’’کم عمری میں شادی، ادھوری تعلیم اور پھر شوہر کا انتقال‘‘سوات کی گلنار کی کہانی
اگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی ہوئی ہوتی تو آج کم از کم اس تعلیم کی بنیاد پر نوکری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تو نہ ہوتی، ایسا کہنا ہے سوات سے تعلق رکھنے والی بیوہ گلنار بی بی کا جو شوہر کے انتقال کے بعد اپنے بچوں کی کفالت کے حوالے سے مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔
اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند گلنار کی شادی کم عمر میں کردی گئی تھی ۔ شادی کے وقت گلنار صرف نویں (نہم) جماعت کی طالبہ تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے ان کے شوہر نے شادی کے بعد انہیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی اور گلنار نے شوہر کے گھر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
اس کے بعد تعلیم کو جاری رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن خاوند کے گھر کے ذمہ داریاں کالج جانے کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بارویں جماعت تک پرائیویٹ پڑھا ۔ لیکن بچوں کی پیدائش اور گھریلوں ذمہ داریاں بڑھنے کے بعد تعلیم کے حصول کا یہ سلسلہ مزید جاری نہ رہ سکا۔
گلنار اب تین بچوں کی ماں ہے اور ان کا شوہر وفات پاچکا ہے۔ بچوں کی کفالت، دکھ بھال اور تعلیم کی ذمہ داری گلنار کے کندھوں پر ہے کیونکہ ان کے سسرال والوں نے انہیں بچوں سمیت گھر سے نکال دیا ہے۔
گلنار کا ایک بھائی ہے جو ان سے عمر میں چھوٹا ہے اور بمشکل اپنے غریب ماں باپ کی کفالت کی ذمہ داری ادا کررہا ہے۔
کرائے کے مکان میں رہائش پذیر گلنار کہتی ہیں کہ وہ کم عمری میں شادی اور پھر گھریلوں ذمہ داریوں کے باعث وہ اچھی تعلیم نہیں حاصل کرسکیں۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کی بنیاد پر تو کوئی پرائیویٹ سکول بھی نوکری پر رکھنے کو تیار نہیں ہے ایسے میں وہ ذکوۃ، خیرات اور لوگوں کی مدد سے اپنے بچوں کی کفالت کررہی ہیں، لیکن ایسا کب تک چلے گا۔
کم عمری کی شادی کے اثرات
کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کو روکنے کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’دی اویکنگ ‘‘ کا کہنا ہے کہ پشتون معاشرے میں یہ روایت اب بھی موجود ہے کہ لڑکیاں ابھی سکول پڑ ھ رہی ہوتی ہین کہ والدین ان کی شادی کرادیتے ہیں۔ شادی سے نہ صرف اس کی پڑھائی کا سلسلہ رک جاتا ہے بلکہ اس کےتولیدی اور جسمانی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کم عمری میں اسے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال پر مجبور کیا جاتا ہے جسے وہ پورا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
سوات میں کم عمری میں شادی کی شرح
سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دی اویکننگ کے سربراہ عرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ تنظیم نے 2018 میں سوات میں کم عمری کی شادی کی شرح کا تعین کرنے کے لیے 2000 خاندانوں کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ سوات میں کم عمری کی شادی کی شرح 67 فیصد ہے۔ تنظیم کے سربراہ عرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی شرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہے اور شہری علاقوں میں یہ شرح قدرے کم ہے۔
کم عمری کی شادی کی وجوہات
بچوں کے حقوق اور کم عمری کی شادیوں پر کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن کی بڑی وجہ سماجی اور معاشی مسائل ہیں، مثلاً لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی وقت پر ہو جائے، تاکہ عمر بڑھنے کی وجہ سے بعد میں شادی کا مسئلہ نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ کوئی زیادہ عمر کیوجہ سے رشتے ہی نہ ہو۔
سماجی کارکنوں کے مطابق ایک اور اہم وجہ غربت ہے، لوگ زیادہ بچے نہیں رکھ سکتے اور انہیں اچھی تعلیم نہیں دے سکتے، کیونکہ لڑکیوں کی چھوٹی عمر میں شادی ہو جاتی ہے، بوجھ کسی اور پر ڈال دیا جاتا ہے، ان میں سے اکثر لوگ تعلیم کے برے اثرات یا لڑکیوں کی صحت پر پڑنے والے برے اثرات کے بارے میں نہیں سوچتے۔ معاشرے میں لڑکوں کو الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر تعلیم حاصل کرے تو ٹھیک ورنہ پھر بھی مزدوری سے گھر والوں کا پیٹ پال سکتا ہے، ان وجوہات کیوجہ سے پھر لڑکیوں کو پوری زندگی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں۔
پاکستان میں کم عمری کی شادیاں
اقوام متحدہ اور پاکستان میں خواتین کے قومی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے جہاں 18 سال سے کم عمر میں سب سے زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد کم عمر لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔
خیبرپختونخوا بھی ایک ایسا صوبہ ہے جہاں انگریزوں کے دور میں بچوں کی شادی کو روکنے کا قانون موجود ہے جس میں لڑکوں کی شادی کی عمر 18 اور لڑکیوں کی 16 سال ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 15 سال سے کم عمر کے 4.6 ملین بچے اور 18 سال سے کم عمر کے 18.9 ملین لڑکے اور لڑکیاں شادی شدہ ہیں۔
پاکستان میں شادی کے قوانین
عرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نابالغوں کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں شادی کا موجودہ قانون 1929 کا ہے، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے قوانین بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں نابالغوں کے لیے قانون بنایا گیا ہے اور لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔
پھر پنجاب میں لڑکوں کے لیے 18 سال اور لڑکیوں کے لیے 16 سال لیکن وہاں سزا کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان میں 2021 میں قانون بن چکا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تک کوئی قانون نہیں بن سکا، صرف مسودہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کی شادیوں کے قانون کے مسودے پر کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں، تاکہ جب وہ اعتراضات ختم ہو جائیں، امید ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس پر قانون سازی کی جائے گی اور کم عمری کی شادیوں کو روکا جائے گا۔