حکومت کا معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ
شہریوں کی جانب سے معلومات کے حصول کےلئے متعدد درخواستیں موصول ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پانچ سینیٹرز کی جانب سے سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائے گئے ترمیمی بل میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کو "دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017” سے مثتثنیٰ قرار کرنے کی تجوز پیش کی گئی ہے۔
ترمیمی بل پیش کرنے والوں سینیٹرز میں سجاد حسین طوریٰ، وحید اقبال، علی خان سیف، منظور احمد اور مرزا محمد آفریدی شامل ہیں۔
بل میں ترمیم کے اغراض و وجوہات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی آئینی ادارے ہیں اور ان کا کام انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا ہے، لہذا سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرح مذکورہ ادارے بھی پبلک باڈی کی زمرے میں نہیں آتے۔ لہذا "دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017” کے سیکشن 2 کے پیراگرف سی میں ترمیم کرکے سینیٹ اور نیشنل اسمبلی کو پبلک باڈی کی تعریف سے نکالا جائے۔
مجوزہ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ سینیٹ اور نیشنل اسمبلی سے متعلق معلومات کے حوالے سے کسی بھی قسم کے فیصلے کا اختیار سپیکر نیشنل اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو حاصل ہے لہذا دونوں ایوانوں کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم کی جائے۔
مجوزہ بل کی خبر سامنے آنے کے بعد سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ٹویٹر پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سینیٹ، نیشنل اسمبلی اور چند دیگر اداروں کو معلومات تک رسائی کے قانون سے مثتثنیٰ قرار دینا انہیں شفافیت اور احتساب سے مثتثنیٰ قرار دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اراکین پارلیمنٹ، عوام اور سماجی حلقوں کو مجوزہ ترمیم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔
5 senators have submitted amendment to Right to Information law to exempt Assembly, Senate & some other institutions from transparency and thus from accountability. It will be taken up Monday 19th Oct. Watch out saner MPs, people, civil society, everyone; Protest, reject, say NO
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) October 16, 2020
سابق انفارمیشن کمشنر اور غیر سرکاری تنظیم سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد نے مجوزہ ترمیم کو غیرآئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ترمیم حکمران جماعت کے احتساب اور شفافیت کے دعووں کے منافی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کے لئے آکسیجن (ہوا) جتنا ضروری سمجھا جاتا ہے اسے معلومات تک رسائی کے قوانین سے مثتثنیٰ قرار دینا شرمناک ہے۔
واضح رہے کہ ماضی قریب میں مذکورہ قانون پر عمل درآمد کے لئے قائم پاکستان انفارمیشن کمیشن نے مختار احمد کی ایک اپیل پر سینیٹ سیکرٹریٹ سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
کمیشن نے اپنے فیصلے میں سینیٹ سیکرٹریٹ کو شہری کی جانب سے طلب کی گئی تمام معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کے قانون کے سیکشن 5 میں طے کردہ معلومات سینیٹ کی ویب سائٹ پر شیئر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ نے معلومات فراہم کردی تھی۔
پچاس سے زائد غیرسرکاری تنظیموں کے اشتراک "کولیشن آن رائٹ ٹو انفارمیشن” کی جانب سے مجوزہ ترمیم کے خلاف پیر کے روز نیشنل پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا ہے۔