خبریں

کوہ پیما محمد علی سد پارہ کے انتقال کی سرکاری سطح پر تصدیق

گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت ناصر علی خان کا کہنا ہے کہ حکومت ،پاک فوج اور محمد علی سدپارہ کے لواحقین اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستانی کوہ پیما اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں ۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی ایوی ایشن اور حکومت نے گزشتہ 13 دن سرتوڑ کوشش کرنے کے باوجود علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کوہ پیمائوں کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تاہم ناکام رہے جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما اب نہیں رہے ہیں،علی سدپارہ اور ان کے بیٹے ساجد سدپارہ کو سول اعزاز دیا جائے گا۔
ناصر علی خان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو سکردو ایئر پورٹ علی سدپارہ کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز دیں گے جب کہ مایہ ناز کوہ پیما کے نام سے کوہ پیمائی کی تربیت کے لیے سکول بھی قائم کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت قومی ہیرو کی خدمات کو سلام پیش کرتی ہے،
علی سدپارہ کے بچوں کی مالی اور اخلاقی معاونت کی جائے گی جب کہ انہیں سکالر سپش دی جائیں گی جب کہ کوہ پیمائی کے دوران حادثات کا شکار ہونے والے کوہ پیمائوں کے اہل خانہ کی مالی امداد کے لیے قانون بنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی مہم پر جانے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں کو لاپتہ ہوئے 13 دن سے زائد ہوگئے۔
لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاکستان آرمی ایوی ایشن ، پاک فضائیہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے سرچ آپریشن میں تینوں کوہ پیمائوں کا سراغ لگانے کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں۔علی سدپارہ اور ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش میں نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی گئی بلکہ پاک فوج نے ریسکیو ہیلی کاپٹرز اور سی 130 جہازوں کے علاوہ ایف 16 جنگی طیاروں سے بھی دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کے علاقے کے فوٹو گرافک سروے اور سرچنگ میں مدد فراہم کی۔
ان کی تلاش میں آئس لینڈ کی خلائی ایجنسی نے سٹیلائٹ کی جدید ٹیکنالوجی سے علاقے کی تصاویر بنائیں اور کئی مایہ ناز کوہ پیمائوں کی جانب سے زمینی سرچ آپریشن بھی کیا گیا لیکن علی سدپارہ اور ساتھیوں کا سراغ نہیں مل سکا۔عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسم سرما میں بغیر آکسیجن کے سر کرنے نکلے تھے تاہم 5 فروری کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ۔ کوہ پیماؤں کا آخری مرتبہ رابطہ 8200 میٹر بلندی پر بوٹل نک سے ہوا تھا۔
کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش میں ریسکیو اراکین نے ہیلی کاپٹرز سے 7800میٹر بلندی پہ پرواز کی لیکن انہیں کسی بھی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔لاپتہ ہونیوالے کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے فضائی سرچ آپریشن میں نامور نیپالی کوہ پیما شرپا چنگ دوا اور ساجد سدپارہ نے بھی حصہ لیا تھا۔ فضائی سرچ آپریشن کے بعد ساجد سدپارہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سکردو پہنچا دیا گیا تھا۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی سرمائی مہم جوئی ٹیم کا حصہ تھے۔ ساجد سدپارہ اپنے والد کے ساتھ مہم میں شامل تھے لیکن کے ٹو کی انتہائی بلندی کے قریب پہنچنے پر ان کے آکسیجن ریگولٹر میں خرابی آئی تو والد کے اصرار اور ہدایت پر وہ واپس نیچے آگئے تھے۔
نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لاپتا ہونیوالے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا کہ سردی میں کلائمنگ بہت الگ ہے ، والد نے 8 پہاڑ سر کیے تھے اورصرف 6 رہتے تھے ، میرے والد کو یہ کام بہت پسند تھا ، والد کا خواب پورا کرنے کے لیے پرعزم ہوں اور اس سلسلے کو جاری رکھوں گا تاکہ پاکستان کا نام روشن کروں۔

Back to top button