پختون معاشرے میں بیٹے اور بیٹی کے حقوق برابر کیوں نہیں؟
یہ کہانی ہے پاکستان کے خوبصورت علاقہ وادی سوات کی ایک دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والی زرمینہ بی بی (فرضی نام) کی،جو کہ ایک سرکاری محکمے میں کام کرتی ہے ان کے چار بھائی اور دو بہنیں ہے، زرمینہ نے ایک ایسے خاندان میں محنت اور تعلیم حاصل کرکے اپنا ایک مقام بنایا ہے جہاں تعلیم حاصل کرنا ان کے لئے خود ایک بڑا چیلنج تھا۔
زرمینہ کے مطابق انہوں نے ایم فیل کی ڈگری حاصل کی ہے مگر وہ بتاتی ہے کہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تک انہوں نے اپنے اور اپنی بہنوں کی زندگی میں صرف پابندیاں اور بھائیوں کی زندگی میں اگے جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے آزادیاں دیکھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جب تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود گاؤں کے سرکاری سکول سے میٹرک پاس کیا تو اس کے بعد گھر میں بڑی منت سماجت کرکے انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا، ان کے مطابق ماسٹرز تک ایک کلاس کے بعد دوسری کلاس میں داخلہ لینے کے لئے ہر بار ہی منت سماجت کرنا پڑتی اورگھر والوں کو اعتماد دلاتی کہ میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤنگی جس سے کبھی باپ یا بھائیوں کو شرمندگی ہو۔
زرمینہ کہتی ہے کہ اس نے بچپن ہی سے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے گھر میں زیادہ توجہ بھائیوں کو دی گئی ہے مگر میں نے اس امتیازی سلوک کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا اور ان تمام تر مشکلات کے باوجود اعلی تعلیم حاصل کیا اور اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہوں۔
لیکن ان کے مطابق پشتون معاشرے میں اب بھی یہی تسلسل چلا آ رہا ہے اور بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کو بہت توجہ دیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ معاشرے میں لوگ مساوی حقوق دینے کی بات کرتے ہے اور اس کے لئے آواز بھی اٹھاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی اپنے گھر سے اس تفریق کو ختم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
پشتون روایات اور بیٹے، بیٹی کے حقوق:
پاکستان میں انسانی حقوق کے تنظیم (ایچ ار سی پی) کے خیبرپختونخوا کے وائس چیئرمین اکبر خان پاکستان اور باالخصوص پشتون معاشرت میں بیٹا بیٹی یا صنفی تفریق کے حوالے سے کہتے ہے کہ پشتون معاشرے میں صنفی تفریق کی جڑین بہت گہری ہیں ۔ یہ درست ہے کہ پشتون معاشرے میں بیٹی کے بجائے بیٹے کو فوقیت حاصل ہے اور یہ رجحان صدیوں سے چلتا آُرہا ہے۔ ہم دیکھتے ہے کہ انسانی زندگی مسلسل تغیر کا شکار ہے اور یہ اثرات پشتون معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں لیکن یہاں اس کا رفتار یا شرح کم ہے، پھر بھی ہمیں پشتون معاشرے میں زندگی کے مختلف حصوں مثال کے طور پر سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدان میں واضح فرق نظر آنا شروع ہوئی ہے لیکن رجعتی قوتیں اور روئے بھی موجود ہیں اور کبھی کبھی اس کا شدت سے اظہار بھی کرتی ہے۔
اکبر خان کے مطابق صنفی برابری، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اور خود لڑکیوں کو خود یقین اور تسلسل کے ساتھ اس کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے اور جو تھوڑے بڑے مواقع موجود ہے اس سے استفادہ حاصل کرناچاہئے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن شاد بیگم بھی کہتی ہیں کہ پشتون معاشرے میں بیٹی اور بیٹے کا فرق تھوڑا بہت کم ہوا ہے لیکن یہ کلچر ابھی بھی ہے، مثال کے طور پر، لڑکیوں کو پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دوسرے ترقی یافتہ ممالک تک بھیجا جاتا ہے۔
ان کی مطابق بیٹی کو برابر کےحقوق میں دوسرا مسلہ جائیداد میں حصہ نہ ملنے کا ہے، اور تشویشناک حد تک یہ کلچر موجود ہے کہ بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔
شاد بیگم کہتی ہے کہ لڑکیاں مختلف رسومات کے بھینٹ چڑھائی جاتی ہے،سوارہ کی رسم بھی لڑکی پر تمام ہوجاتی ہے اور غیرت کے نام پر بھی اکثر عورت ہی جان سے ماری جاتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ لڑکیوں یا بیٹیوں کے ساتھ باالخصوص پختون معاشرے میں غیر مساوی سلوک گھر سے لیکر معاشرے اور ریاست کی حد تک ہے، مثال کے طور پر اگر لڑکی کو گھر کے طرف سے پرائمری سے اگے تعلیم کی اجازت نہیں دی جاتی تو وہاں ان کے لئے سکول کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی بیٹی پر پیسے خرچ کرتے ہے ادھر بھی ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔
