Blog

گٹھڑیوں میں بندھے داستانیں بن چکے لمحے

تحریر: مقبول ملک، برُوہل، جرمنی

وقت بڑی ہی عجیب شے ہے۔ اس کے بارے میں سوچیں تو سوچیں ختم نہیں ہوتیں، بات کریں تو باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ وقت کی لامتناہیت کی کلید اس کی ابدیت میں ہے۔

اس کی ظاہری شکلیں صرف تین ہیں: ماضی، حال اور مستقبل؛ یعنی دیروز، امروز اور فردا۔ لیکن وقت اتنا مسلسل اور دائمی ہے کہ یہ آدم سے پہلے بھی تھا، آخری ابنِ آدم کے بعد بھی ہو گا اور جب اس کی تقسیم کو قبل از مسیح، بعد از مسیح یا کوئی بھی دوسرا نام دینے والی نوع انسانی نہ بھی رہی، یہ دنیا اور یہ کائنات بھی نہ رہی، تو بھی یہی وقت، جو اپنی پیمائش کی اکائی کی ایجاد سے بھی بہت پہلے سے ہے، ہمیشہ باقی رہے گا۔

ہزاریوں، صدیوں، برسوں اور مہینوں کے علاوہ دنوں، گھنٹوں، منٹوں اور لمحوں تک میں اپنے ماپے جانے کی اجازت دینے والا یہی ابدی وقت مسلسل تاک لگائے بیٹھا ایک ایسا شکاری ہے، جو انسانوں سمیت اپنے ہر شکار کو زیر کرنے کے لیے اپنے پورے وجود کو استعمال نہیں کرتا بلکہ اسے صرف اپنی عام انسانوں کے لیے مختصر ترین اکائی یا محض ایک لمحے میں ہی اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ اسی ایک لمحے میں زندگی موت میں، خوشی غم میں، حرکت جمود میں اور ہستی معدوم میں بدل جاتی ہیں۔

وقت کسی لمحے میں کس کو کیسے شکار کرتا ہے، وہ اس کا تعین خود کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ کام مثلاً انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے وہ واقعات کرتے ہیں، جب کوئی بھی لمحہ اس واقعے کا گواہ بن کر خود کو وقت کے تسلسل سے توڑ کر کسی ایسی جگہ پر گر جاتا ہے، جہاں وہ فرد موجود ہوتا ہے جس کے ساتھ کوئی خاص واقعہ پیش آ رہا ہوتا ہے۔ پھر وہی لمحہ انسانی وجود اور فہم کی تقابلی اضافیت کے لحاظ سے اپنی تمام تر ابدیت کے ساتھ وہیں پڑا رہتا ہے، جہاں وہ وقت سے ٹوٹ کر گرا ہوتا ہے۔

وقت سے ٹوٹ کر کہیں گرنے کے بعد کوئی لمحہ صرف ایک لمحہ ہی نہیں رہتا بلکہ اپنے ہونے سے پیدا ہونے والے احساس کا ملبوس بدل کر کسی نہ کسی داستاں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں ایسے بہت سے لمحوں کے گواہ بن جاتے ہیں، جو داستانوں میں بدل کر اس طرح ہمارے ساتھ رہتے ہیں کہ ہم اپنے ہر امروز میں تخیل کی ایک پرواز یا سوچ کی ایک ہی جست سے دیروز کے ہر ایسے لمحے میں بند ہر داستان کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرسکتے اور اسے دیکھ سکتے ہیں، جو ہماری زندگی میں کوئی بہت خوش کن یا انتہائی تکلیف دہ سنگ میل بن جانے کے باعث ہمارے لیے ناقابل فراموش ہو چکا ہوتا ہے۔

زندہ رہنے کے لیے لازمی سمجھے جانے والے کسی محبوب سے کسی جگہ پہلی ملاقات، اولاد کی پیدائش، کوئی بہت بڑی کامیابی یا اعزاز، کسی دلہن کے بیوہ ہو جانے کی گھڑی، کسی بچے کے ذہن میں ماں کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی انمٹ یاد، کسی بڑے المیے کا گواہ ہونا یا کسی پیارے کو اپنے ہی ہاتھوں زمین میں چند فٹ کی گہرائی میں ہمیشہ کے لیے مٹی کے سپرد کر دینا، یہ سب وہ داستانیں ہی تو ہیں، جو دراصل وہ لمحے ہی ہوتے ہیں، جن میں وہ تکمیل پا رہی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی واقعہ بہت بڑا یا نہ بھولنے والا ہو تو وہ اپنی تکمیل کے لمحے کو داستاں میں بدل دیتا ہے۔

