مذہبی ہم آہنگی، اسلام اور پاکستان
مذہبی ہم آہنگی پردنیا میں جب بھی بات ہوئی اور ہوتی رہے گی اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہیں گی کیونکہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں دین اسلام نے روز اول سے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ سردارِ دو جہاں جیسی عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرکے دنیا کے سامنے بہترین مثال پیش کی ہے جسے پور ی دنیا مانتی رہی ہےاور مانتی رہے گی ۔پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت پر ہندو مصنف سوامی لکشمن پرشاد کی کتاب "عرب کا چاند”ایک بہترین نمونہ جو کہ ایک بت پرست نے لکھی ہے۔
دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بھی پیار ومحبت اور امن و امان سے رہنے کا درس دیتےآئے ہیں تاہم کچھ شرپسند عناصروں نے دنیا کا امن تاراج کرنے کی ٹھانی ہے۔جس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ایسے شرپسندوں کی وجہ سے نہ صرف معاشرہ عدم برداشت کی طرف جانا شروع ہوگیا بلکہ معاشرہ مزید گروہی تقسیم کا شکار ہوگیا ۔اس لیے ذمہ دار شہریوں، علماء کرام، اساتذہ کرام سمیت ہر طبقہ ِ فکر کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے عدم برداشت کا رجحان ختم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور یہ کام ترجیحی بنیادوں پر اور ضروری کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ بین المذاہب ہم آہنگی اس معاشرے کا انتہائی حساس موضوع بن چکا ہے جس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اور اسی کا فائدہ اُٹھا کر شرپسند عناصر اس کا خوب خوب فائدہ اُٹھارہے ہیں۔پاکستانی اقلیتوں سمیت مختلف فرقوں کو ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی خوشحالی اور امن اسی میں ہے۔ غیروں کی سازشوں کی وجہ سے آج اس ملک پاکستان میں لوگ امن کے لیے ترس رہے ہیں۔
پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں تاریخی خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "آپ آزاد ہیں، اپنے مساجد میں جانے کے لیے، اپنے مندروں میں جانے کے لیے اور اپنے گردواروں و کلیساؤں میں جانے کے لیے کیونکہ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے،آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یانسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔لہٰذا معاشرے کے پڑھا لکھا طبقہ اور علماء کرام اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ معاشرے میں امن، برداشت، رواداری اور تمام مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں تمام ایسی غلط فہمیوں کو دور کریں جو کہ غیروں نے پاکستان توڑنے کے لیے پیدا کئے ہیں، اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے جو کہ ہمارے دین کی اہم تعلیمات میں شامل ہے اور خود سرور دوعالم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے کیونکہ میثاق مدینہ اس کی ایک زندہ مثال ہے اس میثْاق سے تب جاکر ریاست مدینہ میں امن و امان کا قیام ممکن ہوا، ظلم و اناانصافی کا دور ختم ہوا، انسانیت کی قدر کا درس دیا گیا اور یہ تصریح کی گئی کہ مذہبی آزادی بارے کسی فرد یا قبیلے کے حقوق کو پامال نہیں کیا جائے گا میثاق مدینہ مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے جو کہ دنیا میں سب سے پہلے د پیغمبر اسلام رحمت ِ دو عالم ﷺ نے پیش کی۔ انہی تعلیمات کی روشنی میں آج بھی پاکستان اس پر عمل پیرا ہے حال ہی میں پاکستان نے امن کے قیام کی لیے ایسی کوششیں شروع کی ہیں جس میں کرتارپورراہداری جیسا بڑا منصوبہ شامل ہیں اس کے باوجود دنیا اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔خیر ہمیں بحثیت مسلمان دیکھنا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ ہم سے کیسا رویہ رکھتے ہیں بلکہ ہمیں تو اسلامی تعلیمات اور پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو لیکر چلنا ہے ۔ سیرتِ مصطفیٰ سے ایسی بے شمار مثالیں مذہبی ہم آہنگی کی ملتی ہیں۔امام ابن ِ کثیر رحمتہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ نجران کے عیسائیوں کو محمد ﷺ نے مسجد ِ نبوی شریف میں ادائیگی نماز کی اجازت دی تھی۔صحابہ ؓ کے ردعمل پر حضورﷺ نے فرمایا کہ انہیں عبادت کی ادائیگی کرنے دیں،انہوں نے مشرق کی طرف منہ کرکے نماز اداکی،فتح مکہ کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔
اس واقع کو پروفیسر ہلال وانی (یونیورسٹی آف ملایا۔ملائیشیا) اپنے ایک ریسرچ آرٹیکل میں کچھ اس طرح بیان کرتا ہے
پیغمبر اسلامﷺکی زندگی حقیقی معنوں میں قرآن پاک کی عملی تصویر ہے۔آپﷺ نے ہمیشہ امن اور صلح کی حمایت کی مثلاً فتحِ مکہ کے وقت جب آپﷺ نے اعلان کیا کہ ہر وہ شخص قریش کے سردار ابو سفیان کے گھر داخل ہو وہ اسے کچھ نہ کہا جائے اس معافی میں بہت سے اسلام مخالف لوگ بھی شامل تھے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا آج کے دن تم سب آزاد ہو۔ اگر آپ ﷺ چاہتے تو تمام کفار سے بدلہ لے سکتے تھے اور عرب کے جنگی دستور کے مطابق یہ غلط بھی نہیں تھا لیکن ایسے موقع پر بھی رحمت اللعالمین نے عام معافی کا اعلان کردیا تھا حالانکہ تمام کفار انتہائی خوف کی کیفیت میں مبتلا تھے کہ اب ہمارا کیا بنے گا لیکن آپ ﷺ اور مسلمانوں کی طرف سے حسنِ سلوک دیکھ کر حیران رہ گئے اور جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام یوئے ۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ بحثیت امتی ویسا طرزعمل اپناتے ہوئے پیش آپ کی تعلیمات کو معاشر ے میں ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں۔پیار ومحبت،امن وامان کا پیغام ہر طرف پھیلانے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہتھے سے نہ اکڑیں تمام انسانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور یہ عزم کریں کہ کم ازکم پاکستان کے اندر سے شدت پسندی، عدم برداشت اور مذہبی امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور اس سے معاشرے میں امن وامان بھی قائم ودائم رہ سکتا ہے۔اس حوالے سے پاکستان پیس کلیکٹیو کی ٹیم کی خدمات قابل تعریف ہیں محبوب علی میرے عزیز دوستوں میں شامل ہیں اور پاکستان پیس کلیکٹیو ضلع مردان کے کوارڈینٹر کے طور اپنی خدمات پیش کررہے ہیں،وہ ہر وقت اور ہر پلیٹ فارم سے مذہبی ہم آہنگی کے موضوع پر بات کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک خوش آئند عمل اور مستحسن اقدام ہے۔