اور اگر بیٹی کو بیٹے کیساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی دیا جائے تو پھر اس کو مخصوص شعبوں یعنی تعلیمی اداروں یا میڈیکل میں جانے کی اجازت ہوتی ہے لڑکی کو اپنے مرضی کے شعبے میں جانے نہیں دیا جاتا یہاں بھی لڑکی برابری کے حقوق سے محروم ہے۔
شاد بیگم مزید کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے کوئی خصوصی ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں ، دفاتر میں خواتین کے لیے کوئی مخصوص یا پرائیویٹ جگہ موجود نہیں، یہاں تک کہ خواتین کے ساتھ گھر سے معاشرے اور پھر اداروں میں بھی مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں۔
شاد بیگم کے مطابق ترقیاتی منصوبوں میں خواتین کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کسی علاقہ میں ترقیاتی کام ہو تو اس میں خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے اگر کسی علاقہ میں سروے ہو تو وہ بھی اس بات پر مبنی نہیں ہوتا کہ علاقے میں خواتین کی شرح کتنی ہے یا خواتین کے لیے ان کی تعداد کے برابر خواتین ڈاکٹرز اور زندگی کے باقی وسائل میسر کی جائے، اسی طرح معاشرے میں بیٹے اور بیٹی میں فرق زندگی کے ہر شعبے میں واضح نظر آتا ہے۔
ان کے مطابق خواتین کے حقوق کے لئے حکومتی سطح پر اور غیر سرکاری اداروں کیجانب سے کئی ایک اقدامات ہوتے ہے لیکن پھر بھی بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق میں واضح کمی نہیں آتی۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے عمران ٹکر کہتے ہے، وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہے کہ پشتون معاشرے میں باالخصوص بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ان کے مطابق تعلیم اور شعور کے ساتھ اس میں تبدیلی آئی ہے لیکن یہ چیز ابھی بھی روایتی طور پر ہمارے ذہنوں میں پڑا ہے، زیادہ تر ابھی بھی لڑکوں کو ترجیح دیا جاتا ہے ۔
ٹکر کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں بیٹے اور بیٹی کی درمیان صنفی تفریق ۵۰ سے بھی زیادہ ہےاور یہ تفریق ہر جگہ میں نظر اتا ہے، جائیداد میں بالکل حصہ ہی نہیں دیا جاتا۔ ان کے مطابق تعلیم کی حد تک انٹرمیڈیٹ تک ابھی لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے لیکن باقی شعبہ ہائے زندگی میں بیٹی یا لڑکی ہر جگہ صنفی تفریق کا شکار ہوجاتی ہے۔
عمران ٹکر کے مطابق نصف ابادی خواتین پر مشتمل ہوتی ہے اور مرد اور خاتون ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے ہے اس لئے اگر بیٹے یا مرد کی تعلیم و تربیت کی جائے بیٹی یا لڑکی کو اس سے محروم رکھے تو یہ ایک کامیاب معاشرہ نہیں کہلایا جاتا۔
پشتون معاشرے میں بھی یہ فرق موجود ہے اور بیٹیوں کو زندگی کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں پیچھے رکھا جاتا ہے یہ نہ صرف بیٹی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا ہے بلکہ بیٹی کو تو دین اسلام نے بھی پورے حقوق دیئے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کے مطابق اسلام ایک ایسا عظیم مذہب ہے، اسلام سے پہلے لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جانوروں کی طرح کا سلوک ہوتا تھا ظلم ہوتا تھا لیکن پھر قرآن پاک میں بیٹی اور بہن کو جائیداد دینے کا حکم آیا، بیٹی کو رحمت کہا گیا اور ماں کے قدموں تلے جنت کا تک کا ذکر بھی ہے۔
قاسم محمود کے مطابق جب لڑکی پیدا ہو ئی تو شریعت نے اس کو اتنی بڑی اہمیت دی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، اگر کسی گھر میں لڑکی پیدا ہو جائے اور اس کی اچھی تربیت کی جائے اس کو بوجھ نہ سمجھا جائے اور پھر اچھی جگہ اس کا رشتہ کیا جائے تو وہ شخص جنت میں پیغمبرﷺ کیساتھ داخل ہو گا۔
مولانا قاسم مزید کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں بیٹی کو زیادہ اور بیٹی کو کم ترجیح دی جاتی ہے تو یہ بہت نا مناسب عمل ہے کیونکہ دین اسلام نے بیٹی اور بہن کو بہت بڑی اہمیت دی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکنوں کے مطابق خواتین ابادی کا نصف حصہ ہوتی ہے ایک کامیاب معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں بلکہ فیصلی سازی کی حد تک شامل کرنا چاہئے۔پاکستان میں۲۰۲۳ کے مردم شماری اور خانہ شماری کے مطابق ملک کی کل ابادی ۲۴کروڑ ۱۴ لاکھ سے زیادہ تھی، جسمیں خیبرپختونخوا کی آبادی چار کروڑ ۸۵لاکھ سے زائد ہے۔پاکستان کی کل ابادی میں مردوں کی تعداد ۱۲کروڑ اور ساڑھے بارہ لاکھ سے زیادہ جبکہ خواتین کی تعداد ۱۱ کروڑ ۹۲ لاکھ سے زیادہ ہے۔