خبریں

بڑھتی ہوئی مہنگائی، خیراتی ادارے بھی فنڈنگ سے محروم

” بچوں کا پیٹ پالوں، گھر کا کرایہ دو، بچوں کی سکول فیس دوں، ہسپتال میں علاج کرواؤں ، بچیوں کی شادی کے لئے جہیز جمع کروں یا دیگر ضروریات پوری کروں”

یہ کہنا ہے نور اسلام نامی رکشہ ڈرائیور کی ان کے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے وہ کہتے ہے کہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی  ہے کہ اب بچوںکی دیگر ضروریات تو چھوڑو پیٹ پالنے کے لئے بھی پریشان ہوں تمام دن رکشہ چلاتا ہوں مگر پھر   بھی گزارا مشکل سے ہوتا ہے ایکگو کرایہ کے گھر میں مقیم ہوں جب مہینہ ختم ہوتا ہے تو مالک مکان کی طرف سے بھی یہی پریشانی ہوتی ہے کہ اب اگر ان کو کرایہ دونگا تو باقی گھر کے خرچے کیسے پورا کرونگا۔

نور اسلام کے مطابق موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ہر مہینہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے میرے جیسے غریبوں کاگزر بسر بہت ہی مشکل سے ہوتا ہیں۔

پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے پیمائش کردہ مہنگائی 21 مہینوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جس کی ایک وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ملکی تاریخ  میں  اب تک کا سب سے بڑا  اضافہ ہے، جس کے باعث ٹرانسپورٹیشن چارجز زیادہ ہونے کیوجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھیں۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے تخمینہ لگایا ہے کہ اشیائے خور و نوش  کی عالمی قیمتوں میں 27 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 10 سال کی بلند ترین سطح ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں جولائی اور دسمبر 2021 کے درمیان اوسط مہنگائی سالانہ  بنیادوں پر بڑھ کر 9.81 فیصدہوگئی۔

فروری 2020 میں 12.4 فیصد تک بڑھنے کے بعد مہنگائی کم ہورہی تھی جس میں ذرعی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مدد ملی تاہم اس سال کے آغاز میں تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے اضافے نے اس رجحان کو پلٹ دیا۔شہروں میں غیر غذائی مہنگائی میں سالانہ بنیاد پر 13.4 فیصد اور ماہانہ بنیاد پر 2 فیصداضافہ ہوا جبکہ دیہی علاقوں میںبالترتیب 14 فیصد اور 1.9 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

نومبر کے مقابلے دسمبر میں جن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ان میں خوردنی تیل 6.02 فیصد، پھل 4.81 فیصد، چنے 4.71 فیصد، بیسن 3.17 فیصد، دودھ 2.83 فیصد،سرسوں کا تیل 2.71 فیصد، ویجیٹیبل گھی 1.79 فیصد، مچھلی 1.54 فیصد، چاول 0.9 فیصد جبکہ دالوں میں مسور میں 8.64 فیصد، ماش 6.58 فیصد اور دال مونگ کی قیمت میں 2.75 فیصد اضافہ ہوا۔

شہری علاقوں میں ٹماٹر کی قیمتوں میں 49.74 فیصد، سبزیوں کی قیمت میں 25.73 فیصد، آلو 19.76 فیصد، چکن 18.34 فیصد،پیاز 17.8 فیصد، چینی 9.22 فیصد، انڈے 3.03 فیصد اور گڑ کی قیمت میں 2.8 فیصد کمی ہوئی۔ شہری علاقوں میں بنیادی مہنگائی دسمبر میں 8۔3 فیصد رہی جو نومبر میں 7.6 فیصد تھی۔ دیہی علاقوں میں 8.2 فیصد کے مقابلے 8.9  فیصد اضافہ ہوا۔

مینگورہ شہر کے رہائشی احمد علی جو روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے شدید پریشان ہیں،ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں جتنی مہنگائی آئی ہے اُتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی” ہم روزانہ چھ سو سے سات سو روپے تک کمائی کرتے ہیں جس میں ہم گھر کے اخراجات پورے نہیں کرپاتے، ہم نہیں سمجھ پاتے کہ اس سے چینی خریدے یا آٹا،گھر کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل”

احمد علی نے مزید بتایا کہ آئے روزاشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے نہ صرف ان کی قوت خرید جواب دے چکی ہے بلکہ ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ” ہم نے دو دن گھر میں کچھ نہیں پکایا،بچے بھوکے سو گئے، روزانہ کی بنیاد پر ہمیں کام بھی نہیں ملتا بلکہ ہفتہ دو تین دن کام ہوتا ہے جس سے ہمارا گزارا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ”

