عدالت کا قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا حکم
اسلام آباد: کورونا ایمرجنسی میں لاک ڈاون کے دوران قبائلی علاقوں میں آن لائن کلاسز کے لیے تھری جی اور فور جی سروسز کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے اسلام ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں ہوئی، عدالت نے سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرمین پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین مجاز افسر کا تقرر کرنے کا حکم دیا ہے جو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہو کر تحریری رپورٹ جمع کرائیں گے اور عدالت کو بتائیں گے کہ پٹیشنر اور علاقہ کے دیگر رہائشیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ عدالت نے تحریری حکم نامے میں فریقین کو تھری جی اور فور جی سروس کو بحال کرنے کےلئے فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔
سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے نمل یونیورسٹی کے طالب علم سید محمد کی جانب سے عبد الرحیم وزیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے طالب علم گھروں میں محصور ہیں، انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث پٹیشنر اور دیگر ہزاروں طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے، سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طالب علموں کو اس سہولت سے محروم رکھا جارہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم، وزیر اعلی اور گورنر کے پی کو درخواست دی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، سابقہ فاٹا کے سات اضلاع کے طالب علم گزشتہ دس روز سے سراپا احتجاج ہے، پشاور، لاہور، کوئٹہ، کراچی والوں کو انٹرنیٹ کی سہولت مل سکتی ہے تو ان علاقوں کے عوام کو کیوں نہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انٹرنیٹ کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں؟ کیا یہ سہولت ان علاقوں میں تھی ہی نہیں یا کسی وجہ سے بند ہے؟ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے جن کی ضمانت آئین نے دی ہے۔ عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 23 اپریل تک ملتوی کر دی۔