وقت کی ہمارے وجود سے بھی بھاری محسوس ہونے والی گٹھڑی میں ایسے انگنت لمحوں میں بند داستانوں کا بوجھ اپنے اپنے سروں پر اٹھائے، زندگی کے سفر میں پیہم چلتے چلتے، ہم اسی طرح زندہ رہتے ہیں کہ جہاں کہیں کسی یاد نے یکدم سر اٹھایا، وہیں ہم نے کسی نہ کسی لمحے میں بند کسی بےآواز داستاں کو اپنے تخیل کی آنکھ سے دوبارہ دیکھا، مسکرا کر غیر ارادی طور پر سر کو ہلایا یا اچانک آنکھ کے کسی کونے سے ابل پڑنے والے آنسو کو صاف کیا اور پھر سے محوِ سفر ہو گئے۔

ہم جب تک زندہ رہتے ہیں، ہمارے ماضی میں رونما ہونے والے مادی اور جذباتی واقعات کو خود میں سمو کر داستانیں بن جانے والے گزرے ہوئے لمحے ہمارے حال میں بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ بس فرق اس پردے کا ہوتا ہے جو دیروز اور امروز کے درمیان حائل رہتا ہی ہے۔ یہی فرق ہمارے اس فہم کے باعث بھی ہمیشہ ہوتا ہی ہے، جس کی وجہ سے ہم “تھا” اور “ہے” کے مابین واضح فرق کے شعور کے باوجود “ہے” سے “تھا” اور “تھا” سے واپس “ہے” کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔

ہم کسی بھی وقت میں یا کسی بھی جگہ پر ہوں، لمحوں میں بند داستانیں ہماری ہم سفر رہتی ہی ہیں۔ سفر جاری رہتا ہے اور سر پر رکھی داستانوں کی گٹھڑی بڑی ہوتی جاتی ہے۔ ہمارے جو اقربا بظاہر مر چکے ہوتے ہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ غم جو ہم برداشت کر چکے ہوتے ہیں، وہ خوشیاں جو ہم منا چکے ہوتے ہیں اور وہ سبھی بڑے حادثات جو ہماری ذات میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنے ہوتے ہیں، وہ سب بھی ہمارے ہم قدم ہی رہتے ہیں مگر ہم بظاہر انہیں دیکھ نہیں پاتے۔

پھر وقت کے اسی بہاؤ میں اچانک کسی عام سے دن کے کسی لمحے خود ہم بھی نہیں رہتے۔ ہمارا ہونا ایک داستان بن کر اسی لمحے میں بند کہیں پڑا رہ جاتا ہے۔ واحد فرق یہ ہوتا ہے کہ تب ہم اس داستاں کے شاہد نہیں ہوتے بلکہ اس کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اس داستاں کو تب صرف دوسرے ہی تخیل کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ تب ہمیں بھی ہماری موت پر رنجور ہمارے عزیز زمین میں چند فٹ کی گہرائی میں ہمیشہ کے لیے مٹی کے حوالے کر آتے ہیں۔

ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے وقت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تو صرف ان کو پڑتا ہے جو تب تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں جب تک ہم زندہ رہتے ہیں۔ جب ہم نہیں رہتے، تو وہ داستانیں بن چکے لمحوں کے طور پر ہمیں اپنے اپنے سروں پہ رکھی گٹھڑیوں میں باندھے اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی دن کے کسی لمحے وہ خود بھی کسی اور کے سر پہ رکھی گٹھڑی کا سامان بن جاتے ہیں۔

سر بدلتے رہتے ہیں، گٹھڑیاں بدلتی رہتی ہیں، مگر وقت بدلے بغیر بہتا ہی رہتا ہے۔ مسافر بدلتے رہتے ہیں، ان کے سروں پر دھرا رختِ سفر بھی، مگر رستہ نہ لبھی بدلتا ہے اور نہ طے ہوتا ہے۔

Back to top button