انسانی حقوق

آبادی میں اضافہ اور شرح خواندگی میں کمی۔ ہم کس دور کی جانب رواں ہیں؟

رفیع کے تین بچے ہیں اور وہ گھروں میں کام کر کے ماہانہ 25 ہزار تک کماتی ہے۔ رفیع کی شدید خواہش ہے کہ اس کے بچے اعلی تعلیم حاصل کر کے اچھی نوکریاں کریں خصوصا اس کی بیٹی مگر ہر گزرتے سال کے ساتھ فیسوں میں اضافہ اور مہنگائی کی بڑھتی رفتار اس کے حوصلے کو پست کرتی جا رہی ہے۔ رفیع چاہتی ہے اس کا بیٹا کم از کم 12 جماعتیں پڑھ لے اور پھر کسی نوکری پر لگ جائے کیونکہ اس سے اگے تعلیمی اخراجات اٹھانا اس کے بس میں نہیں۔

پاکستان  بیورو اف سٹیٹسک کے اعدادوشمار  کے مطابق سال 2019 اور 2020 میں  پانچ سے سولہ سال تک کے  تقریبا بیس کڑوڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔صوبہ بلوچستان میں یہ سکول سے باہر طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 47 فیصد ہے۔ سندھ میں ساڑھے چھ کڑوڑ جبکہ پنجاب میں ساڑھے سات کڑوڑ سے زیادہ بچے سکول چھوڑ چکے یا سکول سے باہر ہیں۔

غلام رسول ، رکشہ چلا کر اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ غلام رسول کے نزدیک اس کی بیٹیوں کا پانچویں جماعت تک پڑھ لینا ہی اس کے نزدیک کافی ہے کیونکہ انہیں زیادہ وقت گھر کے کاموں کو کرنے میں لگانا چاہیے جبکہ بیٹے دسویں جماعت تک کیونکہ اس کے بعد تعلیمی اخراجات اسے خود اٹھانے پڑیں گے جو کہ اس مہنگائی کے دور میں نا مکن ہے اس لیے اس نے دسویں کے بعد اپنے بیٹوں کو بھی کام کاج پر لگا دیا۔

پنجاب میں صوبائی وزیر تعلیم مراد راس کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس پر پنجاب حکومت اب قابو پاے گی اور لاہور شہر میں سرکاری سکولوں میں اس سال زیادہ سے زیادہ داخلوں کی مہم چلائی جاے گی اور ساتھ ہی مفت کتب اور یونیفارم کے ساتھ ساتھ طلبہ میں مفت کھانا بھی تقسیم کیا جائے گا۔

مگر سوال یہ کہ پاکستان بیورو اور سٹیٹسک کےطابق سکول سے باہر طلبہ کی زیادہ تر تعداد کا تعلق دیہی علاقوں اور ان گھرانوں سے ہے جہاں والدین خود کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ تو کیا حکومت اصل مسلہ کو سراسر نظر انداز کر رہی ہے؟

تعلیمی اداروں میں داخلے کی اوسط عمر تقریبا پانچ سال دیکھی گئ ہے اور جنس کے لحاظ سے دیکھا جاے تو داخلوں کی شرح لڑکوں کے حوالے سے لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ دوسری طرف یہ رحجان بھی واضح نظر ا رہا ہے کہ والدین ابتدائی تعلیم کی بجائے بچوں کو پہلی جماعت سے سکول میں داخل کرواتے ہیں۔

بدقسمتی سے بچہ جب 9 سے گیارہ سال تک کی عمر کو پنچتا ہے تو اس کے سکول چھوڑنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق تقریبا 11 سال کی عمر میں زیادہ بچے سکوم چھوڑتے ہیں جس کی وجہ پرائمری تعلیم کے بعد ایلیمنڑی سکول تک رسائی نا ہونا، عمارت نا ہونا یا اساتڈہ کا نا ہونا شمار کیے گئے ہیں۔

صوبی بلوچستان میں داخلے کی سب سے زیادہ شرح 9 سال کی عمر میں دیکھی گئ ہے اور اس میں 83 فیصد لڑکوں کے داخلے جبکہ 57 فیصد لڑکیوں کے داخلے ہوتے ہیں۔ صوبہ پختونخواں  میں بھی اسی عمر میں 92 فیصد لڑکے اور 74 فیصد لڑکیاں داخلی لیتی ہیں۔

صورت حال صوبہ پنجاب میں بھی 9 سال ہی میں داخلے کی سامنے آئی مگر اہم بات یہ کہ صوبہ پنجاب میں لڑکے اور لڑکیوں کے داخلے کی شرح تقریبا برابر یعنی 90 فیصد ہے اور صوبہ سندھ میں اسی عمر میں صرف 69 فیصد لڑکے لڑکیاں داخل ہوئے۔

