پشاور کے نواحی علاقے داودزئی سے تعلق رکھنے والےن بائیس سالہ قیوم گزشتہ چھ سال سے درزی کے کام سے وابستہ ہے۔ وہ پشاور صدر میں درزی کی دوکان پر کام کرتا تھے تاہم رواں سال مارچ میں کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے لاک ڈاون لگانے کا فیصلہ کیا تو دوکان بھی بند ہوگئی جس سے وہ اور اسکے ساتھی کاریگر بے روزگار ہوگئے۔
ایک ماہ تک بے روزگار رہنے کے بعد انہوں نے رنگ روڈ پر کچھ دیگر دوستوں سے مل کر حفاظتی کیٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔ قیوم کہتے ہیں کہ گھر میں فاقے پڑنے لگے تو ذہن میں خیال آیا کہ کچھ ایسا کروں کہ لاک ڈاون کے ساتھ ساتھ کام بھی چلے اور کچھ پیسے آئے۔ پہلے سوچا کھانا پکانے کا کام شروع کروں پھر سوچا درزی کا کام سب سے بہتر ہے تجربہ بھی اور لوگوں کی ضرورت بھی۔
خیبر پختونخوا میں مارچ میں کرونا وائرس کے کیسز بڑھنے لگے تو اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبعی عملے کیلئے پی پی ای کیٹس کا بحران پیدا ہوگیا تھا۔ اس وقت تک ڈاکٹرز باہر ممالک سے برامد شدہ حفاظتی سوٹس استعمال کرتے تھے۔ تاہم لاک ڈاون کے باعث فضائی سفر بند ہونے کے باعث انکی ترسیل بھی رک گئی۔فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بننے والی پی پی ای کیٹس بھی اسپتالوں کی ضرورت کو پورا نہ کرسکی۔
قیوم کے مطابق بڑے کارخانوں میں بننے والے ایک حفاظتی سوٹ کی قیمت سات سو روپی تھی تاہم بعد میں بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ جبکہ مقامی سطح پر بننے والی ایک حفاظتی سوٹ چار سو سے پانچ سو روپے مل رہی ہے۔ یہ سوٹ برامد شدہ سوٹس سے اسلئے بہتر ہیں کہ کئی ہفتوں تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ دھونے یا سپرے کرنے سے خراب نہیں ہوتے۔ جبکہ باقی سوٹس دوبارہ قابل استعمال نہیں ہوتے۔ "ہم پیراشوٹ کپڑا استعمال کرتےہیں یہ کپڑا پاکستان میں کہی بھی آسانی سے مل سکتا ہے”۔
انکا کہنا ہے کہ یہ کام شلوار قمیص بنانے سے اسان ہے۔ اس میں مشقت کم اور پیسہ زیادہ ہے۔ شلوار قمیص بنانے میں جتنا وقت لگتا ہے اس ٹائم ایک درزی دس حفاظتی سوٹس بناسکتا ہے۔” پہلے مجھے دن بھر کام کرنے کے بعد ایک ہزار روپے ملتے تھے اب جو یہ کام شروع کیا ہے تو پندرہ سو سے دو ہزار بچت ہوتے ہیں۔ قیوم کے مطابق مارچ سے اکتوبر تک انہوں نے پانچ ہزار سے زائد حفاظتی سوٹس بیچے ہیں۔ یہ سوٹس مختلف این جی اوز اور امدادی اداروں نے ان سے لے کر اسپتالوں میں تقسیم کئے ہیں۔ وہ مستقبل میں یہ کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
کرونا وبا پھیلنے کے بعد ابتدائی طور پر کورونا سے بچاو کے لئے استعمال ہونے والے آلات مقامی طور پر تیار کرنا مشکل دیکھائی دے رہا تھا تاہم جب ماسک، سنیٹائزر اور پی پی ایز کی قلت پیدا ہونے کے بعد عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں نے یہ ضروری چیزیں مقامی سطع پر بنانا شروع کیا۔ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخو ا نے مختف ٹرینگ سنٹرز میں پی پی ای کیٹس، ماسک اور سنیٹائرز بنانے پر کام شروع کیا۔ ان ٹرینگ سنٹرز میں زیر تربیت خواتین اور مردوں سے مجموعی طور پر 62 ہزار ماسک، چار ہزار حفاظتی کیسٹس، اور بڑی مقدار میں ہینڈ سنیٹائزر تیار کئے۔ جو مختلف اسپتالوں، امدادی اداروں اور فرنٹ لائین پر کام کرنے والے لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔
ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضوان کنڈی کہتے ہیں کہ انہوں نے کرونا وباء کے دوران خود بھی مقامی طور پر بننے والے حفاظتی سوٹس استعمال کئے ہیں۔ یہ سوٹس چار سو تک ملتے ہیں لیکن اس میں کمال یہ ہے کہ آپ اسے دھوکر یا اس پر کلورین سپرے کرکے دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں۔ بازار میں ملنے والے حفاظتی سوٹس مہنگے بھی ہیں اور دوبارہ قابل استعمال نہیں ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹرز عام طور پر بھی حفاظتی سوٹس استعمال کرتے تھے تاہم وبا کے دوران اسکے استعمال بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ اب اسکا استعمال صرف ڈاکٹر تک محدود نہیں بلکہ اسپتال میں کام کرنے والے ہر بندے کیلئے یہ پہننا لازمی ہوگیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے اسپتالوں اور فرنٹ لائین پر کام کرنے والوں کو حفاظتی کیٹس فراہم کرنے کی ذمہ داری پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ آتھارٹی کی ہے۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم اے نے صوبے کے 49 چھوٹے بڑے اسپتالوں کو 43 ہزار فیس ماسکس،سات ہزار حفاظتی سوٹس اور دیگر اشیاء تقسیم کئے ہیں۔ تاہم یہ حفاظتی سامان مقامی طور پر تیار نہیں ہوئے بلکہ چین اور دیگر ممالک سے منگوائے گئے ہیں۔
قیوم کے ساتھ کام کرنے والا کاریگر اشرف الدین اپنے کام سے کافی مطمئین ہے وہ کہتے ہیں کہ ڈینز ٹریڈ سنٹر وہ ایک درزی کے پاس شاگرد کے طور پر کام کرتے تھے۔ کرونا کے باعث بے روزگار ہوا تو یہ کام اپنانا پڑا۔ کپڑے بنانے سے کام بہت زیادہ اسان ہے اور اسکی مانگ بھی زیادہ ہے۔ ” ارادہ ہے اپنا بھی کوئی سیٹ اپ بنالوں کیونکہ حفاظتی لباس صرف کرونا میں نہیں عام دنوں میں ڈاکٹروں کیلئے ضروری ہوتی ہے”۔
وفاقی حکومت کی جانب سے حفاظتی کٹ کے متعلق مرتب کیے گئے اصول و ضوابط کے تحت حفاظتی کٹ میں شامل بنیادی اشیاء میں میڈیکل ماسک، این 95 ماسک، جسم کا حفاظتی میڈیکل گاؤن، دستانے، آنکھوں کا خصوصی چشمہ، جوتوں کے کور اور ٹویک کور یعنی حفاظتی لباس شامل ہے۔
معاشی امور پر کام کرنے والے سنئیر صحافی عزیز بونیری کہتے ہیں کہ حکومت اور سرمایہ کاروں کو مقامی طور پر حفاظتی سوٹس، ماسکس اور دیگر اشیاء کیلئے باقاعدہ یونٹس لگانے چاہئیے۔ کیونکہ ان اشیاء کی براآمد پر کافی زیادہ رقم خرچ ہورہی ہے۔ وہ سمجھتےہیں کہ کرونا ختم بھی ہوجائے تب بھی ان چیزوں کی ضرورت پڑے گی۔ ویسے بھی محکمہ صحت ہر سال کروڑوں روپے کی حفاظتی اشیاء کی خریداری کرتی ہے اگر مقامی سطح پر پیداوار بڑھ جائے تو لوگوں کو بھی روزگا مل جائیگی اور حکومت کے خزانے پر بوجھ بھی کم پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جو پشاور، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں کیٹس بن رہے ہیں اسکی کوالٹی اچھی ہے لیکن بہت کم بن رہے ہیں، صوبے کی ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کو باقاعدہ انڈسٹری کی حیثیت دینی پڑی گی۔