ملاکنڈ: درخت لگانے سے کسانوں کی زمین سیلاب سے بچ سکتی ہے؟
خیبرپختونخوا کے ضلع ملاکنڈ میں زراعت سے وابسطہ محمد علی کا شمار ان کسانوں میں سے ہیں جن کی زمین پچھلے دنوں یکم ستمبر 2020 کے سیلاب اپنے ساتھ بہا لگئی۔محمد علی نے 2 ایکڑ زمین پر فخرے ملاکنڈ نامی چاول کی فصل کاشت کی تھی۔ ابھی فصل تیار ہونے میں کچھ دن باقی تھے کہ ایک چوتھائی حصہ سیلاب لے گیا جس سے کافی نقصان ہوا۔نقصان صرف چاول کا نہیں بلکہ 4 فٹ تک مٹی سیلاب لے گئی جس کی بھرائی پر کافی خرچہ آتا ہے۔ درختوں کی وجہ سے زمین سیلاب کے نقصان سے بچ سکتی تھی؟ جس پر محمد علی کا کہنا تھا کہ بلکل ممکن تھا درختوں کے زریعے نقصان سے بچاؤ۔ لیکن یہ زمین میں نے لیز پر لی ہے اور ایگریمنٹ کے مطابق میں درخت نہیں لگا سکتا۔
جالاوانان میں میں پیکنک کیلئے آئے ہوئے یاسر کا کہنا تھا کہ دریا سوات کے کنارے چھاؤں والے جگہ بہت کم ہیں جہاں لوگ دھوپ سے محفوظ ہوسکے۔ جالاوانان اور کچھ اور جگہ کچھ لوگوں نے دریا سوات کے کنارے درخت لگائے ہیں جہاں بہت سے لوگ آکھٹے ہوتے ہیں۔ یاسر کا مذید کہنا تھا کہ دریا سوات سے لنڈاکی تک اگر درخت لگائے جائے تو سیکڑوں پیکنک سپاٹ بن سکتے ہیں۔ دریا سوات کے کنارے خوبصورت جگہیں موجود ہے لیکن ادھر دھوپ کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہیں اور اگر درخت لگ گئے تو ادھر بیٹھنا ممکن ہوجائے گا۔
دریا سوات کے کنارے پودے لگانے سے وائیلڈ لائف کو کیا فائدہ ہوگا؟اس جواب پر رینج افیسر سید غفران کا کہنا تھا کہ دریا سوات کے کنارے یا کسی بھی جگہ پر یوکلپٹس کے علاوہ جو بھی درخت لگایا جائے پرندوں کیلئے بہتر ہے۔پرندون کے جاڑی نماں درخت جیسے کیکر،بیر,سفیدہ،چنار وغیرہ فائدہ مند ہے۔ملاکنڈ کے پہاڑ بھی درختوں سے بر گئے ہیں جس کے ساتھ پرندہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر دریا سوات کے دونوں کنارے گنے درخت ہو تو اس سے اور اچھا کوئی جگہ پرندوں کیلئے نہیں۔یہ یہاں مقامی اور مائیگریٹڈ پرندوں کے لئے اچھی جگہ ہوگی۔
ایگریکلچرل افیسر ساجد خان کا کہنا تھا کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو دریا کے کنارے جتنے بھی زمینیں ہیں تقریباً سارے سیلاب سے متاثر ہوجاتے ہیں۔یہاں زمینیں کم ہے اس لئے دریا سوات کے کنارے بہت سی زمینیں ہیں جس پر چاول کے فصل کاشت کی جاتی ہے۔لیکن جب سیلاب اتا ہے تو آدھے سے زیادہ زمین سیلاب بہا لے جاتا ہے جس سے کسان بھائیوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اب اگر دریا سوات کے کنارے صحیح پلانٹیشن ہو جائے تو کافی تک زمینیں نقصان سے بچ سکتی ہیں۔
گل آباد ڈگری کالج کے لکچرار طاہر زمان کا کہنا تھا کہ دریا سوات کے کنارے اگر ایک لاکھ تک کا پودے لگائے جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔جب بھی دریائے سوات میں طغیانی آتی ہے تو اپنے ساتھ ساری زمینیں فصل سمیت لے جاتی ہے۔اب اگر پودے لگائیں جائے تو سیلاب سے فصل کا بچاؤ مشکل ہے کہ بچ جائے لیکن زمین کافی حد تک بچ سکتی ہیں۔اج کل گاڑیوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے تو گاڑیوں سے خارج ہونے والا کاربن یہی پودے جزب کرینگے۔جس سے ماحول واپس صاف ہوتا رہے گا۔
دریا سوات کے کنارے درختوں کے حوالے سے ڈی ایف او ملاکنڈ اصغر خان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے ہمارے پاس پودے اور بجٹ موجود ہے۔لیکن دریا سوات کے کنارے زیادہ تر زمینیں لوگوں کی ہے جہاں ان کے اجازت کے بغیر پلانٹیشن ممکن نہیں۔جو بھی ہمیں درخواست دیگا ہم ہم نہ صرف اس کو پودے دینگے بلکہ لگائیں گے بھی خود۔ اس وقت ہمارے پاس 12 قسم کے پودے موجود ہے جو جگہ کی مناسبت سے لگایا جائےگا۔
دریائے سوات کے کنارے پودوں کو سب سے بڑا خطرہ گائے ،بھینسوں اور اس کے مالکان سے ہیں جس پر کئی دفعہ ایف ائی ار اور جرمانے لگائے گئے ہیں۔دریا سوات کے کنارے پودوں کو نقصان سے بچانے کیلئے کمانڈنٹ لیوی/ڈی سی ملاکنڈ سے رابطہ کرنے پر ان کہنا تھا کہ ابھی تک فارسٹ دفتر سے کوئی درخواست نہیں ملا۔ لیکن اگر درخواست ملا تو دریا سوات کے کنارے پودے لگانے کیلئے جو ممکن ہے کرینگے۔ہم خود کوشش کرینگے کہ جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائے تاکہ ضلع ملاکنڈ سرسبز و شاداب رہے۔