پاکستان کے تمام صوبوں میں بدقسمتی سے پانچ سال تک کے بچے عموما سکول میں داخل ہی نہیں ہوتے ۔بلوچستان میں 64 فیصد سولہ سال تک کے بچے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی سکول میں داخلہ ہی نہیں لیا۔کیا حکومت بلوچستان اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے؟ ان اعدادوشمار شمار کے بعد بھی حکومت کی خاموشی بہت سے سوالات اور شبہات کو جنم دیتی ہے۔

خیبر پختونخواں میں 53 فیصد سولہ سال تک کی عمر کے بچوں نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ صوبہ پنجاب میں یہ شرح 39 فیصد ہے اور عمر سولہ سال جبکہ سندھ میں اسی عمر کے 63 بچے کبھی کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے پاے۔

سکول نا جا پانے والے بچوں میں 54 فیصد لڑکیاں اور 46 فیصد لڑکے ہیں۔ یعنی بدقسمتی سے ساڑھے 10 کڑوڑ بچیاں پاکستان میں کبھی سکول نہیں جا پائیں ۔

صوبہ بلوچستان کے 16 ڈسٹرکٹ میں لڑکیوں کے سکول نا جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں نوشقی مسرفہرست ہے۔خیبر پختونخواں کے 22 ڈسٹرکٹ میں کوہستان ڈسٹرکٹ میں لڑکیوں کے سکول نا جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔جبکہ پنجاب میں 22 ڈسڑکٹ میں میانوالی، بھکر،اٹک اور چنیوٹ میں یہ شرح سب سے زیادہ اور سندھ کے 17 ڈسٹرکٹ میں لڑکیوں کے سکول نا جانے کی شرح لڑکوں سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں تقریبا 77 فیصد لوگ دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔ دیہی علاقوں میں سکول نا جانے والے بچوں کی تعداد 4۔15 کڑوڑ جبکہ شہروں میں رہائش پذیر آبادی میں یہ تعداد 6۔4 کروڑ ہے۔

سب سے اہم بات جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ بچوں کے سکول نا جانے کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان میں بڑھتی ہوئ آبادی اور مہنگائی نے جہاں دو وقت کی روٹی مشکل کی ہے وہیں والدین کی توجہ پڑھائی سے مزدوری کی جانب راغب کر دی ہے۔ ایک اور اہم وجہ والدین کا خود تعلیمی یافتہ نا ہونا بھی ہے۔  بچوں کو سکول نا بھیجنے کے حوالے سے جو سب بڑی وجہ سامنے آئی ہے وہ والدین کا یہ اعتراض ہے کہ ” تعلیم بہت مہنگی ” ہے۔

87 فیصد والدین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو سکول اس لیے نہیں بھیجتے کیونکہ وہ تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے۔جبکہ 13 فیصد میں شمار دوسری وجوہات ہیں۔

سکول چھوڑنے کے حوالے سے جب اعدادوشمار پر نظر دوڑائی گئ تو سب سے بڑی وجہ بچوں کا سکول جانے کے لیے راضی نا ہونا تھا۔ یہ بظاہر بچوں کی ضد، لاپرواہی یا کام چوری کہی جا سکتی ہے .

مگر یہاں قابل غور اساتذہ کا تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ رویہ بلکہ سخت رویہ بھی ہو سکتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں عموما اساتذہ پڑھائی سے زیادہ بچوں سے اپنے ذاتی کام کرواتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور وجہ تدریسی عمل بھی ہے جو بچے کو تعلیم کی اہمیت سے اگاہ ہی نہیں کر پاتا۔

پاکستان کے 21 ڈسٹرکٹ میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح دس فیصد سے بھی کم ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق بچے دس جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔

حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ پرائمری لیول سے ایلیمنڑی اور پھر سیکنڈری یہ تمام وہ مراحل ہیں جن کے مکمل اعدادوشمار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔ سالانہ جائزہ رپورٹ بھی اگر حکومت وقت کو اپنی تعلیمی اصلاحات پر نظر ثانی پر مجبور نہیں کر پا رہی تو مزید کیا امید ؟

یکساں نصاب، قرانی تعلیم، دوپٹہ ،ٹوپی سے آگے نکل کر پہلے بچوں کی تعلیمی اداروں میں موجودگی اور داخلے کو ہر صورت ممکن بنانا ترجیح ہونی چاہئے۔ ہر بچے تک مفت تعلیم کا حصول حکومت پاکستان کی پہلی ذمہ داری ہے۔

 

Back to top button