مہنگائی کے حوالے سے جب سوات یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسراور اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہولڈر ڈاکٹر شاہد علی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو مہنگائی اور افراط زر کا  صورتحال ہیں اس کے دو بڑے وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے پہلے جو وجہ ہے وہ ہے روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی، اس کیوجہ سے ہم جو چیزیں باہر سے درامد کرتے ہیں ان کے بلوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو چیزیں ہم انٹرمیڈیٹ پراڈکٹس استعمال کرتے ہیں جس کو ہم را مٹیریل بھی کہتے ہیں تو اس کی قیمت بڑھنے کیوجہ سے ہمارے جو لوکل پراڈکٹس ہیں ان کے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہیں۔

ڈاکٹر شاہد کے مطابق دوسری جو بڑی وجہ ہے وہ ہے انٹرنیشنل مارکٹ میں آئل قیمتوں کا بڑھنا، کیونکہ ہمارا جوپراڈکشن ہے اس کاجو خاص را مٹیریل ہے وہ ہے خام تیل، انٹرنیشنل مارکٹ میں خام تیل کی قیمت کی بڑھنے کیوجہ سےاس کا اثر ہمارے اوپر ڈاریکٹ پڑرہا ہے تو اس کی وجہ سے ہماری کاسٹ اپ پروڈکشن بڑھ رہی ہیں۔

شاہد کے مطابق اس وقت جو ملک میں افراط زر کی جو صورتحال ہے اس کی ڈمانڈ فیکٹر اور سپلائی فیکٹر دونوں موجود ہے، ایکطرف جو ہماری ڈیویلویشن ہے اس کیوجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف خام تیل کیوجہ سے کاسٹ اف پراڈکشن بڑھ رہی ہیں۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی،خیراتی ادارے بھی فنڈنگ سے محروم

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث جہاں ایک طرف عام طبقہ متاثر ہو رہا ہے وہی دوسری طرف خیراتی اداروں کا بھی برا حال ہے۔ سوات میں غریبوں کے لئے قائم ادارے اخلاص فاؤنڈیشن کے چئیرمین لونگین خان کے مطابق ہمارا ادارہ تین سو غریب خاندانوں کی کفالت کرتا ہے جنہیں ہم ماہانہ کی بنیاد پر اشیائے خورونوش مہیا کرتے ہیں، پہلے ہم 8 ہزار روپے میں ایک گھر کے لئے ماہانہ خرچہ خریدتے تھے ،اب حال یہ ہے کہ وہ ماہانہ خرچہ ہمیں 20 ہزار میں پڑ رہا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر چیز کی قیمت دگنی ہو گئی ہیں ایسے میں خیراتی ادارہ چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے ،” ہمیں پہلے بہت زیادہ لوگ فنڈنگ کرتے تھے لیکن اب مہنگائی کے باعث ہماری فنڈنگ بھی کم ہو گئی ہے جبکہ ہمارے آسرے زندگی جینے والے غریب لوگ شدید کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں”

لونگین خان کہتے ہیں کہ گزشتہ مہینے ہم نے کسی بھی خاندان کے لئے راشن مہیا نہیں کیا جبکہ ادارے کو چلانے کے لئے فنڈ اکھٹا کرنے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہے

مہنگائی کو کس طرح قابو کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر شاہد کے مطابق مہنگائی کو قابو کرنے کے لئے دو اقدامات اٹھانے پڑینگے ایک تو جو انٹرسٹ ریٹ ہے اس کو بڑھانا پڑیگا جو کہ ٹائٹننگ مانیٹری پالیسی ہے جتنا مانیٹری پالیسی ہم ٹائٹننگ کرینگے اتنا ہم مہنگائی پر قابو پا سکتے ہیں۔

دوسرا جو ہمارے روپے کی قدر ہے اس کو استحکام بخشنا ہو گا اگر ہم اس میں استحکام نہیں لا سکتےتو ہم مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر پائنگے۔

ڈاکٹر شاہد کے مطابق پاکستان کی حکومت جو اس وقت کر رہی ہے وہ بالکل اس کے برعکس ہے ، کیونکہ مانیٹری سائڈ پر جو وہ کر رہی ہے وہ کافی حد تک سمجھ میں آ رہا ہے کہ مہنگائی کو قابو کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے جو کہ انٹرسٹ ریٹ کے مد میں ہمیں نظر آ رہاہے مگر جو دوسری طرف ہم منی بجٹ میں نئے ٹکسز لگانے جا رہے ہیں تو اس سے تو مہنگائی کا ایک طوفان آنے والا ہے کہ حکومت بہت سارے چیزوں پر نئے ٹکسز لگانے جا رہا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا دوسری طرف جو روپے کی قدر ہے وہ بھی خاطرخواہ گر رہی ہے تو یہ بھی ایک فیکٹر ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔

Back to top button