قومی جرگہ کی تجاویز پر عملدرآمد ضروری ہے
عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ملک بھر کے پشتونوں کو درپیش انتظامی، سیاسی اور سیکیورٹی مسائل اور خیبر پختونخوا کو درپیش مالی اور معاشی چیلنجز پر غور وحوض کرنے اور ان کے حل کیلئے متفقہ لائحہ عمل اپنانے کیلئے باچا خان مرکز پشاور میں منگل کے روز ایک جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے بقول یہ سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ پختون سیاسی رہنماؤں کو پختونوں کو درپیش مشکلات مسائل اور چیلنجوں پر بحث و مباحثے اور ان کو حل کرنے کیلئے جرگہ تھا۔ اس جرگہ میں واقعی پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عہدیداروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور پشتون قوم کے ساتھ ریاست اور ریاستی اداروں کے معاندانہ رویے پر اظہار خیال اور پشتون قوم کے ساتھ جاری زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان رہنماؤں کے علاوہ شرکاء میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین، جمیعت علمائے اسلام ف کے صوبائی سربراہ سینیٹر مولانا عطاء الرحمن، پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام، پاکستان پیپلز پارٹی کے انجینئر ھمایون خان، قومی وطن پارٹی کے ھاشم بابر، نیشنل پارٹی کے مختار باچہ اور جمیعت علمائے اسلام س کے مولانا حامد الحق شامل تھے جبکہ مرکز اور صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی پشاور سے ممبر قومی اسمبلی ارباب شیر علی خان نے کی۔ شرکاء نے جرگہ میں مختلف مسائل اور مشکلات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور ان مسائل کے حل کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ جرگہ کے اختتام پر متفقہ طور پر ایک22 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ تمام سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے افغانستان میں قیام امن کیلئے حال ہی میں قطر میں ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے تمام افغان رہنماؤں سے آپسی اختلافات گفت وشیند کے ذریعے حل کرنے کی درخواست کی۔ شرکاء نے ملک بھر میں پشتونوں کو درپیش مسائل پر بھی ایک جیسے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ نہ صرف دیگر صوبوں بلکہ خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع میں حکومتی اداروں کی عدم توجہی اور غلط پالیسوں کے باعث پشتونوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی طرح شرکاء نے وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے ساتھ معاندانہ رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ شرکاء نے بجلی کے خالص منافع کی عدم ادائیگی اور قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ میں تاخیر کو اس صوبے کے ساتھ سخت زیادتی قرار دیا۔ جرگہ کے اختتام پر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے دیگر سیاسی رھنماؤں کی موجودگی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں پشتونوں کے جائز آئینی اور قانونی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے ایک نئے عمرانی معاھدے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کو چاہئے کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے تناؤ ہر قابو پانے، امن و امان قائم کرنے اور سیاسی استحکام کے لیے مشترکہ طور پر جلد ازجلد کوششیں شروع کرے ورنہ اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے جاری کردہ اعلامیہ میں سر فہرست پڑوسی ملک افغانستان میں جاری بد امنی، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کے فقدان کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات اور دونوں جانب کے ریاستی ذمہ داران کے ساتھ رابطہ وگفتگو کا مطالبہ شامل ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سراج الحق نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ جرگہ میں موجود سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل وفد کو متحارب افغان رھنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم کے لئے کابل بھیجا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام جماعتوں کو ھم خیال اور ھم نظر افراد کے بجائے افغانستان کے عوام کے اجتماعی مفادات اور خواھشات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ سراج الحق کی اس تجویز کی تمام شرکاء نے تائید کی۔ دیگر مطالبات کے علاوہ اعلامیے میں لاپتہ افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کرنے اور ان کے ساتھ کئے گئے ظلم کے بارے میں ذمہ داران سے پوچھ گچھ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے متاثر اور بے گھر ہونے والوں کو فوری طور پر معاوضوں کی ادائیگی، ان کی بحالی اور روزگار کے لئے تعاون فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیاگیا ہے۔ اس جرگہ کے متفقہ اعلامیہ میں وفاقی حکومت سے قومی مالیاتی کمیشن کے فوری اجرا اور بجلی کے خالص منافع کی خیبر پختونخوا کو فوری ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلاک شناختی کارڈز، مردم شماری، لینڈ مائنز کا صفایا، پختونوں کا تحفظ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، اٹھارہویں ترمیم کا تحفظ، آبی وسائل پر اختیار، منرلز گورننس ایکٹ، ضم اضلاع کی قانونی و انتظامی اور مالی صورتحال، یونیورسٹیوں میں جاری مالی بحران، ہسپتالوں کی نجکاری اور سی پیک سمیت پشتونوں کو درپیش مسائل بھی جرگے میں زیربحث لائے گئے ہیں اور ان مسائل کے فوری حل کے لیے حکومت سے کردار ادا کر نے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے جرگے میں نہ صرف پشتونوں کو درپیش مسائل کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی کے اقدام کو سراہا بلکہ اپنی تنظیم کے موقف کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ پشتونوں کے حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو زور و جبر اور الزامات لگا کر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف پشتون تحفظ تحریک
بلکہ عوامی نیشنل پارٹی کے تمام مطالبات آئین اور قانون کے عین مطابق ہیں۔ انہوں نے کہ موجودہ وقت میں پشتونوں کے ساتھ بہت زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ اس وقت نہ صرف افغانستان میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے بلکہ ملک بھر میں پشتونوں کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں انہوں نے جرگہ کے انعقاد کو ایک اہم اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال سے پاکستان بالخصوص پشتون کسی بھی طور پر لا تعلق نہیں سکتے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ دو مختلف جگہوں پر تقاریب حلف برداری کا انعقاد انتہائی تشویش کا باعث ہے، افغانستان میں قیام امن کے لئے سب سے زیادہ سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی کے بلائے گئے جرگے میں تمام سیاسی جماعتوں کے ہنماؤں اور عہدیداروں نے ایک جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن اور افہام و تفہیم پرزور دیا ہے جو انتہائی تسلی بخش ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کی خاتون رہنماء ثناء اعجاز نے جرگے کے انعقاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت پشتونوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، پشتونوں کو ان کے جائز حقوق اور وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے، موجودہ حالات میں جب ملک میں اندرونی طور پر حکومت کو شدید مالی بحران کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ تحریک کی ابھرتی ہوئی مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان کے حالات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام قوم پرست سیاسی رہنماؤں کے اس غیر معمولی جرگے کی تجاویز پر عملددر آمد سے بہت مشکلات بہ آسانی حل ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کے اندرونی حالات کے منفی اثرات مرتب ہونے کے علاوہ پاکستان کی جانب سے عائد کردہ سرحدی پابندیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ پشتون متاثر ہو رہے ہیں۔ جرگہ میں شرکاء نے ان سرحدی پابندیوں کا از سرنو جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یقینی طور پر اس جرگہ کے اعلامیے اور سیاسی رھنماؤں کی پیش کردہ تجاویز پر عملدرآمد سے نہ صرف پشتونوں کو درپیش مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ اس سے پاکستان بھی حقیقی طور پر ترقی یافتہ اور سیاسی طور پر مستحکم ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