن خود ہی یہ طے کرے کہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت یہ معلومات عام کرنی چاہئیں کہ نہیں، میڈیا کی جانب سے اس فیصلے پر تنقید کی گئی تو کمیشن نےایک اور فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے جاری ہونے والے فیصلہ (انٹیرم آرڈر) حتمی فیصلہ نہیں تھا، کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ پنجاب کے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ معلومات حاصل کرنا شہری کا حق ہے لیکن تین یا چار سال کی معلومات کی بجائے ایک سال کی معلومات شہری کو فراہم کی جائیں، وہ دن اور آج کا دن نہ ہی اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور نہ ہی مجھے وہ معلومات فراہم کی گیں۔
انفارمیشن کمیشنز کی کارکردگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ندیم تنولی کا کہنا تھا کہ انفارمیشن کمیشن کی تاریخ رہی ہے کہ شروع میں بہتر کام کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ بھی روایتی سرکاری ادارہ بن جاتے ہیں ، پنجاب انفارمیشن کمیشن اپنے تمام معاملات فون اور وٹس ایپ پر چلاتا ہے، درخواست گزار کو کسی نوٹس کی کاپی یا آرڈر نہیں بھیجا جاتا جب تک درخواست گزار متعدد بار ان کے دفتر فون کرکے رابطہ نہ کرلے.
خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کے پاس بھی شکایات متعدد سال تک زیرالتوا رہتی ہیں، سندھ انفارمیشن کمیشن نے تو کسی شکایت پر کوئی کاروائی کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن اس معاملے میں باقیوں سے بہتر ہے، شکایت پر ہونے والی کاروائی کے حوالے سے شہری کو آگاہ تو کیا جاتا ہے لیکن ان کے فیصلوں پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم پاکستان انفارمیشن کمیشن نے تفصیلی فیصلے جاری کرنے کی جو روایت قائم کی ہے وہ خوش آئندہ ہے، فیصلہ پڑھنے کے بعد آپ کو پورے کیس کی سمجھ آجاتی ہے، باقی کسی کمیشن کی جانب سے اس طرح تفصیلی فیصلے جاری نہیں کئے جاتے۔